مسلم ادارے بالعموم انتشار کا شکار رہتے ہیں حالاں کہ اس انتشاری کیفیت کے خود مسلمان ذمہ دار ہوتے ہیں ۔اور وہ اپنے تمام الزامات کو حکومت وحکومتی لوگوں کے سر منڈھ دیتے ہیں ۔اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ الٹا حکومت کو اقلیتی اداروں میں مداخلت کا سنہری موقع مل جاتا ہے ۔اور جب سب کچھ لٹ پٹ چکا ہوتا ہے تو مسلمانوں کو ہوش آتا ہے اور پھروہ چیخنا شروع کرتے ہیں ،اب تک علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے وائس چانسلر کے خلاف آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے اور کسی بھی طرح علی گڑھ سے ان کا انخلاچاہتے تھے ۔لیکن جب ان سے ان کے حقوق چھن گئے اور تمام معاملے وزارت تعلیم نے حل کرنے شروع کردیے تو اب ان کے مخالفین ہی شور کررہے ہیں کہ یہ غیر قانونی اور بے جا مداخلت ہورہی ہے ۔حالاں کہ یہ موقع خود مسلمانوں نے دیا ہے اگر اس بری طرح وائس چانسلر کی مخالفت نہیں کی ہوتی تو آج یہ نوبت نہیں آتی ۔جذباتیت پسندی اکثر مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی رہی ہے اور آئندہ بھی مسلمانوں کا اس مرض لادوا سے جاں بر ہونے کی کوئی امید نہیں ہے ۔کوئی بھی فرد اپنے عقل وشعور کے سہارے کوئی فیصلہ نہیں لیتا ۔کسی نے کہہ دیا کوا کان لے کر بھاگ رہا ہے اور یہ کوے کے پیچھے دوڑنے لگے ۔
No comments:
Post a Comment