Welcome

Welcome to my blog with Islamic greeting "Assalam-o alaikum warahmatullah-i wabarakatuh" (Noorain Alihaque)

Sunday, 27 November 2011

تسلیمہ نسرین کی گستاخیوں کا علاج؟

نورین علی حق
آج کے اخبارات میں یہ خبر بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے کہ تسلیمہ کے خلاف مہاراشٹر کے ۴۸؍پولیس اسٹیشنوں میں شکایت درج کرائی گئی ہے جب کہ ان میں سے چند تھانوں کے افسران کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی ہے ۔چند افراد پر مشتمل ایک وفد نے ملاقات کی تھی جسے ہم نےمشورہ دیا کہ آپ حکومتی سطح سے اس بات کو اٹھائیں تاکہ اسے بڑے پیمانہ پر اٹھایا جاسکے ۔
یہ سلسلہ اس بار رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ،خود تسلیمہ بھی حصول شہرت کے اس حسین موقع کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتیں،چوں کہ اس سے قبل ہی وہ ادب کے نام پر اپنے تمام ہفوات قارئین کے حوالہ کرچکی ہیں اور اب ان کی جھولی ان ہفوات سے بھی خالی ہے جن سے نئی نسل اورپرستان ہوس جھوٹی لذتوں سے شادکام ہوا کرتے تھے ۔اب وہ بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ انہیں مفت کی شہرت بہر حال مسلمانوں کو ٹھیس پہنچاکر ہی مل سکتی ہے ۔چوں کہ اگر وہ عیسائی ویہودی اعتقادات کو زک پہنچائیں گی تو ان کا حقہ پانی تو بند ہوگا ہی ان کی زندگی کے لالے بھی پڑ جائیں گے اور خواہ مخواہ جان سے ہاتھ دھونا پڑ جائے گا، جہاں تک ہندوازم کی مخالفت کی بات ہے تو اس وقت ان کا واحد ٹھکانہ ہندوستان کی سر زمین ہے ۔ اگرانہیں یہاں رہنا ہے تو ہندوتو کو خوش رکھنا ہی ہوگا ۔جس کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ قرآن وصاحب قرآن کا وہ مذاق اڑاتی رہیں اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں سو فی صد کامیاب ہیں ۔اس سلسلہ میں یہ بھی قابل غور ہے کہ ان کی زبان کی ترسیل جتنی جلدی ہندوستانیوں میں ہوگی اتنی آسانی سے عربوں میں نہیں ہوسکتی اس لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے سر پر مسلط رہیں اور وقتا فوقتا انہیں ان کی اوقات یاد دلاتی رہیں۔تاکہ ان کے مغربی آقائوں کے ذریعہ ان کی دال روٹی کا انتظام ہوتا رہے اور مسلمان مرغ بسمل کی طرح بے بسی میں چھٹپٹانے کے علاوہ کچھ بھی نہ کرسکیں ۔
یہ تمام باتیں تو سمجھ میں آتی ہیں ،ان کے برعکس یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمان انہیں مفت کی شہرت طشت میں سجا کر پیش کرنے کے لیے کیوں اتائولے ہوتے ہیں ؟وہ توبیان دے کر خاموش ہوجاتی ہیںاور شاید اس امید پر چین کی بانسری بھی بجاتی ہوںگی کہ اب آگے کاکام مسلمان کردیں گے اور مسلمان ہندوستان کے طول وعرض میںان کے خلاف جھنڈے لے کر نکل جاتے ہیں ،گوکہ ان کے احتجاجوں اور مظاہروں کا مثبت فائدہ کچھ نہیں ہوتا اور تمام اردو اخبارات کے صفحات کے صفحات بھی سیاہ ہوجاتے ہیں ۔
یہ بھی قرین قیاس ہے کہ چند مسلم لیڈران خود ہی ان مواقع کے متلاشی رہتے ہوں گے تاکہ انہیں بھی چھپنے چھپانے کا موقع ملتارہے اور ان کا بھی ملت کے بہی خواہوں میں شمار ہوتا رہے ۔تسلیمہ نے اس بار مسلم عورتوں کو بھونڈا سا ایک مشورہ دیا تھا تب سےاب تک ان کی مخالفتوں کا بازار گرم ہے ۔
فی الوقت مہاراشٹر کے پولیس افسران کی طرح مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ آپ اتنے بڑے معاملے کو انفرادی طور پر نہ اٹھائیں ۔پہلے اتحاد کی قوت مجتمع کریں ،غیر مفاد پرست علما کا ایک پینل بنائیں اور اس کے تحت ان کی مخالفت کریں اور ایسے افراد کو بھی اپنے احتجاج میں شامل کریں جو حکومتی سطح پر اثرورسوخ رکھتے ہوں تاکہ حکومت آپ کے مطالبات پر غور کرے اور دریدہ دہنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے ۔جس ڈھب پر ہم اب تک تسلیمہ نسرین ،سلمان رشدی اور ان جیسے بے شمار لوگوں کے خلاف احتجاج کرتے آئے ہیں، وہ موثر طریقہ کار ہے ہی نہیں ۔اس سے خود مسلمانوں کا خسارہ ہوتا ہے اور ایک آدھ ناخوش گوار واقعہ کے رونما ہونے کی وجہ سے پوری ملت بھی بدنام ہوجاتی ہے ۔اگرمذاہب کے خلاف دریدہ دہنی کی روک تھام کے لیے بین مذاہب کوئی موثر کوشش ہوسکتی ہے تو اسے بھی ہمیں آزمانا چاہیے ۔اس زوال آمادہ زمانے میں بھی تمام مذاہب کے ماننے والوں میں ایسے افراد ضرور ہیں جو کسی بھی مذہب کے خلاف ایک حرف سننے کے قائل نہیں ہیں ۔اس پہل سے آپ کی سعی اصل معنی میں رنگ لائے گی اور آپ اپنے مقاصد میں بھی کامیاب ہوں گے ۔ اس وقت اپنے مسائل کی صلیب انفرادی طور پر اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔اس وقت ہر سطح پر اتحاد کی ضرورت ہے ۔ہم کب تک غیر موثر طریقہ کا ر کو اختیار کرکے شر پسند عناصر کے مقاصد کے حل کا غیر شعوری حصہ بنتے رہیں گے ۔تھانوں کا چکر نہ لگا کر ہم سونیا گاندھی اور وزیر اعظم سے مداخلت کا مطالبہ کریں اور دوبہ دو گفتگو کریں کہ ہمارے مسائل حل کریں یا ہمارے پاس ووٹ کے لیے نہ آئیں ۔تسلیمہ نسرین جتنی شہرت اپنی تحریروں اور اپنے اسلوب سےحاصل نہیں کرسکیں اس سے زیادہ ہم نے ان کی مخالفت کے ذریعہ انہیں شہرت دی ہے ۔اگر ہم متحد ہوکر ان کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اب ہم ان کے معاملہ کو اللہ کے حوالہ کردیں اور ان کے بیانات کو پاگلوں کی بڑ سمجھ کر ان پر کان ہی نہ دھریں۔ ث

Thursday, 27 October 2011

NOORAIN ALI HAQUE: میڈیا ہندواور مسلمانوں میں تفریق کررہا ہے:ذوقی

NOORAIN ALI HAQUE: میڈیا ہندواور مسلمانوں میں تفریق کررہا ہے:ذوقی: مشرف عالم ذوقی محتاج تعارف نہیں۔۱۹۸۰ کے بعد کے فکشن نگاروں میں آپ کا بڑا نام ہے۔ خاص طور پر آپ نے اپنے فن میںمسلمانوں کے مسائل کو اٹھایا ہ...

میڈیا ہندواور مسلمانوں میں تفریق کررہا ہے:ذوقی

مشرف عالم ذوقی محتاج تعارف نہیں۔۱۹۸۰ کے بعد کے فکشن نگاروں میں آپ کا بڑا نام ہے۔ خاص طور پر آپ نے اپنے فن میںمسلمانوں کے مسائل کو اٹھایا ہے۔ آپ کے درجنوں افسانوی مجموعے اور درجنوں ناول منصہ شہود پر آچکے ہیں۔ ان میں خاص طور پر ’بیان‘ ’مسلمان‘’ذبح‘ ’پوکے مان کی دنیا‘پروفیسرایس کی عجیب داستان‘ لے سانس بھی آہستہ…‘ ’آتش رفتہ کا سراغ ،اپنے موضوع اورپیش کش کی وجہ سے پسند کیے گئے ہیں۔ ذوقی افسانہ نگار اورناول نگار کے ساتھ ایک کامیاب پروڈیوسر اور ڈائرکٹر بھی ہیں۔ بالعموم ان کی کہانیاں موضوعی ہوتی ہیں۔ فسادات وواقعات پر یہ خوب برستے ہیں۔ معاصر ادبی وصحافتی رویوں پر مبنی ان سے کیاگیا انٹرویوحاضر ہے۔(نورین علی حق٭)

نورین:پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیاکے حوالے سے آپ کی کیاخدمات ہیں اور کب سے آپ اس میں لگے ہوئے ہیں؟
ذوقی: صحافت سے میری دلچسپی شروع سے رہی۔ ادب کو جب میں نے سوچنا شروع کیا تو ایسا لگا کہ ادب کے علاوہ صحافت کے میدان میں بھی اترنا چاہئےاس لیے میں نے دونوں ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا فیصلہ کیاشروع سے ہی کہانیاں لکھتا رہا ،ناول لکھتا رہا— سترہ سال کی عمر میں میرا پہلا ناول ’’عقاب کی آنکھیں‘‘ سامنے آیااس وقت بھی بہت سارے ایسے اخبارات تھے جن میں میرے مضامین شائع ہورہے تھے ۔ یہ باتیں میں اس لیے بتارہا ہوں کہ موجودہ صحافت وسیاست کوسمجھے بغیر اچھے ادب کی تخلیق ممکن نہیں ہے۔1985میں ،میں دہلی آیا۔ دہلی آنے کے بعد روزنامہ ہندستان اورجن ستّہ جیسے اخباروں میں لکھنا شروع کیا۔ملک کی فضاخراب ہوئی— بابری مسجد کا حادثہ پیش آیا— اس کے بعد کا جو ہندستان سامنے تھا وہ ہندستان کہیں نہ کہیں مجھے ڈرا رہاتھا۔میں نے مسلسل راشٹریہ سہارا اور دوسرے اخباروں میں مضامین لکھناشروع کیا۔یہ سلسلہ بہت لمبا چلتا رہایہاں تک کہ گجرات حادثہ سامنے آیا جب گجرات حادثہ سامنے آیاتو اس وقت مجھے اچانک محسوس ہوا کہ اس ملک میں کچھ لوگ ہیںجو آج بھی آپ کی آزادی کو کہیں نہ کہیںچھیننا چاہتے ہیںگجرات پر میری ایک کتاب شائع ہوئی لیبارٹری ،لیبارٹری کے شائع ہونے کے دو تین مہینے بعدایک رات لودھی روڈ تھانے سے دو سپاہی آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ کو لودھی روڈ تھانے میں بلایا گیا ہے جب میں وہاں گیا تو سات گھنٹے تک مجھ سے پوچھ گچھ ہوئی اور یہ پوچھ گچھ ادب اورصحافت کولے کرزیادہ رہی آخر میں مجھے ایک دھمکی دی گئی کہ آپ صحافتی مضمون لکھنا بند کردیجئے— آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ صحافتی ذمہ داری کتنی بڑی ہوتی ہے— وہ لوگ جو غلط کررہے ہیں وہ کہیں نہ کہیں خوفزدہ بھی رہتے ہیں— اس لیے صحافت اورادب دونوں کو ساتھ رکھتے ہوئے میں نے جینا سیکھا ہے۔
نورین: آپ ناول نگار اور افسانہ نگار کے ساتھ ایک ڈائرکٹر اور پروڈیوسر بھی ہیں اس حوالے سے آپ کے کیا تجربات ہیں؟
ذوقی: 1985میں،میں دہلی آیا تھا— 1987سے میری وابستگی دوردرشن سے ہوگئی تھی— اس زمانے میں دوردرشن میں سیریلس کے علاوہ ڈوکومینٹری فلم، ڈوکو ڈرامہ اور اس طرح کے پروگرام بنائے جاتے تھے۔ جن میں صحافت کو کہیں نہ کہیں دخل ہوتاتھاشاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر میں نے ڈوکومینٹری نہ بنائی ہواور ایک ڈوکومینٹری فلم کے لیے اسکرپٹ لکھنا، تحقیق کا جو کام ہے اس کی ذمہ داری بھی کم وبیش میں ہی سنبھالتا تھا۔ ادب بھی میرا موضوع رہا ہے— میں نے ہندی اور اردو کے باون بڑے لوگوں پر جن میں قرۃ العین حیدر ،نامور سنگھ ،راجندر یادو،جوگندر پال، ڈاکٹر محمد حسن شامل ہیں۔ ڈوکومینٹری فلمیں بنائی ہیں— اوریہ کام مسلسل جاری ہے— اس کے علاوہ میں نے اپنے ناول’ مسلمان‘پر ایک سیریل ’ ملت‘ کے نام سے بنایا جو بہت مقبول ہوااس کے علاوہ’ بے جڑ کے پودے‘ جو سہیل عظیم آبادی کا مشہور ناول ہے ،میں نے ای ٹی وی اردو کے لیے اس پر بھی ایک سیریل بنایاتھا۔بلونت سنگھ کا مشہور ناول ’رات چور چاند‘ میں نے اس پر بھی ڈی ڈی انڈیا کلاسکس کے لیے سیریل بنایا— میں نے اس میں ممبئی کے بڑے بڑے فنکاروں کو لیا،یہ سیریل بھی بہت مشہور ہواایک طرف فکشن ہے دوسری طرف ڈوکومینٹری فلمیںہیںزیادہ مزہ مجھے ڈوکومینٹری فلموںمیں آتا ہے چونکہ کسی نئی چیز کو دریافت کرنا جیسے ہم آپ کو بتائیںکہ وہ قبائل جو جھارکھنڈ میں رہتے ہیں یا وہ جگہ جہاں ڈاکو رہتے ہیںچمبل کی گھاٹیوں میں— تو ان جگہوں پر جانے کا اتفاق،ان جگہوں کو دیکھنے کا اتفاق،لوگوں سے ملنے کا اتفاق— تو ایک بڑی خوبصورت دنیا آپ کے لیے کھلتی چلی جاتی ہے۔اور اس دنیا کو دریافت کرنا اور ایک اینکرکے طورپرلوگوںسے گفتگو کرنا،باتیں کرنا ان کے رہن سہن کو دیکھنا— مجھے لگتا ہے کہ میری کہانیوں میں جیسا عام طور پر کہاجاتا ہے— ایک نئی دنیا کہیں نہ کہیں ذوقی ڈسکور کرتا ہے تو ان چیزوں کا بھی کہیں نہ کہیں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کئی بار مجھے لگتا ہے کہ ہمارے وہ دوست جو ادب تخلیق کرتے ہیں ،ہندستان کودیکھا ہی نہیں ہے— اس لیے ہندستان کی تہذیب سے واقف نہیں ہیں— ابھی ایک ڈوکومینٹری کے سلسلیمیںمجھے ہماچل پردیش کے ایک شہر جانے کا اتفاق ہوااور جب میں نے اس شہر کے لوگوں سے ملاقات کی ان کے رہن سہن ،پہناوے اور ان کی تہذیب کو جاننا چاہاتو مجھے بہت سی نئی معلومات حاصل ہوئیںجیسے ایک اطلاع تو یہ تھی کہ وہاں آج بھی پانڈو کی رسم موجود ہے— ایک لڑکی کی شادی پانچ پانچ بھائی سے کردی جاتی ہے اگر سب سے چھوٹے بھائی کی عمر ایک سال ہے تو وہ بھی اس لڑکی کا شوہر ہوتا ہے اور جب وہ بڑا ہوتا ہے اور وہ لڑکی ادھیڑ یا بوڑھی ہوچکی ہوتی ہے وہ بچہ جوان ہوکر اپنا شوہرانہ حق مانگ سکتا ہے۔ میں یہ بات اس لیے بتا رہاہوں کہ ہندستان کی اپنی ایک رنگا رنگ تہذیب ہے— ایک گنگا جمنی کلچر ہے کہاجاتا ہے کہ اتنی ندیاں ہیں اتنے پہاڑ ہیںاتنے رنگ ہیں— ڈوکومینٹری فلم بناتے ہوئے ان تمام تر رنگوں کو دیکھنے کا بہت قریب سے احساس ہوتا ہے اور مزہ آتا ہے— اس لیے فیچر سے زیادہ ڈوکومینٹری فلمیں بنانے میںمجھے زیادہ مزہ آتا ہے۔
نورین:ابھی دوردرشن کے حوالے سے ایک بات سامنے آئی کہ اردوپروجیکٹس کی منظور ی کے باوجوداس کو کلیئر نہیں کیاجارہا ہے اور اردو والوں کے بہت سے پروگرام زیر التوا ہیں اس سلسلے میں آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
ذوقی: آپ نے دوردرشن کے ارد و چینل کا ذکر کیا ہے میں اپنی بات یہیں سے شروع کرتاہوں جب دوردرشن کے اردو چینل کا اعلان ہوا اس وقت ای ٹی وی اردو کو چھوڑ کر اور کوئی اردو چینل موجود نہیں تھا آزادی کے ۶۵ برسوں میں اس بات کا شدت سے احساس ہواکہ جس زبان کا رشتہ روزی روٹی سے کاٹ دیا جاتا ہے وہ زبان مردہ ہوجاتی ہے۔ کم وبیش اردو کے ساتھ یہی سلوک ہوتارہا۔ای ٹی وی اردو شروع ہوااردو کو ایک اچھا خاصا حلقہ ملا ،کئی لوگوں کو نوکریاں ملیں ای ٹی وی سے پہلے یو ٹی وی ارد و تھاجوبند ہوگیا اس کے بعد ای ٹی وی کی شروعات ہوئی۔دوردرشن کو اردو میں شروع کرنے کا مطلب تھا ایک بڑا روزگار— جب دوردرشن کا اردو چینل شروع کیاگیا تو ایک گائڈ لائن بنائی گئی— اس گائڈ لائن کے مطابق کوئی بھی اردو پروگرام بناسکتا ہے۔ جس کے پاس کم سے کم پانچ سال کا تجربہ ہو،لیکن پروگرام بنانے والا کوئی بھی ہو اس کو اردو ایکسپرٹ رکھنا ضروری ہےدوسری بات جو اسکرپٹ جمع کی جائیں گی اس کی زبان اردو ہوگی— تیسری بات جو ڈائرکٹر ہوگا وہ اردو جاننے والا ہوگا ۔ایک ایسی فضا بن رہی تھی جس سے اردو کے دروازے چاروں طرف سے کھول دیے گئے ہیں— ظاہر ہے اردو والوں کی خدمات لی جائیں گی— پروجیکٹ اردو میں جمع ہوں گےپروجیکٹ اردو میں جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے لوگ جو کمپوزنگ کے فرائض انجام دیتے ہیں ان کوبھی کام ملے گا ۔تیسری بات ڈائرکٹر بھی اردو جاننے والا ہوگا ،اردو میں عام لوگوں کی دلچسپی پیدا ہوگی— بہت ممکن ہے کہ آگے آنے والے وقت میں اردو سیکھنے کا سلسلہ شروع بھی ہوجائے اور یہ شروع ہوگیاہے میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ میرے بہت سارے دوست جو میڈیا سے متعلق ہیں وہ کہیں نہ کہیں اردو کی ٹریننگ لے رہے ہیں تاکہ وہ اردو تھوڑا بہت پڑھ لکھ سکیںشروع میں دوردرشن اردو نے ایکیوزیشن پروگرام نکالا ،ایکیوزیشن پروگرام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہم لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کے پاس پہلے سے کوئی پروگرام بناہوا ہے ؟ہم کہتے ہیں کہ بناہواہےاس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ جمع کردیجئے— ہم جمع کردیتے ہیںاور وہ اس پروگرام کو اپنے یہاں دکھاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ پروگرام اردو سے متعلق ہوتے ہیں ۔شروع میں ایکیوزیشن میں جو پروگرام دکھائے گئے وہ ڈوکومینٹری یا ڈوکوڈرامہ نوعیت کے پروگرامس تھے جن میں اردو تہذیب ،اردو شاعری،اردو مثنوی، یہاں تک کہ اردو ڈرامے کو فوقیت دی گئی تھی۔یہ پروگرام چونکہ ایکیوزیشن کے تھے اس لیے ان کا بجٹ بہت کم تھا ۔2009میں یہ اعلان کیاگیا کہ اردو پروگرام کو کمیشنڈ کیا جارہا ہے— اس کے شروع ہونے کا اعلان تھا کہ پورے ہندستان میں ڈی ڈی اردو چینل کو لے کر ایک انقلاب آگیا— بالی ووڈ کے بڑے بڑے لوگ جاگ گئے دہلی جاگ گئی— یہاں تک کہ حیدرآباد، آسام، گوہاٹی ان جگہوں میں جو لوگ تھے وہ لوگ بھی پروگرام بنانے کے لیے سامنے آگئے— اب دیکھیے کہ ایک تیر سے اردو چینل نے کتنے راستے پیدا کیے— آسام جہاں اردو نہیں ہے حیدرآباد جہاں اردو ہے لیکن ایک بڑا طبقہ جو فلمیں بناتا ہے وہ اردو نہیں جانتا ہے یہ سارے کے سارے لوگ میدان میں اترپڑے بڑے پیمانے پر پروگرام جمع کیے گئے ۔جو پروگرام جمع کئے گئے جو ان کی گائڈ لائن تھی— اس میں اردو کلاسکس کے علاوہ عصری ادب کو فوقیت دی گئی تھی اور شاید ہی اردو کا کوئی ایسا ادیب ہو جس کے پروجیکٹ کو دوردرشن میں جمع نہ کیاگیا ہو— لیکن اس درمیان دوردرشن کی صورت بدلتی رہی ،دوردرشن کے سی او مسٹر لالی پر اسپیکٹرم گھوٹالے کا الزام لگا اوروہ الگ ہوگئے— ڈی جی الگ ہوگئےچیزیں بدلتی رہیں یہاں تک کہ دوسال کا عرصہ گذر گیا۔لوگ امید کررہے تھے کہ پروگرام مل جائے گا۔ درمیان میں یہ باتیں چل رہی تھیں کہ پروگرام کو ایک شکل دے دی گئی ہے اور منظوری مل گئی ہے اور جلد ہی لوگوں کے پاس خطوط روانہ کیے جائیں گے۔ لیکن اچانک ایک نئی گائڈ لائن آجاتی ہے۔وہ پروگرام جو منظور کرلیے گئے تھے وہ پروگرام نئی گائڈ لائن اور نئے پروگرام میں ضم کردیے گئے ۔ ہم لوگوں نے ابھی بھی امیدیں نہیں چھوڑی ہیں۔ یہ امید کی جارہی ہے کہ جو پروگرام پہلے منظور کرلیے گئے تھے وہ پروگرام ضرور ملنے چاہئیں اور جس کو جتنے اے پی سوڈ دیئے گئے تھے اتنے اے پی سوڈ ہی ملنے چاہئیں — 2009 میں ہم سب نے اردو پروگرام کے لیے جی جان سے محنت کی تھی—
نورین:عمومی طور پر فلموں کی زبان اردو ہوتی ہے لیکن اسے ہندی فلم کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے ۔ایسا کیوں؟
ذوقی: تمہارا سوال بہت اچھاہےاردو فلمیں پہلے بھی بنتی رہی ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک فلم آئی تھی’ طوائف ‘جو علیم مسرور کے ناول’ بہت دیر کردی‘ پر مبنی تھی۔ اس طرح وشال نے ایک فلم بنائی— مقبول ،اور جہاں تک مجھے یاد آتا ہے کہ شروع میں کچھ لوگوں نے جیسے یش چوپڑا نے بھی کچھ ایسی فلمیں بنائی تھیں جن میں اردو کا سرٹیفکیٹ دیاگیاتھا۔
شاید گلزار صاحب نے اپنی کچھ فلموں کے سرٹیفکیٹ اردو میں حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ بات صرف ایک چھوٹے سے سرٹیفکیٹ کی نہیں ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ اگر اردو والے لینے کی کوشش کرتے ہیں تو عام لوگوں تک خود بخود ایک بڑا پیغام پہنچ جاتا ہے۔ فلمی دنیا میں آج بھی اردو سے وابستہ یا اردو کو چاہنے والے ہزاروں لوگ موجودہیں جو اردو کے لیے سامنے آسکتے ہیں اوران کو اس کے لیے آگے آنا چاہئے۔
کیونکہ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ اچھی زبان کے لیے آپ کا اردو جاننا ضروری ہے ،چاہے وہ مادھوری دکشت ہو یا کوئی بھی ہو کہیں نہ کہیں اردو سے ایک وابستگی ضروری ہوتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ایسا کیوں ہورہا ہے کہ کہیں کوئی احتجاج نہیں۔ فلمیں اردو کے نام پر بنتی ہیں لیکن ان کا سرٹیفکیٹ ہندی کے طورپر ملتا ہے تو بھائی ایک بڑی سزا ہے جس کے لیے عام آدمی کو بھی کہنا بہت بھاری پڑے گا چونکہ ممبئی بالی ووڈ میں بیٹھے ہوئے لوگ پیسے کی چکا چوند میں ڈوب چکے ہیں انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ چھوٹا سا سرٹیفکیٹ جو سنسد بورڈ جاری کرتا ہے اگر اس میں اردو کا نام شامل ہوتا ہے تو یہ ایک چھوٹی بات نہیں بلکہ کتنی بڑی بات ہوگی وہ لوگ جو فلمیں دیکھ رہے ہیں جب ان کے سامنے اردو لکھا ہوا آئے گا تو کتنا بڑا فرق پڑے گا۔ آزادی کے ۶۵ برسوں میں اردو زندہ اسی لیے رہی کہ اردو اتنی میٹھی زبان تھی کہ روزی روٹی سے کاٹ دیے جانے کے باوجود زندہ رہی لیکن شاید اردو ہماری علاقائی زبانوںسے بھی کہیں بہت بعد کی زبان بن گئی تھی جو فنڈ آتے تھے ان میں بھی بہت بعدمیںاردو کو فنڈ ملتا تھا اب یہ بھی ہوتا ہے کہ جب ہندی کے بعدکہیں اردو کو لانے کی بات ہوتی ہے تو آر ایس ایس اور اسی طرح کی دیگر تنظیموں کو پریشانی ہونے لگتی ہییہ بہت بڑی ناانصافی ہے کیونکہ دیگر بہت سی ہندوستانی زبونوں سے اردو کا وجود کہیں بڑا ہے اور اردو نے آزادی کے وقت میں بھی نمایاں رول ادا کیا تھا جب آپ نے سرٹیفکیٹ کی بات کی ہے تو میں آپ کی اس جنگ میں شامل ہوں اور میری بھی یہ کوشش ہوگی کہ آگے چل کراگر کوئی فلم اردو میں بنائی جارہی ہو تو اس کا سرٹیفکیٹ اردو ملنا چاہئے سنسد بورڈ سے ہم اس کی گزارش کریںگے ۔
نورین : آج کی تاریخ میں فلمی دنیا کویعنی بالی ووڈ کو اردو زندہ رکھے ہوئے ہے یا اردو کی بقا کا ذریعہ بالی ووڈ ہے؟
ذوقی :دیکھیے ایسا ہے کہ فلموں ،مکالموں کی زبان بہت حد تک بدلی ہے لیکن اردو آج بھی زندہ ہے اور بہت شان سے زندہ ہے۔ آج فلمی دنیا کی زبان بدل گئی ہے۔ منا بھائی اور اس طرح کی جو فلمیں سامنے آئیں ان میں ایک نئی زبان تھی، موالیوں کی زبان ۔یہ زبان کم و بیش وہی تھی جو اسکول اور کالج کے بچے بولتے ہیں ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اس طرح کی فلمیں نہیں بننی چاہئیں لیکن ان فلموںنے کہیں نہ کہیں دس برسوں میں اردو زبان کو بہت حد تک نقصان پہنچا یا ہے ۔ملٹی پلیکسس کے لیے آج جو فلمیں زیادہ سے زیادہ ریلیز ہورہی ہیں جن میں وشال کی فلمیں ہیں بڑے بڑے لوگوں کی فلمیں ہیں ان میں اردو اب غائب ہوتی جارہی ہے۔ ہاں کچھ لوگوں نے اردو کو زندہ رکھا ہے ۔ایک وقت تھا جب شہر یار، ندا فاضلی،شکیل اعظمی بڑے خوبصورت اردو مکالمے لکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کا وقت تھا جب شکیل بدایونی ،مجنوں سلطان پوری یہ لوگ بھی تھے جو اردو میں بہت خوبصورت گانے لکھ رہے تھے لیکن وقت کے ساتھ کچھ چیزوں میںتبدیلی ہوتی ہے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آج بالی ووڈ کا منظرنامہ ان چیزوں کی وجہ سیبہت حد تک بدل چکا ہے اب وہ بات نہیں ہے ،کچھ لوگ کوشش کررہے ہیں لیکن دنیا تبدیل ہوچکی ہے ۔
نورین: لیبیا، افغانستان،پاکستان اور عراق وایران کے حوالے سے اردواورہندی میڈیامیںجو بعد ہے اسے کس طرح ختم کیاجاسکتا ہے ،صحیح صورت حال اور صحیح سمت کی طرف اشارہ کرنا پسند کریںگے؟
ذوقی:سب سے پہلے میں آپ کو مبارکباد دوں گا کہ آپ نے ایک بہت اچھے اوربہت ضروری سوال کی بنیاد ڈالی ہے۔ آپ نے جس موضوع کو اٹھایا ہے وہ ایک بہت ضروری موضوع ہے افغانستان کے حوالے سے عراق کے حوالے سے یاحالیہ دنگوں کے حوالے سے جو میڈیا ہمارے سامنے آرہا ہے ہم اس میڈیا پر بھروسہ نہیں کرسکتے ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہیں نہ کہیں ہم تقسیم تک پہنچ چکے ہیں 1947کا ماحول ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے آپ دیکھیے کہ کتنے بڑے بڑے دنگے ہوئے بھرت پور،ردر پور،بنارس کے حالیہ دنگوں کے بارے میںجب آپ اردو اخبارات پڑھتے ہیں تووہاں ایک الگ دنیا ہوتی ہے لیکن جب آپ ہندی یا انگریزی اخبار پڑھتے ہیں یادیگر صوبائی اخبارات جو دوسری زبانوں کیہوتے ہیں ان میں ان خبروں کو اہمیت نہیںدی جاتی ہے، گجرات فساد کے تعلق سے سنجیو بھٹ کی خبر ہی کو لیجئے تو ہندی یاانگریزی میں بس چھوٹی سی خبر بنتی ہے ۔ مودی کو ہیرو بنانے کا کام وہاں آج بھی جاری ہے ایک بات ہم اور کہنا چاہیں گے کہ میڈیاخواہ ہندی یاانگریزی ہو،پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ہو کیسے بھول جاتی ہے کہ ۲۰۰۳ میں جو فساد ہوا مودی کے اشاروں پر ہوا تھا۔ اس کے ثبوت اورچشم دید گواہ ہیں، سی ڈیز ہیں۔ اور یہ سی ڈیز تمام چینلس کے پاس آج بھی موجود ہیں وہ لوگ ہیں جو مودی کے ان کارناموں کو جانتے ہیں ،قریب سے دیکھا ہیاس کے باوجود مودی کیسے ہیرو بن سکتا ہے؟ ایک آدمی جس نے لاش کی تجارت کی ہو وہ ہیرو کیسے بن سکتا ہے؟ لیکن میڈیا آج بھی کہیں نہ کہیں مودی کے نئے کارناموں کو لیکر گجرات کی ترقی کی داستانیں سنا کراسے ہیرو بنانے کا کام کررہا ہے اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر آئیے پورے ا نشن کے دوران اناہزارے نے کہیں مسلمانوں کا تذکرہ نہیں کیا سوائے یہ کہ انشن ختم کرنے کے لیے وہاں رسم کے طور پر ایک مسلمان لڑکی بٹھادی گئی اورایک دلت کو بٹھادیا گیا اب آگے بڑھیے۔ لیبیا کے کرنل قذافیکوالیکٹرانک میڈیا نے ایک وحشی، درندہ، عیاش کے طورپر پیش کیا کم وبیش ہندی اور انگریزی اخباروں میں بھی یہی صورت حال رہی آپ اردو اخبار ات دیکھیے بالکل الگ ہیں۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کہیں نہ کہیں آنے والے وقتوں میں اڈوانی جی کی تاج پوشی کے لیے تیار ہوگئے ہیں ۔ایک بہت بڑی جنگ شروع ہوچکی ہے جہاں مسلمان حاشیے پر ہیں آپ دیکھ لیجئے کہ پچھلے دس برسوں میں کون سا فرضی انکائونٹر سامنے آیاہے ۔میں پوچھتا ہوں کہ میڈیا کے نیوز چینل یا دوردرشن میں کام کرنے والاکون فرضی انکائونٹر کے قصے کو نہیں جانتا لیکن اس کے باوجود آج بھی میڈیا وہی کھیل رہی ہے فرضی انکائونٹر ،مسلمان لڑکا ٹوپی پہنے ہوئے— کرتا پائجامہ پہنے ہوئے — وہی اردو کی چٹ ۔ پوری سوسائٹیمیں بہت خاموشی سے ایک ایسی فضا بنائی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو اور اسلام کو حاشیے پر ڈال دیا جائے کہیں نہ کہیں ابھی بھی ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل یا یہودیوں کی سازش بڑے پیمانے پر سنکھ کے لوگوں کے ساتھ ملکر اپنا کھیل کھیل رہی ہے اور اسی لیے اردو کا مزاج اور ہے اور انگریزی اور ہندی کا مزاج اور ہے یہاں تک کہ جتنے بھی نیوز چینلس ہیں مسلمانوں کو منظم طورپر حاشیے پر ڈالنے کی کارروائی کررہے ہیں اور مسلمان بھول جائیں کہ اس کے لیے آواز ہندی اور انگریزی الیکٹرانک میڈیا اٹھائے گی۔ اس کے لیے مسلمانوں کو ہی سامنے آنا پڑے گا۔ ان کو اپنے چینلس تیاکرنے ہوں گے ان کو بڑے پیمانے پر سامنے آنا ہوگا ان کو اپنی آواز اورمضبوطی سے اٹھانی ہوگی اورمستقبل میں اگر ایک بڑی جنگ لڑنی ہے تو اردو کے علاوہ انگریزی اور دیگرزبانوں میں ان کو اپنے اخبارات لانے ہوں گے ۔جہاں اپنی باتوں کو مضبوطی کے ساتھ رکھاجاسکے۔ آپ یہ بھول جائیں کہ آپ کی خبروں کو انگریزی یا ہندی اخبارات سرخیاں بنائیںگے۔ جب یہ لوگ بھرت پورکے فساد کو سرخیاں نہیں بناسکے ،ردر پور کے فساد کو سرخیاں نہیں بنا سکے ، بنارس کے فساد کو سرخیاں نہیں بناسکے تو ان کو آپ کے ساتھ کہیں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ہاں جہاں آپ پر شک کی سوئی ہوتی ہے جہاں انہیں ایسا لگتا ہے آپ کو ذلیل کیا جاسکتا ہے وہاں یہ سامنے آئیںگے، وہاں یہ دکھائیںگے۔ لیکن آپ کے مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
نورین: اردو اخبارات اب کارپوریٹ سیکٹر کی زینت بنتے جارہے ہیں اورآر ایس ایس جیسی تنظیمیں بھی اس میں دلچسپی لے رہی ہیں تو کیا آئندہ اردو صحافت بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گی اور اس کے ذریعہ بھی انہیں شکار بنایا جائے گا۔؟
ذوقی: میرا شمار ترقی پسندوں میں کیا جاتارہا ہے عام طور پر میراخیال تھا کہ زبان کسی کی جاگیر نہیں ہوتی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ میرا یہ خیال غلط ہوتا گیا اور اردوزبان سمٹتی چلی گئی اور اس کے جاننے والے صرف مسلمان رہ گئے۔ ایسا ہم نے نہیں کیا ان لوگوں نے کیا کہ انہوں نے اردو کو خالص مسلمانوں کی زبان بنادی۔ آزادی کے وقت معاملہ دوسرا تھا اس وقت اردو سب کی زبان تھی لیکن ۶۰ برسوں میں معاملہ بالکل الٹ گیا سب سے پہلے میں کارپوریٹ سیکٹر کو خواہ وہ چوتھی دنیا ہو، جاگرن گروپ ہو یا سہارا گروپ ہو مبارک باد دینا چاہوں گا۔ جنہوں نے یہ ذمہ داری قبول کی۔ ان اخبارات سے پہلے جو مشہورمیگزین اور ہفتہ روزہ تھے یا اردوروزنامے تھے وہ اپنی روٹیاں سینک رہے تھے۔ مسلمانوں کی سیاست کررہے تھے، ان اخبارات میں وہ بات نہیں ہے۔ یہ صحیح صورت حال کی طرف اشارہ بھی کررہے ہیں، اہم مسائل اٹھارہے ہیں۔ حقائق بیان کررہے ہیں اس سے کم از کم اتنا تو ہوا کہ ہندستانی مسلمانوں کی شبیہ تو سامنے آئی۔ اورآپ نے جو کہا اس سے میں میں متفق ہوں۔ یقینا مسلمانوں کے خلاف یہ بڑی سازش ہے۔ لیکن مسلمان بڑے پیمانے پر اردو اخبارات نہیں نکال رہے ہیں حالانکہ ان کی بڑی نمائندگی ہے تمام میدانوں میں۔ ان کی بھی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں۔ ادارے ہیں لیکن اردو اخبارات غیر مسلم کارپوریٹ سیکٹر کے مالک نکال رہے ہیں۔ آر ایس ایس ۱۸۹۲ سے ہندو راشٹر کے جس مشن پر کام کررہا ہے۔ اس مشن کے لیے اسے سنسکرت، ہندی، انگریزی سے زیادہ اردو،فارسی، عربی جاننے والوں کی ضرورت ہے کیونکہ ۱۸۹۲ سے اب تک سوسالہ سفر میں وہ جس طرح ٹارگیٹ کرنا چاہتے ہیں وہ اس میں ناکام ہیں۔ اس لیے انہیں اس کی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مسلم بچہ دیگر اخبارات کو نہ خرید کر ایک اردو اخبار خرید ے گا اوروہ بھی اسے سمجھ رہے ہیں ۔اس لیے انہیں اپنا ایک ترجمان چاہئے۔ ممکن ہے سنگھ والے مستقبل قریب میں ایسے اردو اخبار جاری کریں جنہیںہم آنے سے روک نہیں سکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی سامنے آئیں۔ کوئی منصف، سیاست سامنے آئے اور بڑے پیمانہ پر آئے۔ تاکہ ان کے بھی اثرات مسلمانوں پر ہوں۔
نورین: آپ نے اپنے ناول’ آتش رفتہ کا سراغ‘ میں جس طرح آر ایس ایس، بجرنگ دل وغیرہ کے حقائق سے مسلمانوں کو واقف کرایا ہے کیا آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اسے سمجھیں گے اورآپ کی باتوں پر عمل پیرا ہوں گے؟
ذوقی:’لے سانس بھی آہستہ‘ میں بھی میں نے اس طرف اشارہ کیا ہے ۔تہذیبوں کے تصادم کی طرف جب میں نے اشارہ کیا ہے تو وہاں میں نے بابری مسجد کی شہادت بھی بیان کی ہے اور اس گھنونے پڑائو کو لے کر میں نے ’’بیان‘‘ بھی لکھا ہے۔ لیکن ۱۹۹۲ کے بعد صورت حال بدتر ہوئی ہے بہتر نہیں ہوئی ہے صرف ایک چیز ہوئی ہے کہ مسلمانوں نے خاموش رہنا سیکھ لیا ہے۔ لیکن خاموش رہنا کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ’لے سانس بھی آہستہ ‘کے بعد آتش رفتہ کاسراغ لکھنے کا ارادہ کیا ۔ تاکہ مسلمان ان چہروں کو بھی دیکھ لیںکہ آر ایس ایس بہت منظم طریقے سے اپنے کاموں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ مجھے کچھ پمفلٹ ملے جنہوں نے اس ناول کو آگے بڑھانے میں میری مدد کی۔ جنہیں پڑھ کر میری روح تک لرز گئی۔ ان میں لکھا تھا کہ ان اسکولوں میں جہاں مسلم طلبہ زیادہ ہیں ان کے سرکاری کھانوں میں کچھ ایسی چیزیں ملائیں جن کے کھانے سے ان کا ذہن کمزورہو، ان کی لڑکیوں کو اغوا کرکے انہیں طوائف خانوں میں فروخت کردیں، میڈیکل اسٹورز میں جب نسخہ سامنے آئے اور اس پر کسی مسلمان کانام لکھا ہو تو انہیں اکسپائر دوا دیں۔ اس کے لیے ہم نے فریش ریپر تیار کرلیے ہیں تاکہ آپ اکسپائر دوا کو ان میں رکھ کر انہیںدیں۔ یہ پمفلٹ آر ایس ایس کے دفاتر سے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ان کے اراکین ان پمفلٹ پرعمل کرتے ہیں۔ آتش رفتہ کا سراغ میں ایک ایسا بھی پڑائو آتا ہے جہاں انور پاشا جو ناول کا اہم کردار ہے اور اس کا برسوں پرانا دوست جو اس کے ساتھ رہتا ہے اور اس کے حقوق کی لڑائی بھی لڑتا ہے۔ آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو دوست نہیں دشمن ہے اور آر ایس ایس کا چیف ہے۔ یہ سب سن کر وہ حیران رہ جاتا ہے۔ انور پاشا اس کے دفتر ساڑھے تین بجے دن میں جاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ وہاں کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، قرأت ایسی کہ کیو ٹی وی اور پی ٹی وی پر بھی اس نے نہیں سنی ہوگی۔ پیشانیوں پر نماز کے نشانات بھی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تم کیا سوچتے ہو صرف تم ہی نماز پڑھتے ہو۔ میں ان لوگوں کو اس لیے تیار کررہاہوں کہ یہ تم میں اس طرح گھل مل جائیں جیسے دودھ میں پانی ۔میں نے یہ سب کچھ لکھ کر کہیں نہ کہیں مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے ان تمام باتوں کو آتش رفتہ میں گواہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
نورین :ادب سے وابستہ تخلیق کو رپوٹنگ کا نام دینے والے نقادوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
ذوقی:بے بنیاد ۔دراصل ہمارے درمیان ایسے نقادوں کی تعداد زیادہ ہے،جوناول کے فن سے واقف ہی نہیں ۔سروانٹس کے ناول ’ڈان کیہوٹے‘ کو ہی لیجئے ۔یہاں اس وقت کی مکمل سیاست طنز کے طور پر موجود ہے۔روسی ناول نگاروں کے یہاں زارشاہی کے خلاف احتجاج ومظاہرہ کی ایک مضبوط آواز پائی جاتی ہے ۔نجیب محفوظ سے لے کر اوہان پامک اور محسن حامد کے یہاں بھی آپ کو یہ سیاسی فضا مل جائے گی۔ناول’ آتش رفتہ کا سراغ‘ میں،میں نے اسی موضوع کو لے کر پیش لفظ لکھا ہے کہ آخر اردو کے نقاد سنجیدگی سے ناول کے نئے منظر نامہ پر غوروخوض کرتے ہوئے اپنا رویہ کب تبدیل کریں گے ۔ایک بات اور بھی ہے ۔بہت کم نقاد ہیں جو ناول پڑھتے ہیں ۔آرام طلبی کے شکار ہیں ۔دوسرے مضامین سے انہیں حوالے مل جاتے ہیں ۔اور وہ اول سے آخر تک اپنی ایک ہی بات دہراتے رہتے ہیں کہ ادب یہ نہیں ہے ،ادب وہ نہیں ہے۔جبکہ ادب کا مکمل چہرہ تبدیل ہوچکا ہے ۔نصاب کی کتابوں میں ،سو برسوں سے افسانے اور ناول کے حوالہ سے جو ادب بچوں کو پڑھایا جارہاہے ۔وہ غلط ہے ۔ناول اور ادب کی مکمل دنیا تبدیل ہوچکی ہے ۔
نورین:آپ اتنے برسوں سے لکھ رہے ہیں ۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ صلہ آپ کو ملا، جو ملنا چاہئے تھا؟
ذوقی:ادب میں کسی صلے یا شاباشی کے لیے میں نہیں لکھتا ۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ لوگ بغیر پڑھے میرے بارے میں ایک رائے بنا بیٹھے ہیں ۔اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ رائے میری تخلیق کے مطالعہ کے بغیر انہوں نے نہیں بنائی ،بلکہ اس رائے کو قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔مجھے پاکستان سے ایک دوست نے بتایا کہ بھائی ،آپ کی کہانیوںکو شائع کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔پاکستان کے ایک بڑے رسالے نے دس برس قبل مجھ سے کہانی مانگ کر اپنے شمارے میں جگہ دی ۔انہیں بھی منع کردیا گیا۔ یہ کھیل ہندوستان میں بھی ہوا ۔دانش الہ آبادی ،سبق اردو کے مدیر اس بات کے گواہ ہیں ۔یہ دو فیصد لوگ ہیں بھائی ۔یہ جوکررہے ہیں انہیں کرنے دیجئے ۔یہ دو فی صد پورا ہندوستان یا عالمی اردوادب نہیں ہے ۔یہ لوگوں کو گمراہ کررہے ہیںاور انہیں کرنے دیجئے ۔۹۸فی صد لوگ ان حقائق سے آگاہ ہیں ۔کسی کے ہیرو یا ولن بنانے سے کوئی ہیرویا ولن نہیں بن جاتا ۔بڑے تاریخی کردار اور مکالموں کی ضرورت پڑتی ہے ۔وقت کے ساتھ ایک بڑی فکر زیریں لہروں کے ساتھ چلتی ہے اور ناول نگار ،فنکار انہ چابک دستی سے انہیں لکھتا ہے ۔کسی ہزیان کے مریض کی طرح آئیں ،بائیں ،شائیں نہیں بکتا ۔میں دو فی صد لوگوں کے لیے نہیں لکھتا ۔میں ۹۸فی صد لوگوں کے لیے لکھتا ہوں ۔اور میری ایک بڑی دنیا ہے ۔ہزاروں لاکھوں چاہنے والے ۔میں ادب کی سیاست نہیں کرتا ۔لوگوں کے پیچھے نہیں بھاگتا ۔بڑے ناموں کے نام کہانی اور کتابیں منسوب ومعنون نہیں کرتا ۔اس لیے مجھے یقین ہے کہ دو فی صد والے صابن کے جھاگ کی طرح ابھریں گے ،ڈوب جائیں گے ۔
شور شرابے کے بغیر اور سیاست کے،جس میں دم ہوگا وہی زندہ رہے گا ۔’لے سانس بھی آہستہ ‘کے بعد میں نے’ آتش رفتہ کا سراغ ‘لکھا اور اب سرحدی جناح ۔ان باتوں پر توجہ دوں تو میرا لکھنا رک جائے گا ۔میرا کام صرف لکھنا ہے ۔ہر جینوئن ادیب کا کام صرف لکھنا ہے ۔ادب کی سیاست نہیں ۔
noorain ali haque ٭
7783/1,chamelian ,bara hindu rao,delhi_6
alihaqnrn@yahoo.com,9210284453

Wednesday, 19 October 2011

NOORAIN ALI HAQUE: 9/11کے بعددنیا کا سب بڑا ڈرا مہ

NOORAIN ALI HAQUE: 9/11کے بعددنیا کا سب بڑا ڈرا مہ: وکی لیکس کی کہانی مسلم امہ کے خلاف ایک سازش تھی جسے مسلم بصیرت نے ناکام بنادیا نورین علی حق، دہلی پردہ اٹھتا ہے:وکی لیکس کے ذریعہ جاری کیے...

9/11کے بعددنیا کا سب بڑا ڈرا مہ

وکی لیکس کی کہانی مسلم امہ کے خلاف ایک سازش تھی جسے مسلم بصیرت نے ناکام بنادیا
نورین علی حق، دہلی
پردہ اٹھتا ہے:وکی لیکس کے ذریعہ جاری کیے گئے ڈھائی لاکھ خفیہ دستاویز ات میڈیامیں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ،اور طرح طرح کی پیشین گوئیوں کا بازار گرم ہے-ان خفیہ دستاویزات کے اجراءسے یہ بات پایہ ثبوت تک تو پہنچ ہی گئی ہے کہ دیگر ممالک کے سربراہ یا حکام جنون اور مرگی میں مبتلاہوں کہ نہ ہوں ، امریکہ اور اس کے حکام طاقت کے نشہ میں جنون کی حد سے تجاوز کرچکے ہیں -ان دستاویزات کے منظرعام پر آنے سے امریکی اخلاق باختگی بھی عیاں ہوچکی ہے -دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں ایک دوسرے کے سفرا موجود ہوتے ہیں اور اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہیں ،اپنے ملکی مفادات کا حصول اور اس کا تحفظ ونگرانی ان کی حد ہوتی ہے،وہ حتی الامکان یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنی حد سے تجاوز نہ کریں الا یہ کہ خود اس ملک کی حکومت کوئی خصوصی ذمہ داری انہیں سونپ دے ،خصوصی ذمہ داری افہام وتفہیم وغیرہ کی ہوتی ہے جسے وہ اپنے منہج پر ادا کرتے ہیں اور غیر ضروری تنازعات سے خود کو بچاتے بھی ہیں – اس کے برعکس امریکہ دیگر ممالک میں اپنے سفراسے جاسوسی بھی کراتا ہے یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں متعین ہندوستان،چین،پاکستان،کیوبا،وغیرہ کے نمائندوں کی ذاتی زندگیوں پر بھی گہری نظررکھنے پر زورڈالتا ہے-ان احکامات پر نہ صرف ہم حیرت واستعجاب کااظہارکررہے ہیں بلکہ خودامریکہ کے افغانستان ،الجیریا،اور بحرین میں سابق امریکی سفیر رونلڈری مین نے بھی ان پرحیرت کا اظہارکیا- وہ کہتے ہیں کہ واشنگٹن ان سے دیگر ملکوںکے بارے میں مسلسل وسیع پیمانے پر معلومات بھیجنے کا تقاضا کرتاہے،حالاں کہ یہ ناقابل فہم ہے کہ مختلف شخصیات کے کریڈٹ کارڈزکے نمبر وغیرہ جمع کرنے کا مطالبہ فارن سروس کے افسران سے کیوں کیا جارہا ہے جن کے پاس کسی طرح کی خفیہ معلومات جمع کرنے کی تربیت نہیں ہے-

اسی طرح مارچ 2008میں لکھے گئے ایک اور خط میں پیرا گوئے میں تعینات ایک سفارت کا ر سے پیراگوئے ،برازیل اور ارجنٹائن کے سرحدی علاقے میں القاعدہ ،حزب اللہ اور حماس کی موجودگی کے بارے میں بھی دریافت کیاگیا تھا-ان دستاویزات میں کئی ممالک کے سربراہوں کا مضحکہ بھی اڑایا گیا ہے -طرفہ تماشایہ کہ خفیہ دستاویز ات کے شائع ہوجانے اور امریکہ کے رازہاے سربستہ کے عیاں ہوجانے کے باوجود کسی بھی امریکی کا معذرت نامہ اب تک سامنے نہیں آسکا ہے بلکہ اس پر وکی لیکس اورخفیہ دستاویزات کاانکشاف کرنے والوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں-امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہاہے کہ دستاویزات عیاں کرنے والوں اور اس کا سبب بننے والوں کے خلاف سخت اور جارحانہ اقدامات کیے جائیں گے-دوسری طرف اپنے غیر اخلاقی بیانات اور احکامات کی زہر آلودگی کو کم کرنے کے لیے وہ یہ بھی کہنے سے نہیں کترارہی ہیں کہ امریکہ سمیت ہر ملک کو لازمی طور پر اس قابل ہو ناچاہیے کہ جن قوموں اور لوگوں کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں ان کے بارے میں بے تکلف گفتگو کرسکیں او رامریکہ سمیت ہر ملک کو لازمی طور پر اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ مشترکہ تحفظات پر ایمان داری کے ساتھ نجی بات چیت کرسکے-حالاں کہ اخلاقی طور پر انہیں ان ممالک سے معافی مانگنی چاہیے تھی جن کے بارے میں بھونڈے اور بھدے قسم کے جملوں کا استعمال کیا گیا ہے-یہ سب تماشا صرف دولت اور طاقت کا ہے جس کی بنا پر دیگر ممالک بھی ان خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے پر شتر مرغ کی طرح ریت میں سرچھپا لینا چاہتے ہیں کہ وہ تیکھے ،تلخ اورامریکہ مخالف بیانات دے کرجنگ وجدال مول خریدلینانہیں چاہتے -خیر مسلم ممالک میں تو یہ ہمت ہی نہیں کہ وہ ان دستاویزات کو سچ اورمبنی بر حقیقت تسلیم کرلیں اس لیے پاکستان نے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز سے منسوب صدر پاکستان زرداری سے متعلق بیان کو مسترد کردیا ہے-

واضح رہے کہ ان خفیہ دستاویزات کی جتنی تفصیل اب تک سامنے آسکی ہے اس میں سب سے زیادہ مسلم ممالک او رسربراہان کا کچاچٹھا ہے یہاں تک کہ فرانسیسی میڈیا نے کہا ہے کہ :

”ان رپورٹس کی روشنی میں بعض ممالک اور حکمرانوں کے متعلق عالمی سوچ بدل سکتی ہے تاہم اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلم ممالک کو ہوگا-ان کے درمیان نفرت اور اختلافات کھل کر سامنے آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور ان ممالک کے عوام میں پہلے سے موجود دوسرے ممالک کے حکمرانوں کے خلاف جذبات او رخدشات کو ہوا ملے گی-یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ان دستاویزات کے افشا کرنے کا اصل مقصد مسلم ممالک کے مابین دوریاں بڑھانا ہے-چوں کہ ان دنوں ایران سے سعودی عرب کے تعلقات میں پہلے سے بہتری اور استحکام نظر آرہاہے اور کبھی بھی مغربی ممالک مسلم دنیا کے اتفاق پر چین وسکون کی زندگی بسرنہیں کرسکتے-اس لیے یہ ایک طریقہ نکالا گیا ہے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے-وہ حقائق جنہیں اسلامی ممالک کے سربراہوں کے متعلق وکی لیکس نے جاری کیے ہیں انہیں اگر کوئی امریکی وزیریا حاکم کہتاتو سعودی اور متحدہ عرب ممالک کے تعلقات امریکہ سے تلخ ہوجاتے یاکم از کم وہ راز جسے شکوک کی نظروںسے دیکھاجاتاہے وہ کھل جاتا کہ امریکہ مسلم دنیا کے آپسی بہتر تعلقات کو پسند نہیں کرتا -اس لیے یہ کام وکی لیکس کے ذریعہ کرایا گیا-سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک کے پرندے دوسرے کسی ملک میں مار دیے جاتے ہیں یا شکار کرلیے جاتے ہیں تو اسے خبر ہوجاتی ہے اور لاکھوں خفیہ دستاویزات چوری کرلیے جاتے ہیں تو اسے اس کی بھنک تک نہیں لگتی- یہ بات ناقابل فہم ویقین ہے-دراصل یہ9/11کے بعد کا سب سے بڑا ڈرامہ ہے جسے خود امریکہ نے رچا ہے او رمہرہ وکی لیکس کو بنایا گیا ہے،تاکہ ایک ابھرتی ہوئی مسلم طاقت کو مسلم ممالک کے ذریعے ہی کچل دیا جائے یا عبداللہ بن عبد العزیز کے اصرار (امریکہ ایران پر حملہ کردے)پر ایران پائجامہ سے باہر آکر سعودی اور متحدہ عرب امارات کو دھمکی دے دے تو ہم دیگر مسلم ممالک کی خوش نودی کے حصول کے بعد ایران کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادیں ،حالاں کہ ان ممکنہ اور متوقع امکانات کے پیش نظر ایرانی صدر احمدی نژاد نے بر وقت اور عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ کہہ کر چور کے منھ پر کالک پوتنے کا عمل کیا ہے کہ ان دستاویزات سے ایران کے اپنے ہم سایہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر نہیں ہوںگے- ان خفیہ دستاویزات کو افشا کرنے والے وکی لیکس کے مقاصد کو جاننے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ وکی لیکس کیا ہے:

وکی لیکس(Wiki leaks)ایک تعارف ؟وکی لیکس کا کہناہے کہ وہ ایک بین الاقوامی بے لوث میڈیا آرگنائزیشن ہے-وہ خفیہ سینسرڈ،سیاسی،سفارتی اوراخلاقی اہمیت کے متعلق ممنوعہ اورغیر مطبوعہ دستاویزات بھی غیر معروف اور گمنام شخص سے قبول کرکے اسے منظرعام پرلاتی ہے-سویڈن میںاس ویب سائٹ کاقیام2006ءمیں عمل میں آیا-اسے سن شائن تنظیم چلاتی ہے-اس نے اپنی لاونچنگ کے ایک سال کے اندر ہی1.2میلین خفیہ دستاویزات اکٹھاکرنے کادعویٰ کیا-خفیہ طورپراس کے بانیوںمیں چین،متحدہ عرب امارات، تائیوان،یوروپ،آسٹریلیا،اور جنوبی افریقہ کے ٹکنالوجی کے ماہرین اور صحافی شامل ہیں اوروہی اس کامالی تعاون بھی کرتے ہیں-صرف ایک آسٹریلین شخصJulain Assangeڈائرکٹرکے طور پر بظاہر نظر آتا ہے-جولین اسانزے ۱۷۹۱ءمیں آسٹریلیا کے شہر کوئنس لینڈ میں پیدا ہوا جہاں اس کے والدین اپنی تھیٹر کمپنی چلاتے تھے لیکن اساسنزے کو نوجوانی سے ہی کمپیوٹر کا جنون تھا اس پر 1995ءمیں درجنوں ویب سائٹس ہیک کرنے کا الزام بھی لگ چکا ہے جس کے بعد اسے عدالت میں اعتراف اور جرمانہ ادا کرنا پڑا-39سالہ اسانزے کہیں مستقل قیام پذیر نہیں رہتا-عام طور پر اس کے پاس دو کیری بیگ رہتے ہیں جن میں سے ایک وہ اپنے کپڑے اور دوسرے کو لیپ ٹاپ کے لیے استعمال کرتا ہے-اسانزے1980ءکی دہائی کے آخر میں ہیکنگ کرنے والے گروپ ”انٹرنیشنل سروسیز“کا رکن بھی تھا،اس دوران1991ءمیں میل برن میں واقع اسانزے کے گھر پر آسٹریلیائی پولس نے چھاپہ بھی مارا-1996ءمیں اسانزے نے کمپیوٹر پر وگرامر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا-اس کے بعد اس نے 1999ءمیں لیکس ڈاٹ او آرجی نامی ڈومین رجسٹرڈ کرایا-

وکی لیکس کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے جن میں 2008ءکا ایکونومسٹ میگزین نیو میڈیا ایوارڈ،2009ءمیں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا یوکے میڈیا ایوارڈ،قابلِ ذکر ہیں -موخر الذکر ایوارڈ ویب سائٹ کے علاوہ اس کے بانی جولین اسانزے کو بھی دیا گیا – مئی 2010ءمیں دی نیویارک ڈیلی نیوز نے اسے خبروں کو مکمل طور پر تبدیل کرسکنے والی ویب سائٹس میں سرفہرست رکھا-

دسمبر2006ءمیں وکی لیکس کے پہلے ڈاکیومینٹ پوسٹ میں صومالیا کے سرکاری افسر کے قتل کے فیصلہ پر شیخ حسن داہری کے دست خط شدہ دستاویز عام کیے گیے- جنوری2007ءمیں پہلی مرتبہ یہ ویب سائٹ انٹرنیٹ پر جاری ہوئی-ان ہی ایام میں امریکی فوج کی خفیہ اطلاعات پہنچانے والے محکمہ میں متعین براڈلے میننگ نامی سپاہی نے امریکی فوج سے اپنی بر گشتگی کے بعد وکی لیکس کو عراق میں موجود امریکی فوجیوں کی خفیہ اطلاعات غیر معمولی تعداد میں بہم پہنچائی-اسے خفیہ اطلاعات اپنے کمپیوٹر پر منتقل کرنے کی پاداش میں گرفتار بھی کرلیا گیا- اب بھی اس سلسلہ میں اس پر مقدمہ چل رہا ہے ،پر لطف بات یہ ہے کہ مذکورہ فوجی سپاہی براڈ لے میننگ Bradley Meaningامریکی ہے -اپریل2010ءمیں اس نے2007ءکا ایک ویڈیو جاری کیا جس میں امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کی داستان ظلم وجبر قید تھی- اسی سال جولائی2010ءمیں 76,900خفیہ دستاویزات پر مبنی افغان جنگ ڈائری جاری کرکے پوری دنیامیں ہلچل مچادی،2008ءمیںامریکی انتخابات کے دوران اس نے ایک میل بکس کے خاکے جاری کیے تھے جن میں اس وقت کی نائب صدر کی امیدوار سارہ پالن کی تصاویراور اڈریس بک کے متعلق معلومات تھیں-

جنوری2009ءمیں یونائٹیڈ اسٹیٹس کے600دستاویزات عام کیے گیے،اسی سال ایسٹ انجلیایونیورسٹی کی کلائی میٹ ریسرچ یونٹ کے متنازعہ دستاویزات کو چھاپ دیا-جن میں ماہرین موسمیات کے مابین ای میل کے ذریعہ باتیں ہوئی تھیں-19ءمارچ2009ءکو مختلف ممالک کی غیر قانونی سائٹس کی فہرست جاری کی گئی 28جنوری2009ءکو پیرو کے قومی لیڈروں اور تاجروں کے درمیان86ٹیلی فونک ریکارڈنگ جاری کی اس میں پیٹروگیٹ آیل اسکینڈل سے متعلق باتیں تھیں یہ اسکینڈل 2008ءمیں ہواتھا-16جنوری2009ءکوایرانی نیوزایجنسی نے رپورٹ دی کہ ایران کے ایٹمک ایجنسی آرگنائزیشن کے سربراہ نے اپنی 12سالہ خدمات کے بعد اچانک استعفا دے دیا، بعد میں وکی لیکس نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ ایران میںزبردست ایٹمی دھماکہ ہواتھا،25نومبر2009ءکو اس نے 5.70لاکھ پیجر پیغامات عام کیے-یہ پیغامات9/11کے دن پنٹاگن افسروں اورنیویارک سٹی کے محکمہ پولس کے درمیان بھیجے گیے تھے-15مارچ2010ءکو امریکی محکمہ دفاع کی 32صفحات پر مشتمل خفیہ رپورٹ جاری کی گئی اس میں 2008ءکی کاونٹر انٹیلی جنس انالائسیس رپورٹ تھی- سب سے بڑا دھماکہ اس نے اس مرتبہ امریکہ کے لاکھوں خفیہ دستاویزات جاری کرکے کیا ہے جنہیں ہضم کرجانا پوری دنیا کے لیے باعث پریشانی ثابت ہورہا ہے-

موجود دستاویزات پر ایک طائرانہ نظر:2,51,287 خفیہ اطلاعات و دستاویزات 30نومبر کو وکی لیکس نے جاری کیے،جو گالیوں اور دشنام طراز یوں کا پلندہ ہے -غورطلب مقام ہے کہ ان دستاویزات میں کسی بھی ملک کے سربراہ کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا گیا ہے -عام طور پر غلط تاثر ہی دیگر ممالک کے سلسلہ میں امریکہ کا ہے جس سے خود امریکہ کی شرافت اور نمائشی تعلقات کا راز فاش ہوگیا ہے -ایسے ایسے ریمارکس ہیں جن کا تصور ایک شریف آدمی کر ہی نہیںسکتا چہ جائے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے سربراہ کے سلسلہ میںایسا کرے-ان حقائق کے منکشف ہونے سے انسانیت مجروح ہوئی ہے-گرچہ ان کا مقصد مسلم ممالک کے مابین منافرت پھیلانا رہا ہو مگر اس زمرے میں امریکہ بھی ننگاہوگیا ہے -ان میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کو ہٹلر سے یاد کیا گیا ہے ،فرانس کے صدر سرکوزی کو بے لباس بادشاہ بتایا گیا ہے-جرمنی کی چانسلر انجلینا مرکل کو کمزور حکمراں ،افغانی صدر حامد کرزئی کو دماغی خلل کا شکار اور لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی کل وقتی نرس ایک گرم حسینہ ہے -اس طرح کے افکار بہرحال غیر ذمہ داراور غیر مہذب ہی لوگوں کے ہوسکتے ہیں -خصوصی طور پر ان دستاویزات میں شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کے حوالہ سے دومسلم ملک کے سلسلہ میں بات سامنے آئی ہے -ایک تو یہ کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری دہشت گردی کے سدباب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں -دوسری یہ کہ سعودی فرماں روانے ایک سے زائدبار امریکہ سے اصرار کیا کہ آپ ایران پر حملہ کرکے اس کے نیو کلیائی تنصیبات کو تباہ وبرباد کردیں وہیں عادل الزبیر کے حوالہ سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ کہا کہ سعودی فرماں روا چاہتے ہیں کہ آپ لوگ سانپ کا سر کچل دیں -گرچہ ان دستاویزات کے سامنے آنے کے بعد سعودی وزارت خارجہ نے ان باتوں کی سخت انداز میں تردید کردی ہے وہیں صدر ایران محموداحمدی نژاد نے بھی کہا ہے کہ عرب ممالک مغرب اور امریکہ کے جھانسے میں نہ آئیں ان کا اصل مقصدہمارے باہمی تعلقات خراب کرناہے- ہمارے تعلقات پر وکی لیکس کا جادواثر انداز نہیں ہوگا-

وکی لیکس کے پاس ان اقوال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل نہیں ہیں اس لیے اس پر کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی-البتہ ایران وعرب کے بعض اختلافات کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے،تاکہ شیعوں کی اکثریت سعودی شاہ سے کم ازکم متنفر ضرور ہوجائے اور احمدی نژاد کے بیان کے بعد بھی بہت حد تک اس کی گنجائش باقی رہتی ہے-

ان امکانات کو مسلم ذہن سے کھرچ پھینکنے کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ اگر یقینا وکی لیکس کے یہ انکشافات جھوٹ ہیں تو سعود ی اس پر سخت اقدامات کرے اور اس کی گہرائی تک جائے کہ یہ وکی لیکس کی شرانگیزی ہے یا امریکی حکام کی کہ انہوں نے ہی ان اقوال کوسعودی شاہ سے منسوب کردیا-ورنہ مغرب اور اس کے ادارے اسی طرح جھوٹ منسوب کرکے ایک نہ ایک دن اپنے مقاصد واہداف میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے – ایران کب تک برداشت کرسکے گا-او ر یہ بھی امر اپنی جگہ مسلم ہے کہ ایران کے تباہ ہوجانے کے بعد 56مسلم ممالک میں سے کسی کے پاس یہ دم خم نہیں ہے کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے-آج حالات اس قدر عبرت ناک ہیں جس کا تصور ممکن نہیں -ہمارے کئی مسلم ممالک کے پاس دولت وثروت اور تیل کی زبر دست فراوانی ہے-لیکن وہ پھر بھی امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک کے دست نگرہیں-حالاں کہ یوروپ اور امریکہ عرب ممالک سے تیل اور دولت حاصل کرتے ہیں اور ان ہی پر رعب بھی جھاڑتے ہیں -اس سے بڑھ کر اور کیا مضحکہ خیز ہوسکتا ہے کہ سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کو آپریشن کرانا ہوتا ہے تو وہ امریکہ کا سفر کرتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ عرب میں تشفی بخش ذرائع علاج مہیا نہیں ہیںیا خود اپنے ملک کے ذرائع علاج سے شاہ عبداللہ مطمئن نہیں ہیں اس لیے وہ امریکہ کا سفر کرتے ہیں -بہر حال ان ہی ایام میں جب وکی لیکس کا ڈرامہ رونما ہوا شاہ سعودی کا امریکہ میں ہونا مصلحت سے خالی نہیں محسوس ہوتا-اب تک ان حقائق کا خلاصہ سامنے نہیں آسکا ہے اور نہ ہی آنے کی امید ہے چوں کہ 9/11ڈرامہ کے حقائق دس سال گزر جانے کے باوجود سامنے نہیں آسکے تو حالیہ ڈراموں کا سامنے آنا بھی آسان نہیں ہے-

بہت سے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہوگا کہ آخر کوئی ملک اپنے خلاف بھی سازش کیوں کرسکتا ہے تو اسے سمجھنے کے لئے9/11پر قائم کیے جانے والے شکوک کا مطالعہ ضروری ہے، ان کے مطالعہ سے سوچنے کا اندازبدلتا ہے او رقاری یہ سمجھ پاتا ہے کہ یہودی ومسیحی لابیز مسلمانوں کو بدنام کرنے اور انہیں پوری طرح مغرب زدہ ان کے ذہن پر آتاہے کہ کوئی اسلامی ملک خود کفیل بننے کی کوشش کررہا ہے تو وہ اس کے خلاف نت ئی سازشیں رچتے ہیں ،اپنی دھونس جمانے اور دوسروں کو کمزور وکمتر ثابت کرنے کے لیے مختلف اسلحے استعمال کرتے ہیں -پورا مغرب کلیسا کے سامنے سرنگوں ہوتاہے اور جب کوئی مسلم سربراہ قرآن ورسولﷺ کا اتباع کرتاہے تو اس کا عمل مغرب کے لیے ناقابل برداشت ہوتاہے ،مغرب کی یہ دوہر ی پالیسی کوئی نئی چیز نہیں ہے -بلکہ اس کے تبلیغی مشن کا ایک حصہ ہے -جسے وہ بڑے ہی شاطرانہ انداز میں سیکولر خول کے اندر لپیٹ کر مشرق کی طرف اچھال دیتاہے او رخول کو ہی دیکھ کر مشرقی اس کے دلدادہ ہوجاتے ہیں-بہرکیف اس سے قبل بھی امریکی ڈرامہ پر تجزیہ نگاروں نے بے تحاشا شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے جو دنیا کی مختلف زبانوں کی کتابوں اور رسائل وجرائد میں بکھرے پڑے ہیں البتہ9/11پر مبنی شکوک وشبہات کو کافی حد تک نذر الحفیظ ندوی نے اردو میں اپنی تصنیف مغربی میڈیا اور اس کے اثرات کے نئے ایڈیشن میں سمیٹاہے-

اس چوطرفہ بے چینی کے باوجود امریکہ کی خاموشی اور مسلم ممالک پر پیہم حملے شکوک وشبہات کو مزید ہوادیتے ہیں- البتہ مسلم دنیا حقائق جاننے کی خواہاں ضرور ہے-بہرحال ڈھائی لاکھ سے زائد خفیہ اطلاعات میں2,278کاٹھمنڈوکے امریکی سفارت خانہ سے اور 3325کولمبوکے امریکی سفارت خانہ سے،2220اسلام آبادکے امریکی سفارت خانہ سے اور 3038پیغامات ہندوستان کے امریکی سفارت خانہ سے جاری کیے گئے ہیں -ا ن خفیہ دستاویزات کو بعض 2006ءسے مارچ2010ءتک کے بتاتے ہیں او ربعض کا کہنا ہے کہ ان کی مدت28دسمبر1966ءسے شروع ہوتی ہے اور یہ دستاویزات 28فروری 2010ءتک کو محیط ہیں-

وکی لیکس ڈرامہ کے حقائق ومقاصد کیا ہیں؟ دقت نظر سے دیکھے جانے کے بعد کوئی بھی باشعور انسان یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان دستاویزات کا بیشتر حصہ ایسا ہے جسے پروپیگنڈے کے بغیر بھی عام کیا جاسکتا تھا لیکن اس کام کے لیے پوری دنیا کے میڈیا کا میدان میں آنا اور اس پر واویلا مچانا کسی خاص مقصدکے لیے ہے – تاریخ گواہ ہے کہ یوروپ وامریکہ کا یہ پرانا وتیرہ رہا ہے کہ وہ دوسروںکو لڑاتے ہیں اور حکومت کرتے رہتے ہیں – مزید یہ کہ افغانستان وعراق کی تباہی کو بھی عرصہ گزر چکا ہے- 56مسلم ممالک میں صرف ایک ایران ہی باقی ہے جو امریکہ کے کنٹرول سے باہر اور اس کے چشم وابرو کے اشاروں پر رقص کرنے کو تیار نہیں ہے -اسی لیے یہ ڈرامہ رچا گیا تاکہ تمام مسلم دنیا میں شیعہ سنی آپس میں ہی باہم دست وگریباں ہوجائیں اور ایران قوت برداشت کھو کر سعودی کو دھمکی بھی دے دے تو عرب ممالک کے موٹے دماغ والوں کی اجازت سے ایران پر حملہ کرنا آسان ہوجائے گا اس طرح اپنا مقصد بھی حل ہوجائے گا اور اگر ایران کی تباہی کے بعد وہاں بھی عراق کی طرح انسانیت سوز اور تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار دریافت نہ ہوسکے تو بعد میں ہمیں سبکی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گااو راس طرح وہ بش سے بہتر صدر امریکہ بھی ثابت ہوجائیں گے چوں کہ بش کو عراق پر دلائل کے بغیر حملہ کرکے بعد میں پوری دنیا کی طرف سے تنقید اور مذمت برداشت کرنا پڑی تھی-اور اس طرح مسلمانوں کو بھی خانوں میں تقسیم کرنا آسان ہوجائے گا-یہ تو دونوں رہنماوں سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز او ربالخصوص محموداحمدی نژاد کی دوراندیشی کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا میں شیعہ-سنی منافرت نہیں پھیل سکی- اگر محمود احمدی نژاد اس پر خاموشی اختیار کرلیتے یا اس پر سخت رد عمل کااظہار کرتے تو عن قریب محرم کے مہینہ میں شیعہ سنی اختلافات پھوٹ پڑتے اور انہیں جانی ومالی خسارے برداشت کرنے پڑتے-میرے اس خیال کو امریکہ کی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے اس بیان سے تقویت ملتی ہے کہ وہ ایک طرف وکی لیکس کے خلاف سخت اقدامات کی دھمکیاں دے رہی ہیں تو وہیں اس بات کی تصدیق بھی کررہی ہیں کہ ایران کے ہم سایہ عرب ممالک اس کے نیو کلیائی ایٹمی تنصیبات سے حددرجہ پریشان ہیں-یعنی وہ پس پردہ اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ یقینا شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز نے ایران پر حملہ کے لیے امریکہ سے اصرار کیا تھااورعادل الزبیرسفیرامریکہ برائے سعودیہ کی طرف بھی جو قول منسوب ہے وہ بھی سچ ہے -منظر عام پر آنے والے دستاویزات کے سیاق و سباق بہر حال اس جانب اشارہ کرتے ہیں ،ورنہ ایسے موقع پر جب مسلم دنیا خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ رہی ہو اس طرح کے بیانات آگ پر گھی کا کام کرتے ہیں- اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ عبد اللہ بن عبد العزیزکو امریکہ نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس طرح کے بیان پراکسایا ہو اور بعد میں اسے منظر عام پربھی لادیاگیا-جس وقت شاہ عبد اللہ بنفس نفیس امریکہ میں موجود تھے اور ان کے لیے پوری عمارت ہی مخصوص کرلی گئی تھی تاکہ غیر ضروری لوگوں کو یہ بھی پتہ نہ چل سکے کہ وہاں کیا ہورہا ہے او ربآسانی بیانات جاری کرائے جاسکیں-جولین اسانزے بھی لاپتہ ہوچکے ہیں یہ بھی ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ،کیا پتہ وہ خود کہیں فرار ہوا یا اسے انڈر گراونڈ کرادیا گیا-بہت ممکن ہے کہ میری اس تشویش پر بہت سے اذہان میںیہ سوال اٹھے کہ اس سے پہلے بھی امریکہ کے مظالم کو وکی لیکس سامنے لاچکا ہے پھر امریکہ اپنے مقاصد کے لیے اسے کیوںکر استعمال کرسکتا ہے تو اس سوال کا جواب بہت آسان ہے اور ہمارے گردو پیش میں ایسے حالات رونما ہوتے رہتے ہیں جب ایک نیتا دوسری پارٹی کے لیے سخت وسست کہتا رہتاہے لیکن آئندہ الیکشن میں وہ اپنے ذریعہ مخالفت کی جانے والی پارٹی کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہوتاہے-آج کی تاریخ میں ضمیر فروشی کی کوئی حد نہیں ہوتی انسان کسی بھی حد تک پہنچ جاتا ہے-بالخصوص اس وقت اسے اور بھی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ خود کو بے سہارا اور مالی واقتصادی طور پر کمزور محسوس کرتاہے- یہ بات بھی کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے کہ وکی لیکس بند بھی کیا جاچکا ہے او راس کے ایڈوائزری بورڈ کے ممبر کے طور پر صرف اسانزے ہی سامنے آئے ہیں- اس لیے یہ سوچنے کی بھی گنجائش اپنی جگہ باقی ہے کہ اندرونی طور پر خود امریکہ ہی اسے مالی تعاون کرتا ہو-پھر میڈیا کے حواس پر اس طرح اس کا چھاجانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہودی ومسیحی لابی کا دست مقدس اس کی پشت پرہے،ورنہ یہ دستاویزات اس طرح ہر فرد بشر کا موضوع سخن نہیں بن پاتے-بہرحال قابل تعریف ہیں محمود احمدی نژاد کہ ان کے محض ایک تردیدی بیان سے مسلمانوں کا خون آپسی قتال سے محفوظ رہا اور امریکہ ،اسرائیل اور دیگر یورپی ممالک کے خوابوں کا محل بھی ایک لمحہ میں زمیں بوس ہوگیا اور مظلوم فلسطین کے حق میں آوازاٹھانے والاایران بھی محفوظ رہا-جب مسلم دنیا کو آپس میں لڑا کر لطف اٹھانے والا مغرب کے ترکش کا آخری تیر بھی ہدف تک نہیں پہنچ سکا تو وہ بوکھلا کر ایران کو دھمکیاں دینے لگے کہ ایران محاذ آرائی اور عدم تعاون کا راستہ لازمی طور پر چھوڑ دے دھمکی آمیز اس جملہ کے بعد کیا کہا جاسکتا ہے وہ ہر شخص جانتااور اچھی طرح سمجھتابھی ہے- 30نومبر کے عین چار دن بعد4دسمبر کو یہ بیان عام کیا جانا اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ ڈرامہ فلاپ ہونے کے بعد پورامغرب بوکھلا گیا ہے-4دسمبر کو راشٹریہ سہارا نے ویانا (رائٹر)کے حوالہ سے ایک خبر شائع کیا ہے ،جس میں یہ بھی ہے کہ”مغرب کوشبہ ہے کہ ایران نیوکلیائی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے-جرمنی ،فرانس اور برطانیہ نے نیوکلیائی توانائی ایجنسی کی بورڈ میٹنگ میں ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اب کوئی متبادل راستہ نہیں رہ گیا-ایران کو لازماً سرگرم طریقہ سے اپنے نیوکلیائی پروگرام کی قطعی پرامن نوعیت کے تعلق سے مغرب کو اعتماد میں لیناہوگا“ظاہر ہے کہ تمام متبادل کا استعمال مغرب کرچکا ہے پھر بھی ایران تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہوسکی تو اب زور زبردستی سے کام لیا جائے گا-

مسلم دنیا کے مثبت رد عمل کی ضرورت ہے: مسلم دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوچنے سمجھنے اور مثبت عمل کے لیے یہ موقع غنیمت کے طور پر دیا گیا ہے اسے وہ محسوس کریںکہ داخلی وجزوی اختلافات چاہے جس حد تک بھی ہوں بہرحال ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کا ساتھ دے گا-ایسے موقع پر جب کہ خادم الحرمین ہر مسلم نگاہ سے گر جاتے نژاد کے ایک تردیدی بیان نے یہ ثابت کردیا ہے -اب مسلمانوں کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ،وہیں دوسری طرف ”الکفر ملة واحدة“کی حقیقت بھی سامنے آچکی ہے اس لیے وکی لیکس کے اس عمل کے اصل مقصد کو سمجھتے ہوئے آپسی اختلافات کو طاق نسیاں بنا کر مسلم ممالک”جَسَدواحد“کی عملی تفسیر پیش کریں اور ایران کو دوسرا عراق بننے سے بچائیں کہ اس کی تباہی بالواسطہ طورپرساری مسلم دنیا کی تباہی ٹھہرے گی-اگر ایران تباہ وبرباد ہوگیا تو ساری مسلم دنیا کی حالت 1947ءسے پہلے کے ہندوستان کی سی ہوجائے گی اور مسلم دنیا کی نہ صرف دولت بٹوری جائے گی بلکہ انہیں اچھوت اور غیر مہذب بھی ثابت کیا جائے گا-اور عرب و متحدہ عرب امارات ”ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم“ کے علاوہ کچھ نہیں کرسکیں گے-چوں کہ ان کے پاس نہ فوج ہے نہ اسلحہ،پھر وہ اپنا سو نا اوراپنا تیل بھی حاصل کرنے کے لیے امریکہ ویوروپ کی طرف بھوکے بھکاری کی طرح دیکھنے پر مجبور ہوجائیں گے-اور انہیں امریکہ کا ایک کتا بھی ڈرانے دھمکانے اور خوف زدہ کرنے کے لیے کافی ہوگا-اس لیے نہ صرف ایران کا ساتھ زبانی طور پر دیں بلکہ اسے مالی تعاون بھی کریں تاکہ وہ اپنے عزائم وارادے کو بہتر طریقے پر زمین پراتارسکے -اور زیادہ سے زیادہ نیو کلیائی تنصیبات کا تجربہ کرے-

سعودی ودیگر متحدہ امارات جن مفروضہ بدگمانیوں میں سانس لے رہے ہیں کہ انہیں ایران سے ہمہ وقت خطرات لاحق ہیں انہیں وہ اپنے ذہنوں سے نکال دیںوہ دشمن کی سازشوں کو سمجھیں ،مسلمہ امہ کی تباہی اور زوال کی داستانیں بہت طویل ہوچکی ہیں،ہمارے عالمی دشمن ہمیں بہت دنوں تک سے اپنی انگلیوں پر نچارہے ہیں تاخیر بہت ہوچکی ،لیکن آنکھیں کھولنے کا وقت اب بھی باقی ہے-اگر ہمیں روئے زمین پر اپنی داستان باقی رکھنی ہے تو ہمیں سنبھلنا ہی ہوگا اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم چلنا ہی ہوگا- چوں کہ ایران سب کچھ کرسکتا ہے-امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے ،اس کی سرزمین پر اسے ہی چیلنج کرسکتا ہے-اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں کرسکتا ہے،عراقی وکویتی اہل تشیع کا تعاون کرسکتا ہے مگر وہ رسول اور آل رسول کی سرزمین پر حملہ آورہوکر ان کے نقوش واثرات کو مٹانے کا سبب نہیں بن سکتا،اسے قندیل رہبانی سمجھ کر یک وتنہا نہ چھوڑیں یہ آئندہ مسلم دنیا کا سرمایہ افتخار بن سکتا ہے اس کی حفاظت کریں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کے سیاسی نظریات کے اتباع کے لیے خود کوتیار کریں ،چو ں کہ کسی بھی خوش حال ملک کے لیے صرف دولت کی ریل پیل ہی کافی نہیں ہوتی،اپنے دفاع کے لیے دفاعی ہتھیار کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے ،سیاسی بصارت وبصیرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے،یہ جبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم ”واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولاتفرقوا “پر عامل ہو کر اپنے ماضی کے اعلیٰ اقدار اور روایات پر نظر ڈالیں،اور”لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ “کی مضبوط ومستحکم کڑی کی اہمیت کو سمجھیں

NOORAIN ALI HAQUE: اپنوں کی ستم ظریفیاں اور علامہ فضل حق خیر آبادی چ...

NOORAIN ALI HAQUE: اپنوں کی ستم ظریفیاں اور علامہ فضل حق خیر آبادی چ...: نورین علی حق٭ دنیا میں ایسے ایسے بندگان خدا پیدا ہوتے رہے ہیں اور اپنے ذمہ کے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دے کر دنیا سدھار جاتے ہیں۔جن کی بع...

اپنوں کی ستم ظریفیاں اور علامہ فضل حق خیر آبادی چشتی

نورین علی حق٭
دنیا میں ایسے ایسے بندگان خدا پیدا ہوتے رہے ہیں اور اپنے ذمہ کے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دے کر دنیا سدھار جاتے ہیں۔جن کی بعض باتیں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں اور زبان زد خاص و عام ہوجاتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت بہار وجھارکھنڈ کے اس نمائندہ کنونشن میں اظہار مافی الضمیر کے لئے اور دل کے پھپھولے کی نمائش کے لئے کسی مرد قلندر کے اس شعر کے علاوہ اپنی لن ترانی بھی اچھی نہیں لگ رہی ہے کہ
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
آج ہر طرف شور ہے کہ حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کی شخصیت اور خدمات کو فراموش کردیا گیا ہے ۔اور اس کی بازیافت کی کوششوں میں ہم مصروف ہیں لیکن ایسے ماخذات کی کمی ہے۔جس کے ذریعہ ان پر گفتگو آگے بڑھائی جاسکے ،ان کے مجاہدانہ کردار کوہم نے ۱۹۴۷ کے بعد پیش کیا۔ ایسے میں آج ان کرم فرمائوں کی کمی نہیں جو سرے سے علامہ کے مجاہد انہ کردار سے انکار کرتے ہیں ،گوکہ علامہ کی ہمہ جہت شخصیت ناقابل فراموش ہے۔
حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی (۱۲۱۲ھ ؍۱۷۹۷ء؍۱۲۷۸ھ؍۱۸۶۱ء) ایک مردم خیز خانوادہ میں پیدا ہوئے، اعلی تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کئے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندستان کو انگریزوں کے پنجہ ناپاک سے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی ،عشق ومحبت رسول ﷺپر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ میں سوچتا ہوں کہ ان تمام مضبوط اور توانا امور کی انجام دہی کے باوجود انہیں پردہ خفا میں کیوں ڈال دیا گیا اور ایک جاہل،ان پڑھ شخص کو ہمارے علما بھی مولانا کے لقب کے ساتھ کیوں ملقب کرنے لگے تو جواب ملتا ہے کہ ڈیڑھ صدی تک ہمارے علما غیروں اور فضل حق مخالفین کو ہی پڑھتے رہے، جس کے نتیجہ میں ہمارے بزرگان دین اور علمائے کرام طاق نسیاں کی زینت بن کر رہ گئے۔
آپ یاد کریں حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے ۱۸؍رمضان ۱۲۴۰ھ ؍۱۹۲۵ء میں مسئلہ امکان نظیر اور مسئلہ شفاعت پر شاہ اسماعیل کی کتاب ’تقویہ الایمان ‘‘ کے خلاف فتوی کفر دیا جو ’’تحقیق الفتوی فی ابطال الصغوی ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوچکاہے ۔۱۸۲۵ء سے ۲۰۱۱ تک ہمارے علما تقویہ الایمان کی مخالفت سے تھکے نہیں ہیں اور مسلسل اس کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے ،حالاں کہ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ علامہ نے مخالفت کردی تھی ہم آگے بڑھتے، ان کی تصانیف کی اشاعت کا کام کرتے لیکن صدحیف ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد حضرت مولانا احمد رضاخاں فاضل بریلوی نے جن علمائے دیوبند پر کفر کا فتوی دیا تھا انہیں ہم کافر مان لیتے اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں لگ جاتے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا بلکہ ہم مفتی احمد رضاخاں کے بعد قاضی بن کرفتوئے کفر کانفاذ کرنے لگے اور اپنے اکابر کی تصانیف کو پڑھے بغیر ہی دیوبندیوں پر لٹھ چلانا شروع کردیا جس کا نقصان انہیں تو ہوا نہیں البتہ ہم دانش ور طبقہ میں کم ظرف اور کم فہم سمجھے جانے لگے اور اپنے بزرگوں کا دامن بھی ہمارے ہاتھوں سے جاتا رہا۔
تاریخی حقائق کے سہارے آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ فضل حق خیرآبادی پر ایک صدی تک کوئی قابل قدر کام نہیں ہوا ۔مولانا عبداللہ بلگرامی،مولانا برکات احمد ٹونکی ،مولانا سلمان اشرف اصدقی بہاری،مولانا عبدالحکیم شرف قادری،مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی،حکیم محمود احمد برکاتی کا وقیع کام خیر آبادیات پر ہے۔جولائق مستحسن قدم تو ہے لیکن ان کے ہاتھوں سے خیرآبادی کی ذات جاتی رہی ان میں مولانا عبدالشاہد خاں نے علامہ کی سوانح پر بھی کام کیا اور ان کا کام آج اولین ماخذ کے طور پر ہم پیش کرتے ہیں لیکن تحریک طور پر علامہ فضل حق کی شخصیت،علم وفضل سوانح اور مجاہدانہ زندگی کو اختیارکرنے کی طرف جس نے ہمیں متوجہ کیا وہ مولانا یسین اختر مصباحی ہیں ۔ذاتی طور پر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید مولانا یاسین اختر مصباحی اگر ندوۃ العلما لکھنؤ نہ جاتے تو آج بھی خیرآبادی وخیرآبادیات کی نشاۃ ثانیہ نہیں ہوتی۔
میں نے نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے مولاناکے ندوہ میں قیام کی شرط اس لئے لگائی چوں کہ وہاں جب ہم جاتے ہیں تو سید احمد بریلوی کے حوالے سے ہزاروں کی تعداد میں کاغذ سیاہ ملتے ہیں ،انہیں امیرالمومنین کہنے کے ساتھ خانقاہی وسنی علما کو بعض حضرات انگریزوں کا زرخرید غلام قرار دینے سے بھی نہیں کتراتے اس لئے وہاں ہمارا ضمیر پیچ و تاب کھاکر رہ جاتا ہے۔ قرین قیاس ہے کہ مصباحی صاحب نے بھی وہیںسے تحریک پاکر خیرآبادیات پر نئے سرے سے کام کا آغاز کیا اور خیرآبادیات کی تشہیر واشاعت اور علامہ فضل حق خیرآبادی کی شخصیت ہمارے اہم ایجنڈوں میں شامل ہوئی۔
آج وہ اندھیرا چھٹ رہا ہے روشنی کی کرن نظر آنے لگی ہے اس کے باوجود بے شمار کج کلاہان اہل سنت موجود ہیں جنہیں یک قطبیت کے سوا آج بھی کوئی دوسرا کام اچھا نہیں لگتا ۔
اس سلسلہ میں مولانا یاسین اختر مصباحی،ڈاکٹرسلمہ سیہول،پروفیسر ایوب قادری،ڈاکٹر معین الدین عقیل ،اور اسکالرز میں ڈاکٹر قمرالنسا بیگم ،ڈاکٹر محمد عبدالستار خاں،ڈاکٹر عبدالواحد چشتی ،ڈاکٹر عوض اللہ جاد المجازی،ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی،مولانا محمد احمد مصباحی،ڈاکٹر جہاں آرا بیگم،ڈاکٹر ارشاد احمد ساحل سہسرامی قابل ذکر اور لائق صدستائش ہیں جنہوں نے مختلف ناحیوں سے علامہ پرکام کیااور خیرآبادیات کو آگے بڑھانے میں ممدد ومعاون ثابت ہوئے ۔ان کے علاوہ مولانا اسید الحق محمد عاصم القادری اور مولانا خوشتر نورانی کی بالترتیب ’’خیرآبادیات‘‘ اور’’ علامہ فضل حق خیرآبادی ۔چند عنوانات‘‘ کے نام سے کتابیں آچکی ہیں ،دونوں معاصر محقق و ناقدنے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے خیرآبادیات کے بکھرے اوراق کو سمیٹا ہے۔جس کے نتیجہ میں علامہ کا ڈیڑھ سوسالہ یوم وفات یاد گار بن گیا ہے اور یہ سلسلہ دراز ہے۔اب بھی سمینارو سمپوزیم اور کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس فہرست میں زیادہ تر نام بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے بعد کے ہیں ،ایسے میں ظاہر ہے کہ کسی بھی شخصیت کے حوالہ سے سیکنڈ ہینڈ معلومات تو دی جاسکتی ہیں حقائق ومشاہدات پیش نہیں کیے جاسکتے ۔یہاں میں قطعی یہ نہیں کہنا چاہتا کہ جو کام سامنے آئے ہیں وہ غیر محقق اور مفروضہ ہیں ،میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے محققین وناقدین اور سوانح نگاران اس وقت خواب خرگوش سے بیدار ہوئے جب آزاد ہندوستان میں مسلمانوں اور مسلم نقوش سے نفرت وبغاوت کا پودا ثمر بار ہونے کو تھا اور حتی المقدور یہ کوششیں کی جارہی تھیں کہ مسلمانوں کی خدمات کی ایک ایک علامت ردی کی ٹوکری میں ڈال کر آگ کے حوالہ کردیاجائے ۔یہ تو خارجی ذہنیت تھی دوسری طرف داخلی سطح پر اس وقت تک سید احمد شہید ،اسماعیل شہید اور ان کے رفقاکو مجاہدین آزادی کی صفوں میں استحکام مل چکا تھا ۔اذاھبت ریح الایمان ،جب ایمان کی باد بہاری چلی ،سیرت سید احمد شہید ،سیرت احمدی جیسی کتابوں کی تصنیف پر پوری قوت وتوانائی جھونکی جاچکی تھی اور ایسے اسلوب وانداز میں یہ کتابیں لکھی گئی تھیں کہ ان پر آپ کو اعتراض بھی نہ ہو ،ان میں اپنے آباکی تعریفیں تو تھیں کھلے عام سنی وخانقاہی علما کی مذمتیں نہیں تھیں ،نام کی نشاندہی کے بغیر لفظ’’بدعتی ‘‘سے انہیں مخاطب کیا جارہا تھا ۔وقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم بھی انہی کے اسالیب وانداز اور مطمح نظر کو پیش نظر رکھ کر اپنے آبا اور علمائے اہل سنت کی سوانح اور خدمات کو موثر انداز میں پیش کرتے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ،ہم نے جہاں کہیں علامہ کی ذات وخدمات پر کچھ لکھنے کا ارادہ کیا تو علامہ کے حوالہ سے دلائل کی تلاش سے زیادہ ہم نے شاہ اسماعیل دہلوی کے weak pointsتلاش کیے اور پیش کش کا وہی پرانہ اور سوسالہ فرسودہ طرز اختیار کیا جس میں زمانہ کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیںتھی ۔ہر آن دنیا بدل رہی تھی ،لوگ اپنے بزرگوں کی تصانیف کو نئی زبان اور نیا تیور دینے میں کوشاں تھے ہم اس وقت بھی منطقی قیل وقال اور فتوی نویسی کی زبان استعمال کررہے تھے،ظاہر ہے خود ہماری تحریک ہمارے لیے وبال جان بن گئی اور وہ طبقہ جسے سنی ودیوبندی سے کوئی مطلب اور سروکارنہیں تھا وہ بھی محض ہمارے رویے اور زبان سے اکتا گیا اس نے بھی ہمارے بزرگوں پر کام کرنا گوارہ نہ کیا اور ہم راتوں کے جلسوں اور ھاوھو سے اتنے خوش گمان تھے کہ نشیمن لٹتا رہا اور ہم رات کے تھکے ماندے دن دن بھر بستر استراحت پر دراز رہے ۔اپنے ان نقائص پر ہم ایک محاسبانہ نظر ڈالیں اور کہیں کہ کیا ہم سے زیادہ دیگر لوگوں نے علامہ فضل حق خیرآبادی پر ظلم وستم کیا ہے ۔علامہ فضل حق خیر آبادی کا حق ہم نے اب بھی ادانہیں کیا ہے ۔بلکہ ڈیڑھ سوسال بعد باضابطہ کا م کاآغاز کیا ہے ۔
اخیر میں مولانا سیف الدین اصدق اور ان کے رفقا ے کارسمیت تمام باشندگان جمشید پورکو میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرنا چاہتاہوں جنہوں نے اس تحریک توازن کو آگے بڑھانے میں دلچسپی لی ہے۔
٭شوگر ہاسپٹل،چمیلیان روڈ ،باڑہ ہندو رائو،دہلی ۔۶

Thursday, 22 September 2011

کانگریس مسلمانوں کی ترقی کے لئے تحریری معاہدہ کی ضرورت

نورین علی حق
ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادایک عام سی بات ہوچکی ہے ۔ایک واردات کو مسلمان بھول نہیں پاتے کہ دوسری جگہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔چند ایک سیاسی رہنما اس کی مذمت کردیتے ہیں اور بس ۔پھر دو تین ماہ بعد کہیں اور مسلمانوں پر آفت توڑ دی جاتی ہے ۔حالیہ واقعات کو ہی لے لیجئے فاربس گنج کا زخم تازہ ہی تھاکہ راجستھانمیں  بھرت پورکے مسلمان مسجد کے اندر وحشیانہ سلوک کے شکار ہوگئے ۔اور اس سے بھی فسادات کی ایک لمبی فہرست ہے جسے کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتااور وقتا فوقتا عدالتوں میں ان فسادات کی فائلیں کھلتی رہتی ہیں ۔ہر فساد کے بعد کچھ بلند بانگ نعرے لگا ئے جاتے ہیں اور یہ سوچ لیا جاتا ہے کہ اب مسلمان خوش ہوگئے بس اتنا کافی ہے اس سے زیادہ کی چنداں کوئی ضرورت نہیں ہے ۔جس انداز میں مسلمانوں کو کانگریس حکومت کے دور میں قتل کیا جاتا ہے اور مگر مچھ کی طرح چند آنسو ان کی تعزیت کے طور پر بہا دیئے جاتے ہیں تاکہ کوئی واضح اور صاف طور پر یہ نہ کہہ سکے کہ کانگریس مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہے ۔آزادی کے بعد سے اب تک کی تاریخ پیش نظر رکھ کر یہ آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس سے زیادہ مسلمانوں کی مخالف پارٹی کوئی نہیں ہے ۔راجستھان میں فی الوقت کانگریس کی ہی حکومت ہے ۔اس کے باوجود مسجد میں گھس کر حملہ آوروں نے مسلمانوں کو قتل کردیا اور وہاں کی حکومت آج خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔اس پر طرہ یہ کہ کسی بھی بڑے کانگریسی لیڈرنے اس واقعہ کی کوئی مذمت نہیں کی۔آج بھی مسلمانوں کی لاشیں وہاں بے گوروکفن پڑی ہیں اس کی کوئی فکر کانگریس کونہیں ہے نہ اس واقعہ پر مسلم لیڈر کچھ بولنے کو تیار ہیں ۔کانگریس مسلمانوں کے لئے کچھ بھی کیوں کرے گی جب کہ اسے کوئی نقصان ہوتا ہی نہیں ۔جب نقصات ہونے شروع ہوں گے تو کام بھی ہوا کریں گے ۔کانگریسی حکومت کا یہ دوسرا دور ہے مسلمان تیسری مرتبہ اسے کرسی اقتدار تک نہ پہنچنے دیں پھر اس کے تمام لیڈران کو مسلمانوں کی یاد ستانے لگے گی اور وہ مسلمانوں کے گھروں پر کاسہ گدائی کے ساتھ کھڑے نظر آنے لگیں گے ۔اب وہ دور آگیا ہے کہ کانگریس سے باضابطہ معاہدہ کیا جائے اس کے تحریری ثبوت رکھے جائیں بعد میں ووٹ دیے جائیں تاکہ مسلمانوں کو الیکشن کے بعد خون کے آنسو نہ رونا پڑے ۔

Sunday, 18 September 2011

NOORAIN ALI HAQUE: مودی کا اپواس مضحکہ خیز اور ایک ڈھونگ

NOORAIN ALI HAQUE: مودی کا اپواس مضحکہ خیز اور ایک ڈھونگ: نورین علی حق مودی کے سیاسی برت پر زیادہ تر سیاسی لیڈران کی رائے سے ہم محظوظ ہوچکے ہیں ۔آج کے اخبارات میں برت پر اچھا خاصا مواد اکٹھا ہوگی...

مودی کا اپواس مضحکہ خیز اور ایک ڈھونگ

نورین علی حق
مودی کے سیاسی برت پر زیادہ تر سیاسی لیڈران کی رائے سے ہم محظوظ ہوچکے ہیں ۔آج کے اخبارات میں برت پر اچھا خاصا مواد اکٹھا ہوگیا ہے ۔ہندو ازم میں برت کا جو تصور ہے شاید مودی کے برت رکھنے سے وہ تصور بھی مجروح ہوا ہے۔مودی کے جرائم اتنےزیادہ اور سنگین ہیں کہ اسے برت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔خواہ میڈیا اس برت کی جتنی تشہیر کرلے اور احساس دلائے کہ مودی بنیادی طور پر بے قصور تھے او ر انہیں خواہ مخواہ کٹہرے میں کھڑا کیا جارہاتھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی ضمیر سب سے بڑا جج ہوتا ہے ۔ وہ وقتا فوقتا مجرم کو احساس ندامت کراہی دیتا ہے ۔یہ بھی طے ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کے وزارت عظمی کے عہدہ پر وہ فائز نہیں ہوسکتا ۔وہ یہ بھول رہا ہےکہ انسان مجبور ہوکر بہت سے کام تو کرلیتا ہے مگر وہ خوشی اسی کام میں محسوس کرتا ہے ۔جو وہ آزادی کے ساتھ کرتا ہے ۔ٹی وی چینلوں نے مسلم خواتین اور مردوں کو بھی مودی کے اسٹیج پر دکھایا اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ مسلمان گجرات واقعات کو بھول چکے ہیں ،خون کا ایک ایک قطرہ مسلمانوں کویاد ہے اور وہ وقت کے منتظر ہیں ،ابھی مودی جتنا چاہے برت رکھ لے الیکشن میں وہ زمین چاٹنے پر ضرور مجبور ہوجائے گا
جہاں تک شاہ نواز حسین کے معافی نامے کے ساتھ گجرات جانے کی بات ہے تو وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور وہ بی جے پی کے زرخرید غلام ہیں ان کا کوئی عمل مسلمانوں کے لئے لائق تقلید نہیں ہے ۔وہ بھی اگر مودی کی پوجا کرنے لگیں جب بھی یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ مسلمانوں نے مودی کو معاف کردیا ہے ۔عدالتیں گواہوں کی گواہی پر فیصلے صادر کیا کرتی ہیں اور مودی نے سارے ثبوت کانگریس کی تساہلی اور چشم پوشی کی وجہ سے مٹا دیا ہے ۔اس لئے بہت ممکن ہے کہ وہ عدالت سے بری کردیا جائے ۔اس کے باوجود ہر انصاف پسند کے دل میں وہ مجرم ہی رہے گا ۔
alihaqnrn@yahoo.com

Monday, 12 September 2011

NOORAIN ALI HAQUE: ہند۔پاک دہشت گردی کے نشانے پر

NOORAIN ALI HAQUE: ہند۔پاک دہشت گردی کے نشانے پر: ہند۔پا ک کے موجودہ حالات کیا دونوں ممالک کو مشترکہ مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر مجبور نہیں کرتے ؟ نورین علی حق معمول کے ...

ہند۔پاک دہشت گردی کے نشانے پر

ہند۔پاک کے موجودہ حالات کیا دونوں ممالک کو مشترکہ مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر مجبور نہیں کرتے ؟
نورین علی حق
معمول کے مطابق ایک بار پھر ہندوستان اور پاکستان دونوں بم دھماکے سے دہل گئے ہیں اور روایت کے مطابق دونوں ممالک کی پولیس دھماکوں کے بعد متحرک ہوگئی ہے ۔ان دھماکوں پر مختلف ممالک اور قومی لیڈران کی سخت ترین الفاظ میں مذمتیں بھی آچکی ہیں ۔لیکن دنیا بھر کے دماغ مل کر بھی دہشت گردی کے سد باب کے لئے کوئی مشترکہ اورمستحکم لائحہ عمل اب تک طے نہیں کرسکے ہیں ،حالاں کہ عوام کی قوت برداشت جواب دینے کو ہے ۔دونوں ہی ملکوں کے عوام کی سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ان بے قصوروں کا گناہ کیا ہے اور انہیں کس جرم کی سزادی جارہی ہے ؟
اس کے برعکس حکومتی افراد اور تفتیشی ایجنسیاں ان کی بے تابیوں اور پریشانیوں کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔جب بھی دھماکے ہوتے ہیں الزامات ایک دوسرے پر منڈھ دیے جاتے ہیں یا کسی نتیجہ تک پہنچنے سے پیشتر ہی صرف عوام کی تسلی کے لئے چند داڑھی والوں کے خاکے جاری کر دیے جاتے ہیں ۔اس پر طرہ یہ کہ کسی کاکھل کر نام بھی نہیں لیا جاتا ،بلکہ ٹی وی اسکرین پر ایسی تصاویر جاری کردی جاتی ہیں جن سے صاف ہوجاتا ہےکہ اس دھماکے میں بھی مسلمان شامل ہیں۔ ایسی صورت حال پر اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
جب جب ہمارے ملک میں دھماکے ہوتے ہیں، ہمارے سیاسی رہنما بیان دے کر خاموش تماشائی بن جاتے ہیں اور تفتیشی ایجنسیوں کو کوئی میل مل جاتی ہے، جس پر تکیہ کرلیا جاتا ہے کہ اسی تنظیم نے دھماکہ کیا ہے۔ جب کہ اس سے قبل بھی متعدد بار دھماکوں کے بعد ای میل کے ذریعہ دہشت گردوں کے پیغامات آتے رہے ہیں اور جب اس کی تہہ تک ایجنسیاں پہنچی ہیں تو شکوک و شبہات کے سارے بند دریچے میں دھماکوں کا عوام و خواص کو احساس ہوا ہے کہ جن تنظیموں، اداروں اور افراد کو وہ محب وطن، مذہبی اور بے داغ شخصیات سمجھتے رہے ہیں، وہی ان دھماکوں میں ملوث ہیں۔ عرصہ پہلے جب اجمیر شریف کی درگاہ میں دھماکہ ہوا تھا تو ملک کے دیگر طبقوں کے ساتھ مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ تھا جو صاف طور پر ایک مسلم گروہ کو ہی نشانہ بنا رہا تھا، لیکن جب اس دھماکے کی پرتیں کھلیں تو باشندگان ملک کو جس طرح کی پشیمانی کا سامنا رہا، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، چونکہ ہندوستان کی اکثریت مسلمانوں کی مخالف اور ان سے بدگمان تو ہوسکتی ہے، مگر خواجہ ہند کے دربار میں دہشت گردانہ حملہ کو برداشت نہیں کرسکتی، گوکہ اس وقت بھی شاید کسی’ حرکت‘ کی جانب سے اس مذموم حرکت کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ اس طرح کی مثالوں کے عیاں ہوجانے کے باوجود بار بارثبوت کے بغیر کسی مسلم نام کی تنظیم کو ٹی وی اسکرین پر دکھانے اور اس سے ماقبل کے تمام دھماکوں کو اس سےجوڑنے کا مقصد ملک کی اقلیت کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا ہے۔اب اس طرح کی تسلیوں اور دھند میں لپٹی کامیابیوں سے عوام مطمئن اور شادماں نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ہمارے سیاسی لیڈران کی سیاسی اور رسمی مذمت سے عوام کی متاع گم گشتہ واپس انہیں ملتی ہے۔
وزارت داخلہ کے ذمہ داران اور این آئی اے کے ڈائرکٹر سے انٹر ویو کے دوران چینلز والےیہ سوال کرنے سے بھی نہیں چوکتے کہ کیا اس میں’ ہوجی‘ کا ہاتھ ہوسکتا ہے ؟جب کہ معاملہ کی نزاکت کے پیش نظر ہوم سکریٹری نے جوجواب دیا وہ بہت ہی محتاط اور ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے والا تھا ،انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہوسکتا ہے لیکن فی الوقت ہم کسی کو نشان زد نہیں کرسکتے ۔ایسے نازک حالات میں اس طرح کے سوالات ظاہر ہے کہ آگ پر گھی کا کام کرنے والےہوتے ہیں ۔اس لئے آج یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ موجودہ الیکٹرانک میڈیا کا باریک بینی سے معائنہ کرکے اس کی بے لگامی پر لگام لگایا جائے ورنہ آئندہ اس طرح کے سوالات سے فرقہ وارانہ فسادات پھیلنے کا خدشہ ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھماکوں کےچند گھنٹوں بعد آپ خاکے بھی جاری کردیتے ہیں اور آپ کو سراغ رسانی کی راہیں بھی ہموار دکھائی دینے لگتی ہیں۔
ڈھونگ رچنے کا سلسلہ بہت دراز ہوچکا، اب عوام کو جھوٹی تسلیوں کی چنداں ضرورت نہیں ہے، نہ گڈکری جیسے مفاد پرست لیڈر کی جو عوامی خون اور لوتھڑے پر بھی سیاست سے باز نہیں آتے۔ ایسے موقع پر جب انہیں عوام کے آنسو پونچھنے چاہئیں، وہ وزیرداخلہ پر لفظی حملے کر رہے ہیں۔ اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جناب کو صرف سیاسی مفاد مقصود ہے اور وہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
دہلی پر ہونے والے گزشتہ تمام دہشت گردانہ حملے کی فہرست اور اس کی تفصیل دیکھی جائے تو ہر فائل اور اس کی تفصیل میں یہ بات موجود ہے کہ فلاں جگہ پر ہوئے حملے سے قبل وہاں کے سی سی ٹی وی کیمرے خراب پڑے تھے۔ پھر اخبارات والے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خراب کیمروں کی فہرست جاری کرتے ہیں، لیکن کافی انتظار کے باوجود انہیں ان کیمروں کی درستگی اور مرمت کی کوئی اطلاع نہیں ملتی۔ جہاں دھماکے ہوتے ہیں، وہاں سیکورٹی فورسز موجود نہیں ہوتیں، آخر ان سوالات کے جوابات کون دے گا اور انتظامیہ کے نقائص کون بیان کرے گا؟ہم دوسروں کی جارحانہ طبیعتوں کا رونا تو خوب روتے ہیں، مگر اپنے گریبان میں جھانکنا بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردوں نے اگر حملے کیے ہیں تو انہیں زمین فراہم کرنے والے اور ان کے ناپاک عزائم و منصوبے کو یقینی بنانے والے ہم بھی ہیں۔ ہماری کوتاہیوں اور لاپروائیوں کی وجہ سے ہی یہ سب کچھ ہوا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ تین سالوں کی مدت میں دہلی ہائی کورٹ کے علاقے میں کیمرے نہیں لگ سکے ۔اس دھماکے کے چشم دید گواہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہاں سیکورٹی والے موجود تھے ہی نہیں ۔
دوسری جانب بعض میڈیا والے اپنے روایتی حریف پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں، جب کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں اور وہاں عوام کےساتھ ساتھ وزرا بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور وہ بھی اپنے روایتی حریف کو مورد الزام ٹھہرانے میں کچھ کم پیچھے نہیں ہیں، لیکن کیا صرف الزامات سے مسئلہ کا حل ہوسکتا ہے؟ کیا یہ اشارے مجبور نہیں کرتے کہ دونوں ممالک ان ناگفتہ بہ حالات کے باوجود ایک دوسرے سے مزید قربت بڑھا کر شرپسند عناصر کی خواہشات پر پانی پھیر دیں اور مشترکہ مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں جسمیں کسی تیسرے کی کوئی مداخلت نہ ہو۔یہ تو طے ہے کہ دونوں ممالک میں ہونے والے زیادہ تر دہشت گردانہ حملوں میں ملوث خود ان کے اپنے ہیں ،پتہ یہ لگانا ہے کہ آخر ان اپنوں کی اپنائیت کو خریدنے والا کون ہے جو دونوں ممالک کے سکون واطمینان کو بھنگ کرکے انہیں آپس میں ہی برسر پیکار دیکھنا چاہتا ہے ۔تاکہ ایشیائی ممالک اس کے دست نگررہیں ،اس کے اسلحوں کی خریدوفروخت بھی جاری رہے اور موقع ملتے ہی وہ الٹا ثواب بھی حاصل کرلے ۔دونوں ممالک بہتر تعلقات کے سایےمیں آگے بڑھیں اور اسے تلاش کریں جو دونوں ہی کے لئے زحمت بنا بیٹھا ہے ۔
خون خواہ پاکستانیوں کا بہے یا ہندوستانیوں کا بہرحال اس کا رنگ ایک ہے ۔اوریہ عمل انسانیت سوز ہے اس کی مذمت کرنی چاہئے ۔لیکن اصل مذمت یہ ہے کہ عوام کو اپنے تحفظ کا یقین ہوجائے اور وہ کشمیر سے کنیا کماری تک بلاخوف وخطر امن وسکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں ۔ورنہ سخت ترین الفاظ اور مذمت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

Tuesday, 30 August 2011

NOORAIN ALI HAQUE: عید سعید کی سماجی اہمیت وافادیت

NOORAIN ALI HAQUE: عید سعید کی سماجی اہمیت وافادیت: نورین علی حق ایک ماہ کے مسلسل روزوں کے بعد اللہ تبارک وتعالی اپنے بندوں کوعیدکی شکل میںعارضی جزاعطافرماتا ہے تاکہ انہیں خوشیوں کا موقع م...

عید سعید کی سماجی اہمیت وافادیت

نورین علی حق 
 ایک ماہ کے مسلسل روزوں کے بعد اللہ تبارک وتعالی اپنے بندوں کوعیدکی شکل میںعارضی جزاعطافرماتا ہے تاکہ انہیں خوشیوں کا موقع ملے لیکن یہ بات بھی اسلام کے پیش نظر ہمیشہ رہتی ہے کہ امت محمدیہ کبھی بھی حد سے تجاوز نہ کرے ،منشائے خداوندی کے مطابق ہی زندگی کے ایام گزارے یہی وجہ ہے کہ خوشیوں کے مواقع پر بھی تمام غیر شرعی باتوں سے اجتناب کرنے اور معاشرہ کوساتھ لے کر چلنے کا حکم دیا گیا ہے ۔فطرے کی ادائیگی کی اصل منشا یہی ہے کہ معاشرے کے غربا بھی مین اسٹریم میں آجائیں اسلام کا نظام زکاۃ اور فطرہ نہ صرف غربا مسلمانوں کی تفریق کو مٹادینے والا ہے بلکہ اگر اس پر عمل در آمد کو یقینی بنا یا جائے تو مسلم معاشرے میں ایک بھی انسان غریب نہیں نظر آئےگا ۔
 یہ ساری باتیں تو خیر داخلی سطح کی ہیں ،ان احکامات کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔لیکن اس تکثیری معاشرے میں جہاں ہم بستے اور سانسیں لیتے ہیں اس معاشرے کے بھی کچھ تقاضے ہیں جنہیں ہمیں محسوس کرنا چاہئے چوں کہ پہلی صدی ہجری کےاسلامی معاشرے نے اسے ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ پہلی صدی ہجری کے مدینہ میں بھی مسلمان دیگر مذاہب کے متبعین کو اپنی خوشیوں میں شریک کرتے تھے ،انہیں بھی بحیثیت پڑوسی ان کا حق دیا کرتے تھے ۔تاریخ اسلامی کے اوراق گواہ وشاہد ہیں کہ رسول اسلام اور متبعین اسلام تازندگی پڑوسیوں کے حقوق پر روشنی ڈالتے رہے اور جہاں کہیں موقع ملا ایسا نمونہ پیش کیاکہ اس کے بعد اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ،اسلام کی عملی تاریخ ہمیںتعلیم دیتی ہے کہ ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیش کریں ،قومی یکجہتی کی عملی تصویر بن جائیں یہی منشائے دین ونبوت ہے اور یہی اسلامی اعمال پر پابندی اوراستحکام کا ایک ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے چوں کہ جب تک ہمارے روابط دیگر مذاہب کے متبعین سے خوش گوار نہیں ہوں گے ہمیں اسلامی اعمال کی ادائیگی میں ضرور دشواریاں آئیں گی ۔اس لئے ہمارے تعلقات برادران وطن سے بہتر ہونے چاہئیں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اسلام نے اسے سرے سے خارج از امکان قراردیا ہے ۔مگر ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔
 ہم عید کے بعد عرصہ تک عید ملن کی تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں ،سیاسی پارٹیاں بھی اس میں دلچسپی لیتیہیں ،ہندوستان گیر سطح کے رہنمائوں ،وزیر اعظم ،وزرائے اعلی ،سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کی رہائش گاہوں پر عید کی مناسبت سے دعوتیںہوتیہیں ۔لیکن وہ یہ سب نہ کریں جب بھی  ایک ہیں اور آئندہ بھی حصول مقصد کے لیےمتحد رہیں گے ،مسئلہ ان کے دلوں کو جوڑنے کا ہے جن کے دل بعض مواقع پر ٹوٹتے ہیں اور اس کے ذمہ دار بعض دفعہ ہمارے سیاسی رہنما ہی ہوتے ہیں ۔ایسے میں ہمارے بزرگان دین کے اعمال ہمارے لئے نمو نہ عمل بن سکتے ہیں ۔چوں کہ انہوں نے جس اندازسے ہندوستانی عوام کا دل جیتا ہے ،اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔
 موجودہ تناظر میں عید محض بال بچوں کے ساتھ خوشیا ں منانے کا نام نہیں ہے ۔اس کو موقع غنیمت سمجھ کر برادران وطن کے مابین زیادہ سے زیادہ اخوت ،بھائی چارگی ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے جذبات پیش کریں ۔ہندوستان میں عید کو بلا تفریق مذہب وملت منانےکی روایت ملتی ہے اور یہ روایت نہ صرف سراہے جانے کے لائق بلکہ لائق عمل بھی ہے ۔عید کے موقع کو تکثیریت پسند بنایا جانا چاہئےاس کو تبلیغ دین کا بھی ذریعہ بنایا جاسکتا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ہم اپنے مدعو کے ممدوح نہیں ہوں گے وہ ہماری باتیں نہیں سن سکتے ۔
 ایک زمانہ تھا جب بزرگان دین کی شخصیات اتنی پر کشش تھیں کہ بلا تفریق مذاہب عوام ان کےپاس آتے تھے اور ان سے دعائیں لیتے تھے، ان سے مستفید ہوتے تھے،ان سے علوم وفنون سیکھتے تھے ،شب وروز کی مصاحبت اور ان کے اعمال وافعال اور کردار سے متاثرہوکر بالآخر اسلامی زنبیل کےقیدی ہوجاتے تھے ۔لیکن المیہ یہ ہوا کہ ان نفوس قدسیہ کے بعد ویسی موثر شخصیات کو پیدا کرنا اسلامی معاشرہ نے چھوڑ دیا دیگر اقوام کی طرح مسلمانوں کے اندر سے بھی احساس سودوزیاں جاتا رہا ۔وہ بھی خودی کھو بیٹھے اب بس نام کے وہ مسلمان تو تھے ان میں وہ عزائم وارادے نہیں تھے جن کے لئے ان کے آبا یہاں ہمیشہ معروف رہے ہیں ۔اس مستزاد یہ کہ اپنی حکومت و سلطنت کو ہمیشگی پر مبنی سمجھنے والے سلاطین نے دیگر اقوام ومذاہب کے متبعین کے دلوں میں نفرت کا شعلہ فشاں پیدا کرنےکاسبب بنے۔اس وقت تو معاملہ مسلمانوں کی سمجھ سے باہر تھا اور یہ طویل سلطنت کے خمار میں مست تھے لیکن آنے والے وقتوں میں حالات نے بتا دیا کہ اب بادشاہت ختم ہوچکی ہے اور اس ہندوستان میں اب جینا ہے تو صوفیہ کے طریقہ کار کے مطابق جینا ہوگا بصورت دیگر تمام حالات تمہارے خلاف ہوں گے ۔
 بہر حال اس صورت حال کے اختتام کے لیےعید ،بقرعید ،جشن عید میلادالنبی کے مواقع کو ایام دعوت وتبلیغ کے طور پر منایا جائے اور اس میں دیگر اقوام کو اعتماد میں لیا جائے صرف مسلم محلوں کے اپنے رشتہ داروں کی سویوں،مٹھائیوں،شیرکیضیافت سےاب بات نہیں بنے گی اب مسلم محلوں سے باہر نکلنا ہوگا اور دلتوں کو گلے لگانا ہوگا ،عید کی مناسبت سے گلیوں اور چوراہوں کو صاف کرنے والوں کو عیدی سے نوازنا اور انہیں بھی گلے لگانا ہوگا تبھی بات بنے گی چوں کہ وہ آج بھی احساس کمتری میں جیتے ہیں اور اسلام نے سب سےبڑا جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ یہی ہے کہ اس نے بے سہاروں کو سہارا دیا ،معاشرے کے دبے کچلے عوام کو جینے کاطریقہ ،سلیقہ اور حوصلہ دیاانہیں اپنے وقت کے چودھریوں کے چنگل سے آزاد کرایا ۔کیا آج ہم اسوصف اسلام کو مزید مستحکم نہیں بناسکتے ؟ـ
 یہ منظر دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ مسلم عوام مساجد سے نماز عید الفطر ادا کرکے نکلتے ہیں اور وہاں پرموجود لاٹھی ،ڈنڈوں سے لیس پہریدار پولیس اہلکار کو نظر انداز کرکےاپنے گھروں کی راہ لے لیتےہیں ۔حالاں کہ ان اوقات میں اگر کوئی ان کا تعلقاتی مل جاتا ہے تو وہ ان سے مصافحہ ومعانقہ کرتے ہیں لیکن وہ پولیس والوں کو اس لائق نہیں سمجھتے گو کہ اس وقت وہ مسلم محلوں میں آن ڈیوٹی ہوتے ہیں اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اس لیے اگر کوئی مسلمان ان سے معانقہ کرنا چاہے تو وہ چاہ کربھی انکار نہیں کرسکتے مگر ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ قومی بھائی ہونےکی حیثیت سے ہماری محبت اور اخوت کے حق دار یہ بھی ہیں اور انہیں ان کے حق سے محروم کرنے کاہمیں کوئی حق نہیں ۔ان سطروں کو لکھتے ہوئے مجھےاپنے بھائیوں عاطف وساجد ،عشرت جہاں ،بٹلہ ہائوس کا فرضی انکائونٹر ،گجرات فرضی انکائونٹر،گجرات فسادات اور ملک میں روارکھے جانے والے مظالم کے سینکڑوں واقعات ذہن کے پردے پر ابھررہے ہیں اور کل کی طرح آج بھی لائق مذمت اور ناقابل فراموش ہیں لیکن کیا اس کے کچھ ہم خود بھی ذمہ دار نہیں کہ آ ج کا مسلمان اپنا صحیح تعارف بھی کرانے سے قاصر ہے، رسول اعظم اور خاندان نبوت کے اکابر نے جو تاثرات قائم کئے تھے انہیں ہماری بد اعمالیوں کی نظر بد لگ گئی اوربزرگوں کا دیا ہوا بھرم بھی ہم نے سرعام نیلام کردیا ۔ایسے حالات میں عزت ووقار کی بازیافت اور بحالی کے لئے ضروری ہے کہ ہم مغلوب اور سطحی افکار و نظریات سے باہر نکلیں اور آنے والی نسلوں کو بھی سمت مخالف میں بہنے والے سمندر میں رہ کر  پورےتشخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا درس دیں ، ہماری قومی اور ملی کامیابی یہی ہے ۔ عید کی خوشیوں سے ہندوستان کاچپہ چپہ اور اس کے تمام بسنے والےجب تک سرشار نہیں ہوں گے تب تک  عید کی سماجی اہمیت و افادیت پوری طرح عیاں نہیں ہوسکتی اورنہ مسلمان اس سے بھر پور لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔
alihaqnrn@yahoocom,9210284453
 

Friday, 26 August 2011

مسلم ممالک کے ناگفتہ بہ حالات اور سربراہوں کی چنگیزیت


نورین علی حق
 دنیا کے جس خطے میں مسلمان بستے ہیں وہاں کی موجودہ صورت حال ناگفتہ بہ ہے ۔اس حقیقت کے برملا اعتراف کے طور پر مجھے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ معاصرمسلم دنیاکا منظر نامہ یہ ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ برسر اقدار ہیں وہاں وہ آپس میں ہی بر سر پیکار بھی ہیں اور جہاں وہ اقلیت کے طور پر زندگی بسر کررہے ہیں وہاں ان کے ساتھ ناانصافیاں روا رکھی جارہی ہیں ۔ انہیں کسی بھی طرح مین اسٹریم سے کاٹنے کی حتی الممکنات کوششیں کی جارہی ہیں ۔اور مغربی دنیا اپنے ان ناپاک عزائم کو یقینی بنانے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہے ۔قابل ذکر یہ ہے کہ اس میں بھی خود مسلمانوں کی سادہ لوحی ،جذباتیت پسندی ،تفہیم مسائل سے دوری ،عجلت پسندی کو بڑا دخل ہے ۔ انہی کمزوریوں کا یورپ ناجائز فائدہ اٹھا تا ہے اور جب مسلمانوں کو اس کادیر سویر ادراک ہوجاتا ہے تو وہ سڑکوں پر اتر کر مظاہرہ کرنا شروع کردیتے ہیں ،گوکہ اس میں  مسلم عوام کچلے جاتے ہیں اور ان کے قائدین دین وملت مورچہ کھول کر منظر سے پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور عوام بے چارے اپنے سینے گولیوں سے چھلنی کرتے ہیں یہ پوری تاریخ ہے ۔اگر اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی ذی عقل یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس طریقہ کی ایجاد یزید بن معاویہ سے ہوتی ہےجو میدان کربلا سے بذات خود دور تھا ۔آج پھر وہی طریقے اپنائے جارہے ہیں ،جس کی چھوٹی سی مثال لال مسجد ،پاکستان کی دی جاسکتی ہے کہ وہاں بھی قائدین منظر سے غائب تھے اور طلبہ کے سینے فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی ہورہے تھے ۔ایسا ہی کچھ عراق میں ہوا کہ عام فوجی اور عوام امریکا کا نشانہ بنتے رہے اور خود صدر محترم ایک کوہ سے ملے ۔بعد میں مصر اور اسی ڈگر پر فی الوقت لیبیااورشام بھی ہیں ۔جہاں پورے وثوق سے اعلان کیا جارہا ہے کہ معمر قذافی اور ان کے صاحب زادے محفوظ اور باغیوں کی پکڑ سے دور ہیں حالاں کہ یہ اعلان ہی چغلی کھا رہا ہے کہ لیبیا زیادہ تر معمر کے قبضہ سے نکل چکا ہے اور اب خود وہاں کے سربراہ کو جان کے لالے پڑے ہیں ،انہیں چھپنےکی ضرورت محسوس ہورہی ہے ان تمام درگتوں کے باوجود انہیں یہ توفیق نہیں ہورہی ہے کہ باغیوں کے مطالبے کوقبول کرکے مغرب کے خواب کو شرمندہ تعبیرنہ ہونےدیں ۔ تاکہ آئندہ بھی لیبیا مغرب کی راست مداخلت سے محفوظ رہ سکے۔
 اب تو حالات نازک ہوچکے ہیں اور مغرب کو توڑواور حکومت کرو کی حکمت عملی اختیار کرنے کا پورا موقع مل چکا ہے اب انہیں لیبیا میں اپنی چشم وابرو کے اشاروں پر ناچنے والے حکمراں کو کرسی اقتدار سونپنے سے کون روک سکتا ہے ؟بعد میں لیبیا کی نشاۃ ثانیہ کے نام پر جوکچھ ہو گا اس سے بھی دانش وران خوب اچھی طرح واقف ہیں ۔آج باغیوں کو پوشیدہ طور پر قذافی کے خلاف ابھا رااور اکسایا جارہا ہے اور انہیں تعاون بھی کیا جارہا ہے ۔
 لیکن جب قذافی سے باغی شکست کھا جائیں گے یا فتح حاصل کرلیں گے دونوں ہی صورت میںباگ ڈور بالآخر امریکا اور اس کے ہم نوائوں کے ہاتھوں میں جانی ہے چوں کہ اگر باغی ہارتے ہیں تو ان کے تعاون اورعوامی خواہشات کے نام پر امریکا لیبیا کے داخلی معاملات میں مداخلت کرےگا اور اگر باغی جیت جاتے ہیں تو وہاں معاہدوں اور تجارتی تبادلے کے نام پر پہنچ کر وہاں کی اقتصادیا ت کو توڑنے اور کمزور کرنے کا موقع ملے گا ۔ اس طور وہ لیبیا کولوٹنے میں کامیاب ہوسکیں گے ۔اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے ضروری تھاکہ مرض کے لاعلاجہونے اور ناسور بننےسے قبل اسلام کے شورائی نظام کو پیش نظررکھ کر انتخابات کرادینے چاہیئں اگر ایسا ہوتا تو آج اس قدر حالات خراب نہیں ہوتے کہ خود مسلمان مسلمانوں کے خون کے پیاسے نظر آرہے ہیں ۔
 ایسی صورت حال کا سامنا عالم اسلام کو ہر اس موقع پر کرنا پڑا ہے ۔جب جب اقتدار کے لالچی اور قرآنی واسلامی شورائی نظام کو طاق نسیاں کی زینت بنا کر حکومت کرنے والے افراد غالب ہوجاتے ہیں ۔اسلامی ممالک پرخلفائے راشدہ کے بعد زیادہ تر انہی غیر قرآنی نظام کی بالا دستی رہی ہے ۔اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ خلفائے راشدہ کے بعد ہر زمانے میں عیسائیوںویہودیوں کو مسلمانوں کے اندر بغاوت کا جذبہ پیدا کرنے کے بھر مواقع ملتے رہے ہیں ۔اسلامی اقتدار کے مالک کبھی عیسائی شاعر اخطل کے ساتھ شراب نوشی کرتے دیکھے گئے ہیں تو کبھی لارینس آف عربیہ عثمانی حکومت کے خاتمہ کے لئے مشورے دیتے نظر آئے ہیں آج کی موجودہ صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ عمومی طور پر تمام سربراہان مملکت اسلامیہ مغرب زدہ اور تمدن مغرب کو اپنے لئے لائق عمل سمجھتے ہیں اب ان کے لئے اسلامی اعمال ،تہذیب وتمدن،اخلاق،اطوار،آداب سب کچھ لائق شرم وعار ہوچکے ہیں ،ان کےلئے ان باتوں میں کوئی کشش نہیں ہے ۔ان کا علاج ،ان کی سیاحت ،ان کے بچوں کی تعلیم مغرب میں ہوتی ہے چوں کہ اسلامی تعلیمات اوراس کا طریقہ تعلیم ان کے بچوں کے قابل نہیں رہا ۔مرعوبیت ان کے رگ وریشے میں رچ بس گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہاں مالس ،فلم ہالز ،مغربی ماڈل گاڑیاں ،مغربی طرز تعمیر سے مزین عمارتیں، مغربی لباس تیارتو کئے جارہے ہیں ۔لیکن انہیں حکومت سازی اور اقتدار کی بحالی کے لئے اسلامی طریقے یاد نہیں آتے ۔حکومتوں اور حکومتی افراد کے لئے اسلام نے جو شرائط مقرر کی ہیں ،عوام کی خوش حالی ،اقتصادی بالاتری کے لئے انہیں اس کی چنداں فکر نہیںہوتی ۔نباض ملت اقبال نے کبھی کہا تھاکہ
نظام پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
آج ہر طرف یہی صورت حا ل پیدا ہوچکی ہے ۔دونوں ہی نظام کے تحت چلنے والی حکومتیں اسلام اور دین سے بیزار ہوچکی ہیں ۔حیرت یہ ہوتی ہے کہ آج کے اس زوال آمادہ زمانےمیں بھی اسلامیان دنیا کو خلفائے راشدین اور ان کی صاف وشفاف حکومتیں یاد نہیں آتیں ،انہیں جو حکومتیں متاثر کرتی ہیں ،ان کے بارے میں جمہور علما کا اتفاق ہے کہ وہ سلطنتیںتھیں ۔اسلامی نظام اسے قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اور یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ چنگیزیت کا دور دورہ ہے ۔عوام ایک تانا شاہ سربراہ کی تانا شاہی سے بور ہوچکے ہیں اور وہ اس عذاب الہی سے خود کو دور کرنا چاہتے ہیں ۔وہ ایک ماڈل نظام کے خواہاں ہیں ۔جس کے حصول کی ناکامی اور تصور کے خلاف حکومتی امور انجام دیے جاتے ہیں تو وہ سڑکوں پر اتر آتے ہیں ۔اسلامی ممالک کے حوالہ سے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہاں کی اکثریت کبھی بھی گمراہیوں اور بے دینیوں پر اتفاق نہیں کرسکتی اور جب تک مسلم ممالک کا قبلہ درست نہیں ہوجاتا تب تک اس طرح کے حالات پیدا ہوتے رہیں گے۔ مسلم ممالک میں جاری باغی سیلاب میں ہزاروں کی تعداد میں عوام بہہ چکے ہیں ،وہاں کی زمین عوام کے خون ناحق سے رنگین ہوچکی ہے لیکن سربراہوں کو اس کی فکر نہیں ہے اور یہی بے فکری اور بربریت ان کی نیا ڈبوئے گی ۔
alihaqnrn@yahoo.com
 

Wednesday, 24 August 2011

انا کا رام لیلا میں انشن جنسی بے راہ روی کا ذریعہ

نورین علی حق
 انا ہزارے کی بلا دہلی سے کب دور ہوگی ؟آپ لوگوں نے یعنی میڈیا نے انہیں کچھ زیادہ ہی اہمیت دے دی ہے ۔جس کی وجہ سے ان کے حوصلے کچھ زیادہ ہی بلند ہوگئے ہیں اور وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں ۔اب دیکھئے کہ نہ صرف دہلی کا ٹریفک نظام چرمرا رہا ہے ۔بلکہ نوجوان طبقہ بے لگام ہورہا ہے ۔پوری پوری رات نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان علاقوں میں عیاشیاں کررہے ہیں اور والدین بھی یہ سوچ کر خوش ہیں کہ میرے بچے آزادی کی دوسری لڑائی میں شریک ہیں گو کہ ان کی یہ سوچ سراسر غلط اور خام خیالی پر مبنی ہے ۔جتنی برائیاں ممکن ہوسکتی ہیں وہ سب وہاں موجود ہیں ۔زیادہ تر نوجوان رام لیلا میدان میں اکٹھا ہیں ان کا دوہی مقصد ہے ایک یہ کہ وہ ٹی وی اسکرین پر نظر آئیں اور دوسرایہ کہ وہاں خواہشات نفس کی تسکین کا سامان فراہم کردیا گیا ہے ۔اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے چوں کہ وہ ان کی عیاشیوں پر لگام لگانے کی کوشش کرے گی توان کے خلاف ہی انا کے اندھے مقلدین مورچہ کھول دیں گے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ انشن اور بھیڑ اپنے آپ میں خود ایک کرپشن ہے ۔جسے جسمانی اور روحانی کرپشن کا نام دیا جاسکتا ہے ۔میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ اس طرح کے احتجاج سے مسلم محلوں کو براہ مہربانی بچایا جائے ۔فی الوقت رام لیلا میدان جنسی انارکی کے معاملے میں کھیل گائوں ہوچکا ہے۔رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں مسلم علاقے میںیہ  انا کا انشن ایک عذاب الہی ہے۔جس کے خاتمہ کے لئے روزہ داروں کو اجتماعی دعا کرنی چاہئے ۔

انتشار کے شکار مسلم ادارے

 مسلم ادارے بالعموم انتشار کا شکار رہتے ہیں حالاں کہ اس انتشاری کیفیت کے خود مسلمان ذمہ دار ہوتے ہیں ۔اور وہ اپنے تمام الزامات کو حکومت وحکومتی لوگوں کے سر منڈھ دیتے ہیں ۔اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ الٹا حکومت کو اقلیتی اداروں میں مداخلت کا سنہری موقع مل  جاتا ہے ۔اور جب سب کچھ لٹ پٹ  چکا ہوتا ہے تو مسلمانوں کو ہوش آتا ہے اور پھروہ چیخنا شروع کرتے ہیں ،اب تک علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے وائس چانسلر کے خلاف آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے اور کسی بھی  طرح علی گڑھ سے ان کا انخلاچاہتے تھے ۔لیکن جب ان سے ان کے حقوق چھن گئے اور تمام معاملے وزارت تعلیم نے حل کرنے شروع کردیے تو اب ان کے مخالفین ہی شور کررہے ہیں کہ یہ غیر قانونی اور بے جا مداخلت ہورہی ہے ۔حالاں کہ یہ موقع خود مسلمانوں نے دیا ہے اگر اس بری طرح وائس چانسلر کی مخالفت نہیں کی ہوتی تو آج یہ نوبت نہیں آتی ۔جذباتیت پسندی اکثر مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی رہی ہے اور آئندہ بھی مسلمانوں کا اس مرض لادوا سے جاں بر ہونے کی کوئی امید نہیں ہے ۔کوئی بھی فرد اپنے عقل وشعور کے سہارے کوئی فیصلہ نہیں لیتا ۔کسی نے کہہ دیا کوا کان لے کر بھاگ رہا ہے اور یہ کوے کے پیچھے دوڑنے لگے ۔

Tuesday, 23 August 2011

علوم وفنو ن حضرت علی کی بارگاہ کے رہین منت ہیں

نورین علی حق 
 کہا جاتا ہے کہ صفاکی پہاڑی سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاعلان حق فرمایاتو خدا کی وحدانیت کی تصدیق کرنے والے ایک ۱۰ سالہ آشوب چشم میں مبتلا بچہ کا کفار قریش نے مضحکہ اڑاتے ہوئے یہ جملہ کسا تھاکہ ’’لو ڈیڑھ آدمی کا اسلام مبارک ہو ۔‘‘ان میں ایک تو یار غار رسول ،صدیق اکبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور آدھے مولائے کائنات ،اسد اللہ الغالب ،جانشین پیمبر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔چونکہ حضرت خدیجہ ؓگھر میں تھیں اس لیے کفار کو ان کے اور حضرت زید بن حارثؓ کے ایمان کا علم نہیں تھا ۔لہذا اپنی ناسٹلجیائی ذہنیت کا غبار حضرت علی ؓپر اتار دیا ۔اور گمنامیوں کی انتہائی پستی میں چلے گئے جہاں سے واپسی کی کوئی صورت نہیں نکلتی ،لیکن آشوب چشم میں مبتلا وہ بچہ رہتی دنیا تک کے لیے نہ صرف یہ کہ حیات دوام اختیار کرگیا بلکہ ظاہری موت کے بعد بھی نسلا بعد نسل ان کی اولاد اسلام کو صحرائے عرب سے نکال کر دنیا کے بلاد وامصار میں پھیلاتے رہے اور اس مشن میں کامیابی کے حصول کے لئے اپنی رگوں میں دوڑنے والے خون کے ایک ایک قطرے کو اسلام اور اس کی بقاواشاعت کے لئے نچھاور کردیا ۔
 یہاں تک کہ ان کی عظمت وسربلندی کی گواہی قرآن نے بھی بارہا دی ،سورۃ توبہ کی دوسری رکوع کے شروع میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین وانصار میں سے بھلائی کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے سابقین اولین سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے ۔ان کے لئے نہروں والی جنتیں تیار ہیں ۔جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ ان کی بڑی کامیابی ہے ۔
 تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو عمومی سابقین اولین میں بھی حضرت مولائے کائنات کو اولیت حاصل ہے اور اگر غائرانہ نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوگا کہ صفاکی پہاڑی پر حضرت علی اظہار اسلام کا دوسرا رکن اقرار باللسان فرمارہے تھے ۔تصدیق بالقلب تو دس سال پہلے پیدائش کے بعد ماں فاطمہ بنت اسد کی گود سے ہی اپنی آنکھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زیارت سے کردی تھی اور جہاں تک عمل بالجوارح کی بات ہے تو اسلام کی پوری تاریخ خدمات علی سے مزین ومرتب ہے ۔جدوجہد نبوی کے ہر دور میں ہر مقام پر علی کی ذات نمایاں نظر آتی ہے ۔کوہ صفا پر سنگ باری کے دوران ،شعب ابی طالب میں ،طائف کی گلیوں میں ،غزوہ بدر ،غزوہ احد ،غزوہ خندق ،صلح حدیبیہ ،شب ہجرت نبوی ،غزوہ خیبر ،حجۃالوداع ہر جگہ حضرت علی پوری تب وتاب کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں اور پھر پورنمائندگی کرتے ہیں ۔پوری زندگی فرمان رسول پر جی جان سے عمل کرتے رہے بس ایک جگہ انکار کرتے ہیں اور اس انکار میں بھی دراصل رسول کی رسالت کا اقرار ہے کہ جب کتابت صلح حدیبیہ کے دوران کفار مکہ کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے ’’محمد رسول اللہ ‘‘کی کتابت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ محمد بن عبد اللہ لکھاجائے   اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب صلح حدیبیہ حضرت علی ؓ کو رسول اللہ حذف کرنے کا حکم دیاتو وہاں حضرت علیؓ نے انکار کردیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست اقدس سے رسول اللہ کو حذف کیا اور محمد بن عبداللہ لکھایا۔
اس موقع سے مورخین تو اریخ اسلام حضرت علی کے انکار کی وجہ تحریر نہیں کرتے چونکہ وہ بہت ظاہر ہے لیکن اس وقت سہیل بن عمروکے عمل کا اس سے بہتر رد عمل غالباً کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا کہ تم اگر مصلحتاً بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محمد رسول اللہ نہیںمان سکتے تو ہم بھی  مصلحتاً رسول اللہ کے جملہ کو اپنے ہاتھ سے کاٹ نہیں سکتے۔
 جہاں تک تدبیر ، حکمت عملی ، نفاذ قوانین اسلام اور اعلاء کلمۃالحق کی بات ہے تو یہاں بھی حضرت علیؓ کو امتیاز حاصل ہے جس کی گواہی اجلہ صحابہ کرام ؓ نے دی ہے۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا ہے کہ’’ لولا علی فھلک عمر ‘‘بطور تمثیل نہیں ہے۔ ان کے دل کی گہرائیو ںسے نکلی ہوئی بات ہے۔ قرآنی تفہیم، معانی قرآنی کے ادراک کے سلسلہ میں بھی حضرت مولائے کائنات مرجع تھے اور بعد میں بھی آپ کی اولاد کے ذریعہ وہ شعلہ علم و عمل دوسروں کی زندگیوں سے تاریکی دور کرتا رہا ۔ حضرت امام حسن ؓ ، حضرت امام حسینؓ، حضرت زین العابدینؓ، حضرت محمد باقرؓ، حضرت جعفر صادقؓ، حضرت موسیٰ کاظمؓ، حضرت علی رضاؓ، حضرت محمد تقی جوادؓ، حضرت علی نقویؓ، حضرت حسن عسکریؓ کی شخصیات سے اپنے دور کے ائمہ اکتساب فیض کرتے رہے اور اہل بیت اطہار کے قلوب کی تابانیاں پوری دنیا میں پھیلتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دور میں احقاق حق اور ابطال باطل کا تسلسل تعطل کا شکار نہیں ہوسکا۔ سخت ترین نا مساعدحالات اور ہجرت کی کلفتوں کو برداشت کرتے ہوئے دعوت دین کا فریضہ سادات کرام سے کبھی نہیں چھوٹا۔ امتداد زمانہ کے ساتھ شخصیات بدلتی رہیں،مقصد حیات نہیں بدلا۔ اگر غیر منقسم ہندوستان میں اسلام کی جڑیں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے مضبوط کیں تو حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ نے بغداد اور اس کے نواحی ممالک پر اثر انداز رہے اور یہ سب کے سب اولاد علی ہیں۔ آج دنیا سائنس اور ٹکنالوجی کی بات کرتی ہے تو اس لئے کہ مطالعہ قرآن اور علوم سینہ سےلیس ہوکر حضرت امام جعفر صادقؓ نے سائنس کا پہلا تصور سفیان ثوریؒ کو دیا وہیں انہوں نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کو فقہی استدلال کے طریقے سکھائے۔ حضرت ابو حنیفہؒ نے اس فقہی تفہیم کو آگے بڑھایا۔ اس طرح تمام علوم و فنون اسلامیہ اہل بیت اطہار کے مرہون منت ہیں اور امت مسلمہ پر ان کے احسانات ناتمام سے پوری ملت اسلامیہ گراں بار ہے۔ یہ سب کچھ رسول کائنات اور مولائے کائنات کی دعائے نیم شبی، آہ سحر گاہی اور جذباتیت سے اجتناب کے نتائج ہیں۔زمانے نے اپنےماتھے کی آنکھوں سےدیکھا کہ جس آدھے پر صفا کی پہاڑی کے کفارومشرکین ہنسے تھے اسی آدھے اوراس کی اولادنے دنیا کے آدھے  حصے پراسلامی علم لہرایا ،اور ائمہ سادات کے بعد بھی سادات کرام اپنے آبا کے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں ہمیشہ رہے اور آج بھی صورت حال یہ ہے کہ
خواب آنکھوں میں سلامت ہیں ابھی اجڑا ہے کیا
ہم ابھی تک ہیں سفر میں ابھی بدلا ہے کیا   
alihaqnrn@yahoo.com

Thursday, 30 June 2011

دین کے نام پر مسلمانوں کا قتل اور اسلام کی بدنامی

                                                         نورین علی حق
غزہ  جانے والے ترکی کے جہاز پر اسرائیل کا جارحانہ حملہ، اس حملہ کی عالمی مذمت کو روکنے کے لیے امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، اسی ادھیڑبن کے درمیان لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر خود کش حملہ یہ مختلف حادثات و واقعات مسلمانوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتے ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور ان کے حق بجانب ہونے کا جواز بھی پیدا کیا جارہا ہے۔داخلی طور پر مسلمانوں کے درمیان اتنے اختلافات ہیں کہ امریکہ کی ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی کی تائید میں سعودی حکمراں شاہ عبداللہ ذرا بھی عار نہیں محسوس کرتے۔دوسری طرف ہندوپاک میں کچھ مسلم تنظیمیں ایسی ہیں جو خود کش حملوں کو ہی تمام تر مسائل کا حل سمجھتی ہیں، جس سے مسلمانوں کی شبیہ مزید خراب ہونے کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکل سکتا-
یکم جولائی 2010 کو لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جس طرح کا واقعہ رونما ہوا وہ تمام مسلمانوں کو وحشی اور انسانیت سوز ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، جس میں پچاسوں زائرین شہید کردیے گئے اور سیکڑوں کی تعداد میں داخل اسپتال ہوئے۔ مزار سے تیس میٹرکی دوری پر ہونے والے اس خود کش حملہ میں جان گنوانے والے لوگوں کے اعضائے جسمانی ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔جگہ جگہ خون کے دھبے تھے۔ سنگ مر مر سے تعمیر اس عمارت کو تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، البتہ عمارت میں لگے شیشے ٹوٹ کر مزار شریف پر آگرے۔ان تمام مناظر کی تصاویر مختلف اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں اور ویب سائٹس پر بھی انہیں نمایاں طور سے شائع کیاگیا-اس واقعہ کو دلیل کے طور پر استعمال کرکے کل کو امریکہ پاکستانی خطہ میں ڈرون حملے کرتا ہے تو اس پر لعن وطعن کرنے کا ہمیں کیا حق حاصل ہوگا ؟وہ تو علی الاعلان یہ باور کرائے گا کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں طالبان اور القاعدہ سرگرم عمل ہیں جن کی بیخ کنی کے لیے فوجی کارروائی ضروری ہے اور اس کے اتحادی کھل کر اس کی حمایت کریں گے۔ اس وقت جہاد کے نام پر عوام کا ناحق خون بہانے والے چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں داخل ہوجائیں گے اور اس میں بھی عام مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے گی اور ایوان باطل میں رقص ابلیس کا دور چلے گا تو دوسری طرف پوری دنیا کے مسلمان چاہ کربھی بے اثرہی سہی نعرئہ احتجاج بھی درج نہیں کراسکیں گے۔
بعض تجزیہ نگار اپنے انداز میں اس حملہ کے پس پشت یورپی لابی کی شمولیت کی طرف بھی اشارے کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا حملہ آور غیر مسلم تھے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہی ہوگا تو کیا آج کے مسلمان اتنے کم عقل او رباؤلے ہوچکے ہیں کہ انہیں جس طرح استعمال کیا جاتا ہے، وہ استعمال ہوجاتے ہیں اور مزارات اولیاء پر بھی غارت گری کا بازار گرم کردیتے ہیں، جس میں بچوں کی آہیں، جوانوں کا کرب اورضعیفوں کی لاچاری سب کچھ شامل ہوتی ہے۔داتا دربار کے ایک خادم کا بیان ہے کہ ان کے پاس کچھ دنوں قبل فون آیا تھا کہ درگاہ میں خواتین کی آمد پر پابند ی لگائی جائے ورنہ نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور بعد میں جمعرات کی رات یہ سانحہ پیش آیا،اسی کے ساتھ مشہور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کا بیان بھی اس جانب کھلے طور پر اشارہ کرتا ہے کہ مذکورہ حملہ کے پیچھے مسلم تنظیموںکاہاتھ ہے۔جس معاشرہ میں ہم جیتے ہیںاس تکثیری سماج میں ہمارے سامنے بارہا اس قسم کے خدا ناشناس، انسانیت سے عاری، تصوف و صوفیہ اور مزارات کے مخالف اپنے بیانات دیتے رہتے ہیں جن سے ان کے باغیانہ تیور اور جذبات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اصلاح معاشرہ کے نام پر جس طرح کی یہ کارروائیاں کرتے ہیں اس سے کبھی کوئی اصلاح کی امید نہیں کی جاسکتی۔چوںکہ یہ خود اصلاحی طریقۂ نبوی اور سنت اللہ سے خالی ہوتے ہیں۔پوری اسلامی تاریخ اس بات پرشاہد عدل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے آخری ادوار تک کبھی کسی دور میں مزارات و قبرستان پر بلڈوزر نہیں چلائے گئے، لیکن جب مزار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بلڈوزر چلایا گیا تبھی سے ایک طبقہ کے اندر اس طرح کے جذبات پیداہوئے اوران میں جسارت و جرأت پائی جانے لگی۔آج کی تاریخ میں اس طبقہ کو ریال و دینار دے دے کر ان کے حوصلے اتنے بلند کردیے گئے ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ دنیا کے کسی حصہ میںکوئی ایک مزار نظر نہ آنے دیں۔
میں اپنے ان جملوں سے قطعاً کسی بھی جماعت و تحریک اور تنظیم کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا نہ ہی ان شرپسند عناصر کی طرح مسلکی منافرت پھیلا کر خونی کھیل کو ہوا دینا چاہتا ہوں مگر وقت وانسانیت کا تقاضا ہے کہ وہ تحریکیں اور مکاتب فکر جن کی طرف اشارہ کرکے ہر ذی عقل یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ان دہشت گردوں کا تعلق فلاں جماعت سے ہے، فلاں تحریک سے ہے، ان کے اکابرین و ذمہ داران اس قسم کی انسانیت سوز حرکتوں کی کھل کر مذمت کریں اور اپنے متعلقین اور وابستگان کو ایسے گھناونے عمل سے اجتناب کی اعلانیہ تلقین کریں ،تاکہ معاشرہ میں رد عمل کے طور پر پھیلنے والی بے چینیوں اور متوقع فسادات ومسلکی تنازعات کا سدباب ہوسکے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہو اوراسلام اور مسلمانوں کی دلی آرزووں اور تمناوں کی تکمیل نہ ہوسکے ،جس کے وہ خواہاں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں ہی برسر پیکار کرکے ہم تماشائی کی صورت میں تالیاں بجائیں اور کلمہ گوایک دوسرے کا خون بہائیں ،دوسروں کو خود پر ہنسنے کے بہت سے مواقع ہم فراہم کرچکے ۔اب ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور کم ازکم سیاسی وسماجی ،ملکی وقومی معاملات ومسائل میں اتحادواتفاق کا مظاہرہ کرناچاہیے کہ حالات کامسلمانوں سے جبری تقاضا یہی ہے اور ملت کی فلاح وبہبود بھی اسی میں مضمر ہے۔یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ جب تھانہ بھون میں مولانا اشرف علی تھانوی کے مزار کو نقصان پہنچایا جائے تو اس کی مذمت میں تمام اردو اخبارات و رسائل کے صفحات کے صفحات سیاہ کردیے جائیں اور جب اس دربار میں دھماکہ کیا جائے جہاںکی حاضری کے وقت خود خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مزار کی عظمت ورفعت کے پیش نظر یہ فرمائیں:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں راپیرکامل کاملاں را رہ نماں
تواس قدیم ترین اور بافیض بارگاہ کے سلسلہ میں ہم اپنا کوئی رد عمل نہ ظاہر کریں، جب کہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہاں شہید ہونے والے تمام لوگ بے گناہ تھے۔ ہماری یہ خاموشی نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ شرمناک بھی ہے۔
واضح رہے کہ مزارات پر بے ہنگم عورتوں کی حاضری کے مخالف صرف طالبان یا دیوبندی اور اہل حدیث ہی نہیں بلکہ تمام صوفی و سنی علماء بھی اس کے سخت مخالف ہیں،البتہ وہ اصلاح معاشرہ کے لیے خلاف سنت طریقوں اور وحشیانہ رویوں کو جائز نہیںسمجھتے ۔
بزرگان دین پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹتے رہے ہیں، ان کے اقوال وافعال اور اعمال میں تضادات نہیں پائے جاتے تھے۔ ان میں جبروظلم کوبرداشت کرتے ہوئے دین کی دعوت کا جذبہ موجود تھا۔وہ نفس کی خاطر حلت وحرمت کے حیلے نہیں تراشتے تھے۔ان کی زندگیوں کا مقصد عوام کو انسانیت کی تفہیم کرانا ،ان میںاحساس سود و زیاں پیدا کرنا ،انہیں گناہوں سے دور کرنا اور ان سب کے ذریعہ خدا کی رضا کا حصول تھا ۔داتا ہوں کہ خواجہ ،قطب ہوں کہ فرید اور دیگر تمام سلاسل کے بزرگان دین کی عمومی پسندیدگی اور ان کی بارگاہوں سے ہندومسلم ،سکھ عیسائی سب کی یکساں محبت وفدائیت اور دلچسپی اظہرمن الشمس ہے اور آج کے نام نہاد مبلغین ومجتہدین کو تمام مذاہب کے متبعین بشمول مسلمانوں نے یکساں طور پر مسترد کردیا ہے۔چوں کہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے اندر اخلاص وللہیت کا فقدان ہے۔ان کے اندر قلب کو تڑپانے اور روح کو گرماکر بھٹکے ہوئے آہوں کو سوئے حرم لے چلنے کی استطاعت نہیں ہے -کیا دس سو سالہ صوفیہ کی تاریخ ہندستانی مزاج وطبیعت کو سمجھنے میں ہمارے لیے مددگار ثابت نہیں ہورہی ہے کہ یہاں صوفی منہج پر چل کر ہی (جو اصل نبوی منہج تھا )دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے ۔تخت وتاج پر قابض ہونے کے بعد دینی دعوت کا منصوبہ تیار کرنے والی کتنی ہی تحریکیں ھباء امنثورا ہوگئیں اور کتنے ہی مفروضہ امیرالمومنین کی امارت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی جب کہ دلوں پر حکومت کرنے والے حیات دوام اختیار کر گئے اور آج حکومت و انتظامیہ کے تطفیفی عمل کے باوجود موجودہ ہندوستان میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہیں اور پاکستان میں انہیں اکثریت حاصل ہے ۔یہ کثرت تعدادانہیں بزرگوں کی دعائے نیم شبی ،آہ سحرگاہی ،جہدمسلسل اور عمل پیہم کی رہین منت ہے۔اگر ان بزرگوں نے بھی گولے باروداور خودکش حملوں کاسہارا لیا ہوتا تو برصغیر ایشیا میں پاکستان وبنگلہ دیش کی مسلم حکومت اور ہندستان میں سب سے بڑی اقلیت میں مسلمان نہیں ہوتے نہ ہی صدیاں گزرجانے کے بعد انہیں یاد کیا جاتا ۔
بالفرض اگر ہم مان بھی لیں کہ قرآن و سنت کے علاوہ کوئی دوسرا ہمارے لیے آئیڈیل و نمونہ نہیں ہونا چاہیے، تب بھی کسی ایک حدیث اور ایک آیت قرآنی سے دہشت گردانہ کارروائیوں کی تائید نہیں ہوتی البتہ فتح مکہ کے دن جب کسی نے ’’الیوم یوم الملحمۃ‘‘ (آج خون کا دریا بہانے کا دن ہے۔)کا نعرہ دیا تو محسن انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘ (آج رحمت و رافت کا دن ہے) انتقام کا دن نہیں ہے۔آج ابوسفیان کے گھرمیں پناہ لینے والوں اور غلاف کعبہ کے اندر چھپنے والوں کو بھی معافی ہے۔بدر کے قیدیوں کو آزاد فرمایا۔ طائف کے اوباشوں اور لفنگوں کے لیے دعائے ایمان و رحمت فرمائی۔سب سے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتلوں، کلیجہ چبانے والوں اور دیگر اذیتیں پہنچانے والوں کی خطاؤں کو درگزر فرمادیا ۔یہ ہیں اسوۂ حسنہ کی چند جھلکیاں بصورت دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی ایک لمحہ کسی پر ظلم و ستم میں نہیں گزرا۔کسی بے گناہ کو کبھی پریشان نہیں کیا-یہ ہے اصل اسلام، یہ ہیں پیغمبر اسلام جنہوں نے خود پر کوڑے ڈالنے والی خاتون کی عیادت کی اور اس کے لیے دعائے صحت بھی فرمائی۔
۴؍جولائی 2010کو بعض اخبارات نے سنی تحریک محاذ کا اعلان شائع کیا جس میں انتقامی جذبات سے لیس سنی تحریک محاذ کے ذمہ داران کے بیانات شائع ہوئے ہیں۔ اپنے بیان میں ایک صاحب نے کہا کہ ’’عوام اہل سنت اب محفل نعت، ختم قل اور گیارہویں پر رقم خرچ کرنے کی بجائے اس رقم سے اسلحہ خریدیں تاکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے-‘‘ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ انتقامی جذبہ مصلحت سے یکسر خالی ہے۔چوںکہ انتقام منتقم کو عارضی طور پر تو مطمئن کردیتا ہے، مگر اس کے مثبت اثرات دنیا پر نقش نہیں ہوتے۔وہ بھی لائق مذمت ہوتے ہیں۔انتقامی کارروائیاں ہمیشہ احساس جرم اور ندامت و پشیمانی کے اظہار میں مجرمین کی راہ کا روڑا ثابت ہوتی رہی ہیں۔خون شہداء سے لت پت داتا کا دربار، خواجہ کا گنبد، تارا گڑھ پہاڑ، شمس الدین التمش کا دربار، ناگ پور کی پہاڑی، دہلی کے ذرات اور قطب مینار اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے اکابرین ہمیشہ عفو و در گزر سے کام لے کر دلوں پر اپنی حکومت مضبوط و مستحکم کرتے رہے ہیں۔ہم انتقامی کارروائی کے جذبات سے اوپر اٹھ کر اپنا احتساب بھی کریں کہ امتداد زمانہ کے ساتھ ہمارے اندر کس طرح کی تبدیلیاں آئی ہیں جن کی پاداش میں ہمیں یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں اور اس موقع پر اپنے قول وعمل سے یہ اعلان کریں کہ  ’’لاتثریب علیکم الیوم۔انتم الطلقاء‘‘ صلح ومعاہدہ سے فتح مبین تک پہنچنا اور اس کے بعد عام معافی کا اعلان کردینا یہی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور لازوال اسوہ ہے۔