ہند۔پاک کے موجودہ حالات کیا دونوں ممالک کو مشترکہ مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر مجبور نہیں کرتے ؟
نورین علی حق
معمول کے مطابق ایک بار پھر ہندوستان اور پاکستان دونوں بم دھماکے سے دہل گئے ہیں اور روایت کے مطابق دونوں ممالک کی پولیس دھماکوں کے بعد متحرک ہوگئی ہے ۔ان دھماکوں پر مختلف ممالک اور قومی لیڈران کی سخت ترین الفاظ میں مذمتیں بھی آچکی ہیں ۔لیکن دنیا بھر کے دماغ مل کر بھی دہشت گردی کے سد باب کے لئے کوئی مشترکہ اورمستحکم لائحہ عمل اب تک طے نہیں کرسکے ہیں ،حالاں کہ عوام کی قوت برداشت جواب دینے کو ہے ۔دونوں ہی ملکوں کے عوام کی سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ان بے قصوروں کا گناہ کیا ہے اور انہیں کس جرم کی سزادی جارہی ہے ؟
اس کے برعکس حکومتی افراد اور تفتیشی ایجنسیاں ان کی بے تابیوں اور پریشانیوں کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔جب بھی دھماکے ہوتے ہیں الزامات ایک دوسرے پر منڈھ دیے جاتے ہیں یا کسی نتیجہ تک پہنچنے سے پیشتر ہی صرف عوام کی تسلی کے لئے چند داڑھی والوں کے خاکے جاری کر دیے جاتے ہیں ۔اس پر طرہ یہ کہ کسی کاکھل کر نام بھی نہیں لیا جاتا ،بلکہ ٹی وی اسکرین پر ایسی تصاویر جاری کردی جاتی ہیں جن سے صاف ہوجاتا ہےکہ اس دھماکے میں بھی مسلمان شامل ہیں۔ ایسی صورت حال پر اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
جب جب ہمارے ملک میں دھماکے ہوتے ہیں، ہمارے سیاسی رہنما بیان دے کر خاموش تماشائی بن جاتے ہیں اور تفتیشی ایجنسیوں کو کوئی میل مل جاتی ہے، جس پر تکیہ کرلیا جاتا ہے کہ اسی تنظیم نے دھماکہ کیا ہے۔ جب کہ اس سے قبل بھی متعدد بار دھماکوں کے بعد ای میل کے ذریعہ دہشت گردوں کے پیغامات آتے رہے ہیں اور جب اس کی تہہ تک ایجنسیاں پہنچی ہیں تو شکوک و شبہات کے سارے بند دریچے میں دھماکوں کا عوام و خواص کو احساس ہوا ہے کہ جن تنظیموں، اداروں اور افراد کو وہ محب وطن، مذہبی اور بے داغ شخصیات سمجھتے رہے ہیں، وہی ان دھماکوں میں ملوث ہیں۔ عرصہ پہلے جب اجمیر شریف کی درگاہ میں دھماکہ ہوا تھا تو ملک کے دیگر طبقوں کے ساتھ مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ تھا جو صاف طور پر ایک مسلم گروہ کو ہی نشانہ بنا رہا تھا، لیکن جب اس دھماکے کی پرتیں کھلیں تو باشندگان ملک کو جس طرح کی پشیمانی کا سامنا رہا، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، چونکہ ہندوستان کی اکثریت مسلمانوں کی مخالف اور ان سے بدگمان تو ہوسکتی ہے، مگر خواجہ ہند کے دربار میں دہشت گردانہ حملہ کو برداشت نہیں کرسکتی، گوکہ اس وقت بھی شاید کسی’ حرکت‘ کی جانب سے اس مذموم حرکت کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ اس طرح کی مثالوں کے عیاں ہوجانے کے باوجود بار بارثبوت کے بغیر کسی مسلم نام کی تنظیم کو ٹی وی اسکرین پر دکھانے اور اس سے ماقبل کے تمام دھماکوں کو اس سےجوڑنے کا مقصد ملک کی اقلیت کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا ہے۔اب اس طرح کی تسلیوں اور دھند میں لپٹی کامیابیوں سے عوام مطمئن اور شادماں نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ہمارے سیاسی لیڈران کی سیاسی اور رسمی مذمت سے عوام کی متاع گم گشتہ واپس انہیں ملتی ہے۔
وزارت داخلہ کے ذمہ داران اور این آئی اے کے ڈائرکٹر سے انٹر ویو کے دوران چینلز والےیہ سوال کرنے سے بھی نہیں چوکتے کہ کیا اس میں’ ہوجی‘ کا ہاتھ ہوسکتا ہے ؟جب کہ معاملہ کی نزاکت کے پیش نظر ہوم سکریٹری نے جوجواب دیا وہ بہت ہی محتاط اور ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے والا تھا ،انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہوسکتا ہے لیکن فی الوقت ہم کسی کو نشان زد نہیں کرسکتے ۔ایسے نازک حالات میں اس طرح کے سوالات ظاہر ہے کہ آگ پر گھی کا کام کرنے والےہوتے ہیں ۔اس لئے آج یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ موجودہ الیکٹرانک میڈیا کا باریک بینی سے معائنہ کرکے اس کی بے لگامی پر لگام لگایا جائے ورنہ آئندہ اس طرح کے سوالات سے فرقہ وارانہ فسادات پھیلنے کا خدشہ ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھماکوں کےچند گھنٹوں بعد آپ خاکے بھی جاری کردیتے ہیں اور آپ کو سراغ رسانی کی راہیں بھی ہموار دکھائی دینے لگتی ہیں۔
ڈھونگ رچنے کا سلسلہ بہت دراز ہوچکا، اب عوام کو جھوٹی تسلیوں کی چنداں ضرورت نہیں ہے، نہ گڈکری جیسے مفاد پرست لیڈر کی جو عوامی خون اور لوتھڑے پر بھی سیاست سے باز نہیں آتے۔ ایسے موقع پر جب انہیں عوام کے آنسو پونچھنے چاہئیں، وہ وزیرداخلہ پر لفظی حملے کر رہے ہیں۔ اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جناب کو صرف سیاسی مفاد مقصود ہے اور وہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
دہلی پر ہونے والے گزشتہ تمام دہشت گردانہ حملے کی فہرست اور اس کی تفصیل دیکھی جائے تو ہر فائل اور اس کی تفصیل میں یہ بات موجود ہے کہ فلاں جگہ پر ہوئے حملے سے قبل وہاں کے سی سی ٹی وی کیمرے خراب پڑے تھے۔ پھر اخبارات والے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خراب کیمروں کی فہرست جاری کرتے ہیں، لیکن کافی انتظار کے باوجود انہیں ان کیمروں کی درستگی اور مرمت کی کوئی اطلاع نہیں ملتی۔ جہاں دھماکے ہوتے ہیں، وہاں سیکورٹی فورسز موجود نہیں ہوتیں، آخر ان سوالات کے جوابات کون دے گا اور انتظامیہ کے نقائص کون بیان کرے گا؟ہم دوسروں کی جارحانہ طبیعتوں کا رونا تو خوب روتے ہیں، مگر اپنے گریبان میں جھانکنا بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردوں نے اگر حملے کیے ہیں تو انہیں زمین فراہم کرنے والے اور ان کے ناپاک عزائم و منصوبے کو یقینی بنانے والے ہم بھی ہیں۔ ہماری کوتاہیوں اور لاپروائیوں کی وجہ سے ہی یہ سب کچھ ہوا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ تین سالوں کی مدت میں دہلی ہائی کورٹ کے علاقے میں کیمرے نہیں لگ سکے ۔اس دھماکے کے چشم دید گواہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہاں سیکورٹی والے موجود تھے ہی نہیں ۔
دوسری جانب بعض میڈیا والے اپنے روایتی حریف پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں، جب کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں اور وہاں عوام کےساتھ ساتھ وزرا بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور وہ بھی اپنے روایتی حریف کو مورد الزام ٹھہرانے میں کچھ کم پیچھے نہیں ہیں، لیکن کیا صرف الزامات سے مسئلہ کا حل ہوسکتا ہے؟ کیا یہ اشارے مجبور نہیں کرتے کہ دونوں ممالک ان ناگفتہ بہ حالات کے باوجود ایک دوسرے سے مزید قربت بڑھا کر شرپسند عناصر کی خواہشات پر پانی پھیر دیں اور مشترکہ مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں جسمیں کسی تیسرے کی کوئی مداخلت نہ ہو۔یہ تو طے ہے کہ دونوں ممالک میں ہونے والے زیادہ تر دہشت گردانہ حملوں میں ملوث خود ان کے اپنے ہیں ،پتہ یہ لگانا ہے کہ آخر ان اپنوں کی اپنائیت کو خریدنے والا کون ہے جو دونوں ممالک کے سکون واطمینان کو بھنگ کرکے انہیں آپس میں ہی برسر پیکار دیکھنا چاہتا ہے ۔تاکہ ایشیائی ممالک اس کے دست نگررہیں ،اس کے اسلحوں کی خریدوفروخت بھی جاری رہے اور موقع ملتے ہی وہ الٹا ثواب بھی حاصل کرلے ۔دونوں ممالک بہتر تعلقات کے سایےمیں آگے بڑھیں اور اسے تلاش کریں جو دونوں ہی کے لئے زحمت بنا بیٹھا ہے ۔
خون خواہ پاکستانیوں کا بہے یا ہندوستانیوں کا بہرحال اس کا رنگ ایک ہے ۔اوریہ عمل انسانیت سوز ہے اس کی مذمت کرنی چاہئے ۔لیکن اصل مذمت یہ ہے کہ عوام کو اپنے تحفظ کا یقین ہوجائے اور وہ کشمیر سے کنیا کماری تک بلاخوف وخطر امن وسکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں ۔ورنہ سخت ترین الفاظ اور مذمت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
No comments:
Post a Comment