Welcome

Welcome to my blog with Islamic greeting "Assalam-o alaikum warahmatullah-i wabarakatuh" (Noorain Alihaque)

Tuesday, 23 August 2011

علوم وفنو ن حضرت علی کی بارگاہ کے رہین منت ہیں

نورین علی حق 
 کہا جاتا ہے کہ صفاکی پہاڑی سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاعلان حق فرمایاتو خدا کی وحدانیت کی تصدیق کرنے والے ایک ۱۰ سالہ آشوب چشم میں مبتلا بچہ کا کفار قریش نے مضحکہ اڑاتے ہوئے یہ جملہ کسا تھاکہ ’’لو ڈیڑھ آدمی کا اسلام مبارک ہو ۔‘‘ان میں ایک تو یار غار رسول ،صدیق اکبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور آدھے مولائے کائنات ،اسد اللہ الغالب ،جانشین پیمبر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔چونکہ حضرت خدیجہ ؓگھر میں تھیں اس لیے کفار کو ان کے اور حضرت زید بن حارثؓ کے ایمان کا علم نہیں تھا ۔لہذا اپنی ناسٹلجیائی ذہنیت کا غبار حضرت علی ؓپر اتار دیا ۔اور گمنامیوں کی انتہائی پستی میں چلے گئے جہاں سے واپسی کی کوئی صورت نہیں نکلتی ،لیکن آشوب چشم میں مبتلا وہ بچہ رہتی دنیا تک کے لیے نہ صرف یہ کہ حیات دوام اختیار کرگیا بلکہ ظاہری موت کے بعد بھی نسلا بعد نسل ان کی اولاد اسلام کو صحرائے عرب سے نکال کر دنیا کے بلاد وامصار میں پھیلاتے رہے اور اس مشن میں کامیابی کے حصول کے لئے اپنی رگوں میں دوڑنے والے خون کے ایک ایک قطرے کو اسلام اور اس کی بقاواشاعت کے لئے نچھاور کردیا ۔
 یہاں تک کہ ان کی عظمت وسربلندی کی گواہی قرآن نے بھی بارہا دی ،سورۃ توبہ کی دوسری رکوع کے شروع میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین وانصار میں سے بھلائی کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے سابقین اولین سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے ۔ان کے لئے نہروں والی جنتیں تیار ہیں ۔جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ ان کی بڑی کامیابی ہے ۔
 تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو عمومی سابقین اولین میں بھی حضرت مولائے کائنات کو اولیت حاصل ہے اور اگر غائرانہ نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوگا کہ صفاکی پہاڑی پر حضرت علی اظہار اسلام کا دوسرا رکن اقرار باللسان فرمارہے تھے ۔تصدیق بالقلب تو دس سال پہلے پیدائش کے بعد ماں فاطمہ بنت اسد کی گود سے ہی اپنی آنکھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زیارت سے کردی تھی اور جہاں تک عمل بالجوارح کی بات ہے تو اسلام کی پوری تاریخ خدمات علی سے مزین ومرتب ہے ۔جدوجہد نبوی کے ہر دور میں ہر مقام پر علی کی ذات نمایاں نظر آتی ہے ۔کوہ صفا پر سنگ باری کے دوران ،شعب ابی طالب میں ،طائف کی گلیوں میں ،غزوہ بدر ،غزوہ احد ،غزوہ خندق ،صلح حدیبیہ ،شب ہجرت نبوی ،غزوہ خیبر ،حجۃالوداع ہر جگہ حضرت علی پوری تب وتاب کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں اور پھر پورنمائندگی کرتے ہیں ۔پوری زندگی فرمان رسول پر جی جان سے عمل کرتے رہے بس ایک جگہ انکار کرتے ہیں اور اس انکار میں بھی دراصل رسول کی رسالت کا اقرار ہے کہ جب کتابت صلح حدیبیہ کے دوران کفار مکہ کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے ’’محمد رسول اللہ ‘‘کی کتابت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ محمد بن عبد اللہ لکھاجائے   اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب صلح حدیبیہ حضرت علی ؓ کو رسول اللہ حذف کرنے کا حکم دیاتو وہاں حضرت علیؓ نے انکار کردیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست اقدس سے رسول اللہ کو حذف کیا اور محمد بن عبداللہ لکھایا۔
اس موقع سے مورخین تو اریخ اسلام حضرت علی کے انکار کی وجہ تحریر نہیں کرتے چونکہ وہ بہت ظاہر ہے لیکن اس وقت سہیل بن عمروکے عمل کا اس سے بہتر رد عمل غالباً کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا کہ تم اگر مصلحتاً بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محمد رسول اللہ نہیںمان سکتے تو ہم بھی  مصلحتاً رسول اللہ کے جملہ کو اپنے ہاتھ سے کاٹ نہیں سکتے۔
 جہاں تک تدبیر ، حکمت عملی ، نفاذ قوانین اسلام اور اعلاء کلمۃالحق کی بات ہے تو یہاں بھی حضرت علیؓ کو امتیاز حاصل ہے جس کی گواہی اجلہ صحابہ کرام ؓ نے دی ہے۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا ہے کہ’’ لولا علی فھلک عمر ‘‘بطور تمثیل نہیں ہے۔ ان کے دل کی گہرائیو ںسے نکلی ہوئی بات ہے۔ قرآنی تفہیم، معانی قرآنی کے ادراک کے سلسلہ میں بھی حضرت مولائے کائنات مرجع تھے اور بعد میں بھی آپ کی اولاد کے ذریعہ وہ شعلہ علم و عمل دوسروں کی زندگیوں سے تاریکی دور کرتا رہا ۔ حضرت امام حسن ؓ ، حضرت امام حسینؓ، حضرت زین العابدینؓ، حضرت محمد باقرؓ، حضرت جعفر صادقؓ، حضرت موسیٰ کاظمؓ، حضرت علی رضاؓ، حضرت محمد تقی جوادؓ، حضرت علی نقویؓ، حضرت حسن عسکریؓ کی شخصیات سے اپنے دور کے ائمہ اکتساب فیض کرتے رہے اور اہل بیت اطہار کے قلوب کی تابانیاں پوری دنیا میں پھیلتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دور میں احقاق حق اور ابطال باطل کا تسلسل تعطل کا شکار نہیں ہوسکا۔ سخت ترین نا مساعدحالات اور ہجرت کی کلفتوں کو برداشت کرتے ہوئے دعوت دین کا فریضہ سادات کرام سے کبھی نہیں چھوٹا۔ امتداد زمانہ کے ساتھ شخصیات بدلتی رہیں،مقصد حیات نہیں بدلا۔ اگر غیر منقسم ہندوستان میں اسلام کی جڑیں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے مضبوط کیں تو حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ نے بغداد اور اس کے نواحی ممالک پر اثر انداز رہے اور یہ سب کے سب اولاد علی ہیں۔ آج دنیا سائنس اور ٹکنالوجی کی بات کرتی ہے تو اس لئے کہ مطالعہ قرآن اور علوم سینہ سےلیس ہوکر حضرت امام جعفر صادقؓ نے سائنس کا پہلا تصور سفیان ثوریؒ کو دیا وہیں انہوں نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کو فقہی استدلال کے طریقے سکھائے۔ حضرت ابو حنیفہؒ نے اس فقہی تفہیم کو آگے بڑھایا۔ اس طرح تمام علوم و فنون اسلامیہ اہل بیت اطہار کے مرہون منت ہیں اور امت مسلمہ پر ان کے احسانات ناتمام سے پوری ملت اسلامیہ گراں بار ہے۔ یہ سب کچھ رسول کائنات اور مولائے کائنات کی دعائے نیم شبی، آہ سحر گاہی اور جذباتیت سے اجتناب کے نتائج ہیں۔زمانے نے اپنےماتھے کی آنکھوں سےدیکھا کہ جس آدھے پر صفا کی پہاڑی کے کفارومشرکین ہنسے تھے اسی آدھے اوراس کی اولادنے دنیا کے آدھے  حصے پراسلامی علم لہرایا ،اور ائمہ سادات کے بعد بھی سادات کرام اپنے آبا کے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں ہمیشہ رہے اور آج بھی صورت حال یہ ہے کہ
خواب آنکھوں میں سلامت ہیں ابھی اجڑا ہے کیا
ہم ابھی تک ہیں سفر میں ابھی بدلا ہے کیا   
alihaqnrn@yahoo.com

No comments:

Post a Comment