Welcome

Welcome to my blog with Islamic greeting "Assalam-o alaikum warahmatullah-i wabarakatuh" (Noorain Alihaque)

Wednesday, 24 August 2011

انا کا رام لیلا میں انشن جنسی بے راہ روی کا ذریعہ

نورین علی حق
 انا ہزارے کی بلا دہلی سے کب دور ہوگی ؟آپ لوگوں نے یعنی میڈیا نے انہیں کچھ زیادہ ہی اہمیت دے دی ہے ۔جس کی وجہ سے ان کے حوصلے کچھ زیادہ ہی بلند ہوگئے ہیں اور وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں ۔اب دیکھئے کہ نہ صرف دہلی کا ٹریفک نظام چرمرا رہا ہے ۔بلکہ نوجوان طبقہ بے لگام ہورہا ہے ۔پوری پوری رات نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان علاقوں میں عیاشیاں کررہے ہیں اور والدین بھی یہ سوچ کر خوش ہیں کہ میرے بچے آزادی کی دوسری لڑائی میں شریک ہیں گو کہ ان کی یہ سوچ سراسر غلط اور خام خیالی پر مبنی ہے ۔جتنی برائیاں ممکن ہوسکتی ہیں وہ سب وہاں موجود ہیں ۔زیادہ تر نوجوان رام لیلا میدان میں اکٹھا ہیں ان کا دوہی مقصد ہے ایک یہ کہ وہ ٹی وی اسکرین پر نظر آئیں اور دوسرایہ کہ وہاں خواہشات نفس کی تسکین کا سامان فراہم کردیا گیا ہے ۔اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے چوں کہ وہ ان کی عیاشیوں پر لگام لگانے کی کوشش کرے گی توان کے خلاف ہی انا کے اندھے مقلدین مورچہ کھول دیں گے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ انشن اور بھیڑ اپنے آپ میں خود ایک کرپشن ہے ۔جسے جسمانی اور روحانی کرپشن کا نام دیا جاسکتا ہے ۔میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ اس طرح کے احتجاج سے مسلم محلوں کو براہ مہربانی بچایا جائے ۔فی الوقت رام لیلا میدان جنسی انارکی کے معاملے میں کھیل گائوں ہوچکا ہے۔رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں مسلم علاقے میںیہ  انا کا انشن ایک عذاب الہی ہے۔جس کے خاتمہ کے لئے روزہ داروں کو اجتماعی دعا کرنی چاہئے ۔

انتشار کے شکار مسلم ادارے

 مسلم ادارے بالعموم انتشار کا شکار رہتے ہیں حالاں کہ اس انتشاری کیفیت کے خود مسلمان ذمہ دار ہوتے ہیں ۔اور وہ اپنے تمام الزامات کو حکومت وحکومتی لوگوں کے سر منڈھ دیتے ہیں ۔اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ الٹا حکومت کو اقلیتی اداروں میں مداخلت کا سنہری موقع مل  جاتا ہے ۔اور جب سب کچھ لٹ پٹ  چکا ہوتا ہے تو مسلمانوں کو ہوش آتا ہے اور پھروہ چیخنا شروع کرتے ہیں ،اب تک علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے وائس چانسلر کے خلاف آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے اور کسی بھی  طرح علی گڑھ سے ان کا انخلاچاہتے تھے ۔لیکن جب ان سے ان کے حقوق چھن گئے اور تمام معاملے وزارت تعلیم نے حل کرنے شروع کردیے تو اب ان کے مخالفین ہی شور کررہے ہیں کہ یہ غیر قانونی اور بے جا مداخلت ہورہی ہے ۔حالاں کہ یہ موقع خود مسلمانوں نے دیا ہے اگر اس بری طرح وائس چانسلر کی مخالفت نہیں کی ہوتی تو آج یہ نوبت نہیں آتی ۔جذباتیت پسندی اکثر مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی رہی ہے اور آئندہ بھی مسلمانوں کا اس مرض لادوا سے جاں بر ہونے کی کوئی امید نہیں ہے ۔کوئی بھی فرد اپنے عقل وشعور کے سہارے کوئی فیصلہ نہیں لیتا ۔کسی نے کہہ دیا کوا کان لے کر بھاگ رہا ہے اور یہ کوے کے پیچھے دوڑنے لگے ۔