نورین علی حق
ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادایک عام سی بات ہوچکی ہے ۔ایک واردات کو مسلمان بھول نہیں پاتے کہ دوسری جگہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔چند ایک سیاسی رہنما اس کی مذمت کردیتے ہیں اور بس ۔پھر دو تین ماہ بعد کہیں اور مسلمانوں پر آفت توڑ دی جاتی ہے ۔حالیہ واقعات کو ہی لے لیجئے فاربس گنج کا زخم تازہ ہی تھاکہ راجستھانمیں بھرت پورکے مسلمان مسجد کے اندر وحشیانہ سلوک کے شکار ہوگئے ۔اور اس سے بھی فسادات کی ایک لمبی فہرست ہے جسے کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتااور وقتا فوقتا عدالتوں میں ان فسادات کی فائلیں کھلتی رہتی ہیں ۔ہر فساد کے بعد کچھ بلند بانگ نعرے لگا ئے جاتے ہیں اور یہ سوچ لیا جاتا ہے کہ اب مسلمان خوش ہوگئے بس اتنا کافی ہے اس سے زیادہ کی چنداں کوئی ضرورت نہیں ہے ۔جس انداز میں مسلمانوں کو کانگریس حکومت کے دور میں قتل کیا جاتا ہے اور مگر مچھ کی طرح چند آنسو ان کی تعزیت کے طور پر بہا دیئے جاتے ہیں تاکہ کوئی واضح اور صاف طور پر یہ نہ کہہ سکے کہ کانگریس مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہے ۔آزادی کے بعد سے اب تک کی تاریخ پیش نظر رکھ کر یہ آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس سے زیادہ مسلمانوں کی مخالف پارٹی کوئی نہیں ہے ۔راجستھان میں فی الوقت کانگریس کی ہی حکومت ہے ۔اس کے باوجود مسجد میں گھس کر حملہ آوروں نے مسلمانوں کو قتل کردیا اور وہاں کی حکومت آج خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔اس پر طرہ یہ کہ کسی بھی بڑے کانگریسی لیڈرنے اس واقعہ کی کوئی مذمت نہیں کی۔آج بھی مسلمانوں کی لاشیں وہاں بے گوروکفن پڑی ہیں اس کی کوئی فکر کانگریس کونہیں ہے نہ اس واقعہ پر مسلم لیڈر کچھ بولنے کو تیار ہیں ۔کانگریس مسلمانوں کے لئے کچھ بھی کیوں کرے گی جب کہ اسے کوئی نقصان ہوتا ہی نہیں ۔جب نقصات ہونے شروع ہوں گے تو کام بھی ہوا کریں گے ۔کانگریسی حکومت کا یہ دوسرا دور ہے مسلمان تیسری مرتبہ اسے کرسی اقتدار تک نہ پہنچنے دیں پھر اس کے تمام لیڈران کو مسلمانوں کی یاد ستانے لگے گی اور وہ مسلمانوں کے گھروں پر کاسہ گدائی کے ساتھ کھڑے نظر آنے لگیں گے ۔اب وہ دور آگیا ہے کہ کانگریس سے باضابطہ معاہدہ کیا جائے اس کے تحریری ثبوت رکھے جائیں بعد میں ووٹ دیے جائیں تاکہ مسلمانوں کو الیکشن کے بعد خون کے آنسو نہ رونا پڑے ۔