Welcome

Welcome to my blog with Islamic greeting "Assalam-o alaikum warahmatullah-i wabarakatuh" (Noorain Alihaque)

Thursday, 27 October 2011

NOORAIN ALI HAQUE: میڈیا ہندواور مسلمانوں میں تفریق کررہا ہے:ذوقی

NOORAIN ALI HAQUE: میڈیا ہندواور مسلمانوں میں تفریق کررہا ہے:ذوقی: مشرف عالم ذوقی محتاج تعارف نہیں۔۱۹۸۰ کے بعد کے فکشن نگاروں میں آپ کا بڑا نام ہے۔ خاص طور پر آپ نے اپنے فن میںمسلمانوں کے مسائل کو اٹھایا ہ...

میڈیا ہندواور مسلمانوں میں تفریق کررہا ہے:ذوقی

مشرف عالم ذوقی محتاج تعارف نہیں۔۱۹۸۰ کے بعد کے فکشن نگاروں میں آپ کا بڑا نام ہے۔ خاص طور پر آپ نے اپنے فن میںمسلمانوں کے مسائل کو اٹھایا ہے۔ آپ کے درجنوں افسانوی مجموعے اور درجنوں ناول منصہ شہود پر آچکے ہیں۔ ان میں خاص طور پر ’بیان‘ ’مسلمان‘’ذبح‘ ’پوکے مان کی دنیا‘پروفیسرایس کی عجیب داستان‘ لے سانس بھی آہستہ…‘ ’آتش رفتہ کا سراغ ،اپنے موضوع اورپیش کش کی وجہ سے پسند کیے گئے ہیں۔ ذوقی افسانہ نگار اورناول نگار کے ساتھ ایک کامیاب پروڈیوسر اور ڈائرکٹر بھی ہیں۔ بالعموم ان کی کہانیاں موضوعی ہوتی ہیں۔ فسادات وواقعات پر یہ خوب برستے ہیں۔ معاصر ادبی وصحافتی رویوں پر مبنی ان سے کیاگیا انٹرویوحاضر ہے۔(نورین علی حق٭)

نورین:پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیاکے حوالے سے آپ کی کیاخدمات ہیں اور کب سے آپ اس میں لگے ہوئے ہیں؟
ذوقی: صحافت سے میری دلچسپی شروع سے رہی۔ ادب کو جب میں نے سوچنا شروع کیا تو ایسا لگا کہ ادب کے علاوہ صحافت کے میدان میں بھی اترنا چاہئےاس لیے میں نے دونوں ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا فیصلہ کیاشروع سے ہی کہانیاں لکھتا رہا ،ناول لکھتا رہا— سترہ سال کی عمر میں میرا پہلا ناول ’’عقاب کی آنکھیں‘‘ سامنے آیااس وقت بھی بہت سارے ایسے اخبارات تھے جن میں میرے مضامین شائع ہورہے تھے ۔ یہ باتیں میں اس لیے بتارہا ہوں کہ موجودہ صحافت وسیاست کوسمجھے بغیر اچھے ادب کی تخلیق ممکن نہیں ہے۔1985میں ،میں دہلی آیا۔ دہلی آنے کے بعد روزنامہ ہندستان اورجن ستّہ جیسے اخباروں میں لکھنا شروع کیا۔ملک کی فضاخراب ہوئی— بابری مسجد کا حادثہ پیش آیا— اس کے بعد کا جو ہندستان سامنے تھا وہ ہندستان کہیں نہ کہیں مجھے ڈرا رہاتھا۔میں نے مسلسل راشٹریہ سہارا اور دوسرے اخباروں میں مضامین لکھناشروع کیا۔یہ سلسلہ بہت لمبا چلتا رہایہاں تک کہ گجرات حادثہ سامنے آیا جب گجرات حادثہ سامنے آیاتو اس وقت مجھے اچانک محسوس ہوا کہ اس ملک میں کچھ لوگ ہیںجو آج بھی آپ کی آزادی کو کہیں نہ کہیںچھیننا چاہتے ہیںگجرات پر میری ایک کتاب شائع ہوئی لیبارٹری ،لیبارٹری کے شائع ہونے کے دو تین مہینے بعدایک رات لودھی روڈ تھانے سے دو سپاہی آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ کو لودھی روڈ تھانے میں بلایا گیا ہے جب میں وہاں گیا تو سات گھنٹے تک مجھ سے پوچھ گچھ ہوئی اور یہ پوچھ گچھ ادب اورصحافت کولے کرزیادہ رہی آخر میں مجھے ایک دھمکی دی گئی کہ آپ صحافتی مضمون لکھنا بند کردیجئے— آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ صحافتی ذمہ داری کتنی بڑی ہوتی ہے— وہ لوگ جو غلط کررہے ہیں وہ کہیں نہ کہیں خوفزدہ بھی رہتے ہیں— اس لیے صحافت اورادب دونوں کو ساتھ رکھتے ہوئے میں نے جینا سیکھا ہے۔
نورین: آپ ناول نگار اور افسانہ نگار کے ساتھ ایک ڈائرکٹر اور پروڈیوسر بھی ہیں اس حوالے سے آپ کے کیا تجربات ہیں؟
ذوقی: 1985میں،میں دہلی آیا تھا— 1987سے میری وابستگی دوردرشن سے ہوگئی تھی— اس زمانے میں دوردرشن میں سیریلس کے علاوہ ڈوکومینٹری فلم، ڈوکو ڈرامہ اور اس طرح کے پروگرام بنائے جاتے تھے۔ جن میں صحافت کو کہیں نہ کہیں دخل ہوتاتھاشاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر میں نے ڈوکومینٹری نہ بنائی ہواور ایک ڈوکومینٹری فلم کے لیے اسکرپٹ لکھنا، تحقیق کا جو کام ہے اس کی ذمہ داری بھی کم وبیش میں ہی سنبھالتا تھا۔ ادب بھی میرا موضوع رہا ہے— میں نے ہندی اور اردو کے باون بڑے لوگوں پر جن میں قرۃ العین حیدر ،نامور سنگھ ،راجندر یادو،جوگندر پال، ڈاکٹر محمد حسن شامل ہیں۔ ڈوکومینٹری فلمیں بنائی ہیں— اوریہ کام مسلسل جاری ہے— اس کے علاوہ میں نے اپنے ناول’ مسلمان‘پر ایک سیریل ’ ملت‘ کے نام سے بنایا جو بہت مقبول ہوااس کے علاوہ’ بے جڑ کے پودے‘ جو سہیل عظیم آبادی کا مشہور ناول ہے ،میں نے ای ٹی وی اردو کے لیے اس پر بھی ایک سیریل بنایاتھا۔بلونت سنگھ کا مشہور ناول ’رات چور چاند‘ میں نے اس پر بھی ڈی ڈی انڈیا کلاسکس کے لیے سیریل بنایا— میں نے اس میں ممبئی کے بڑے بڑے فنکاروں کو لیا،یہ سیریل بھی بہت مشہور ہواایک طرف فکشن ہے دوسری طرف ڈوکومینٹری فلمیںہیںزیادہ مزہ مجھے ڈوکومینٹری فلموںمیں آتا ہے چونکہ کسی نئی چیز کو دریافت کرنا جیسے ہم آپ کو بتائیںکہ وہ قبائل جو جھارکھنڈ میں رہتے ہیں یا وہ جگہ جہاں ڈاکو رہتے ہیںچمبل کی گھاٹیوں میں— تو ان جگہوں پر جانے کا اتفاق،ان جگہوں کو دیکھنے کا اتفاق،لوگوں سے ملنے کا اتفاق— تو ایک بڑی خوبصورت دنیا آپ کے لیے کھلتی چلی جاتی ہے۔اور اس دنیا کو دریافت کرنا اور ایک اینکرکے طورپرلوگوںسے گفتگو کرنا،باتیں کرنا ان کے رہن سہن کو دیکھنا— مجھے لگتا ہے کہ میری کہانیوں میں جیسا عام طور پر کہاجاتا ہے— ایک نئی دنیا کہیں نہ کہیں ذوقی ڈسکور کرتا ہے تو ان چیزوں کا بھی کہیں نہ کہیں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کئی بار مجھے لگتا ہے کہ ہمارے وہ دوست جو ادب تخلیق کرتے ہیں ،ہندستان کودیکھا ہی نہیں ہے— اس لیے ہندستان کی تہذیب سے واقف نہیں ہیں— ابھی ایک ڈوکومینٹری کے سلسلیمیںمجھے ہماچل پردیش کے ایک شہر جانے کا اتفاق ہوااور جب میں نے اس شہر کے لوگوں سے ملاقات کی ان کے رہن سہن ،پہناوے اور ان کی تہذیب کو جاننا چاہاتو مجھے بہت سی نئی معلومات حاصل ہوئیںجیسے ایک اطلاع تو یہ تھی کہ وہاں آج بھی پانڈو کی رسم موجود ہے— ایک لڑکی کی شادی پانچ پانچ بھائی سے کردی جاتی ہے اگر سب سے چھوٹے بھائی کی عمر ایک سال ہے تو وہ بھی اس لڑکی کا شوہر ہوتا ہے اور جب وہ بڑا ہوتا ہے اور وہ لڑکی ادھیڑ یا بوڑھی ہوچکی ہوتی ہے وہ بچہ جوان ہوکر اپنا شوہرانہ حق مانگ سکتا ہے۔ میں یہ بات اس لیے بتا رہاہوں کہ ہندستان کی اپنی ایک رنگا رنگ تہذیب ہے— ایک گنگا جمنی کلچر ہے کہاجاتا ہے کہ اتنی ندیاں ہیں اتنے پہاڑ ہیںاتنے رنگ ہیں— ڈوکومینٹری فلم بناتے ہوئے ان تمام تر رنگوں کو دیکھنے کا بہت قریب سے احساس ہوتا ہے اور مزہ آتا ہے— اس لیے فیچر سے زیادہ ڈوکومینٹری فلمیں بنانے میںمجھے زیادہ مزہ آتا ہے۔
نورین:ابھی دوردرشن کے حوالے سے ایک بات سامنے آئی کہ اردوپروجیکٹس کی منظور ی کے باوجوداس کو کلیئر نہیں کیاجارہا ہے اور اردو والوں کے بہت سے پروگرام زیر التوا ہیں اس سلسلے میں آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
ذوقی: آپ نے دوردرشن کے ارد و چینل کا ذکر کیا ہے میں اپنی بات یہیں سے شروع کرتاہوں جب دوردرشن کے اردو چینل کا اعلان ہوا اس وقت ای ٹی وی اردو کو چھوڑ کر اور کوئی اردو چینل موجود نہیں تھا آزادی کے ۶۵ برسوں میں اس بات کا شدت سے احساس ہواکہ جس زبان کا رشتہ روزی روٹی سے کاٹ دیا جاتا ہے وہ زبان مردہ ہوجاتی ہے۔ کم وبیش اردو کے ساتھ یہی سلوک ہوتارہا۔ای ٹی وی اردو شروع ہوااردو کو ایک اچھا خاصا حلقہ ملا ،کئی لوگوں کو نوکریاں ملیں ای ٹی وی سے پہلے یو ٹی وی ارد و تھاجوبند ہوگیا اس کے بعد ای ٹی وی کی شروعات ہوئی۔دوردرشن کو اردو میں شروع کرنے کا مطلب تھا ایک بڑا روزگار— جب دوردرشن کا اردو چینل شروع کیاگیا تو ایک گائڈ لائن بنائی گئی— اس گائڈ لائن کے مطابق کوئی بھی اردو پروگرام بناسکتا ہے۔ جس کے پاس کم سے کم پانچ سال کا تجربہ ہو،لیکن پروگرام بنانے والا کوئی بھی ہو اس کو اردو ایکسپرٹ رکھنا ضروری ہےدوسری بات جو اسکرپٹ جمع کی جائیں گی اس کی زبان اردو ہوگی— تیسری بات جو ڈائرکٹر ہوگا وہ اردو جاننے والا ہوگا ۔ایک ایسی فضا بن رہی تھی جس سے اردو کے دروازے چاروں طرف سے کھول دیے گئے ہیں— ظاہر ہے اردو والوں کی خدمات لی جائیں گی— پروجیکٹ اردو میں جمع ہوں گےپروجیکٹ اردو میں جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے لوگ جو کمپوزنگ کے فرائض انجام دیتے ہیں ان کوبھی کام ملے گا ۔تیسری بات ڈائرکٹر بھی اردو جاننے والا ہوگا ،اردو میں عام لوگوں کی دلچسپی پیدا ہوگی— بہت ممکن ہے کہ آگے آنے والے وقت میں اردو سیکھنے کا سلسلہ شروع بھی ہوجائے اور یہ شروع ہوگیاہے میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ میرے بہت سارے دوست جو میڈیا سے متعلق ہیں وہ کہیں نہ کہیں اردو کی ٹریننگ لے رہے ہیں تاکہ وہ اردو تھوڑا بہت پڑھ لکھ سکیںشروع میں دوردرشن اردو نے ایکیوزیشن پروگرام نکالا ،ایکیوزیشن پروگرام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہم لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کے پاس پہلے سے کوئی پروگرام بناہوا ہے ؟ہم کہتے ہیں کہ بناہواہےاس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ جمع کردیجئے— ہم جمع کردیتے ہیںاور وہ اس پروگرام کو اپنے یہاں دکھاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ پروگرام اردو سے متعلق ہوتے ہیں ۔شروع میں ایکیوزیشن میں جو پروگرام دکھائے گئے وہ ڈوکومینٹری یا ڈوکوڈرامہ نوعیت کے پروگرامس تھے جن میں اردو تہذیب ،اردو شاعری،اردو مثنوی، یہاں تک کہ اردو ڈرامے کو فوقیت دی گئی تھی۔یہ پروگرام چونکہ ایکیوزیشن کے تھے اس لیے ان کا بجٹ بہت کم تھا ۔2009میں یہ اعلان کیاگیا کہ اردو پروگرام کو کمیشنڈ کیا جارہا ہے— اس کے شروع ہونے کا اعلان تھا کہ پورے ہندستان میں ڈی ڈی اردو چینل کو لے کر ایک انقلاب آگیا— بالی ووڈ کے بڑے بڑے لوگ جاگ گئے دہلی جاگ گئی— یہاں تک کہ حیدرآباد، آسام، گوہاٹی ان جگہوں میں جو لوگ تھے وہ لوگ بھی پروگرام بنانے کے لیے سامنے آگئے— اب دیکھیے کہ ایک تیر سے اردو چینل نے کتنے راستے پیدا کیے— آسام جہاں اردو نہیں ہے حیدرآباد جہاں اردو ہے لیکن ایک بڑا طبقہ جو فلمیں بناتا ہے وہ اردو نہیں جانتا ہے یہ سارے کے سارے لوگ میدان میں اترپڑے بڑے پیمانے پر پروگرام جمع کیے گئے ۔جو پروگرام جمع کئے گئے جو ان کی گائڈ لائن تھی— اس میں اردو کلاسکس کے علاوہ عصری ادب کو فوقیت دی گئی تھی اور شاید ہی اردو کا کوئی ایسا ادیب ہو جس کے پروجیکٹ کو دوردرشن میں جمع نہ کیاگیا ہو— لیکن اس درمیان دوردرشن کی صورت بدلتی رہی ،دوردرشن کے سی او مسٹر لالی پر اسپیکٹرم گھوٹالے کا الزام لگا اوروہ الگ ہوگئے— ڈی جی الگ ہوگئےچیزیں بدلتی رہیں یہاں تک کہ دوسال کا عرصہ گذر گیا۔لوگ امید کررہے تھے کہ پروگرام مل جائے گا۔ درمیان میں یہ باتیں چل رہی تھیں کہ پروگرام کو ایک شکل دے دی گئی ہے اور منظوری مل گئی ہے اور جلد ہی لوگوں کے پاس خطوط روانہ کیے جائیں گے۔ لیکن اچانک ایک نئی گائڈ لائن آجاتی ہے۔وہ پروگرام جو منظور کرلیے گئے تھے وہ پروگرام نئی گائڈ لائن اور نئے پروگرام میں ضم کردیے گئے ۔ ہم لوگوں نے ابھی بھی امیدیں نہیں چھوڑی ہیں۔ یہ امید کی جارہی ہے کہ جو پروگرام پہلے منظور کرلیے گئے تھے وہ پروگرام ضرور ملنے چاہئیں اور جس کو جتنے اے پی سوڈ دیئے گئے تھے اتنے اے پی سوڈ ہی ملنے چاہئیں — 2009 میں ہم سب نے اردو پروگرام کے لیے جی جان سے محنت کی تھی—
نورین:عمومی طور پر فلموں کی زبان اردو ہوتی ہے لیکن اسے ہندی فلم کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے ۔ایسا کیوں؟
ذوقی: تمہارا سوال بہت اچھاہےاردو فلمیں پہلے بھی بنتی رہی ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک فلم آئی تھی’ طوائف ‘جو علیم مسرور کے ناول’ بہت دیر کردی‘ پر مبنی تھی۔ اس طرح وشال نے ایک فلم بنائی— مقبول ،اور جہاں تک مجھے یاد آتا ہے کہ شروع میں کچھ لوگوں نے جیسے یش چوپڑا نے بھی کچھ ایسی فلمیں بنائی تھیں جن میں اردو کا سرٹیفکیٹ دیاگیاتھا۔
شاید گلزار صاحب نے اپنی کچھ فلموں کے سرٹیفکیٹ اردو میں حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ بات صرف ایک چھوٹے سے سرٹیفکیٹ کی نہیں ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ اگر اردو والے لینے کی کوشش کرتے ہیں تو عام لوگوں تک خود بخود ایک بڑا پیغام پہنچ جاتا ہے۔ فلمی دنیا میں آج بھی اردو سے وابستہ یا اردو کو چاہنے والے ہزاروں لوگ موجودہیں جو اردو کے لیے سامنے آسکتے ہیں اوران کو اس کے لیے آگے آنا چاہئے۔
کیونکہ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ اچھی زبان کے لیے آپ کا اردو جاننا ضروری ہے ،چاہے وہ مادھوری دکشت ہو یا کوئی بھی ہو کہیں نہ کہیں اردو سے ایک وابستگی ضروری ہوتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ایسا کیوں ہورہا ہے کہ کہیں کوئی احتجاج نہیں۔ فلمیں اردو کے نام پر بنتی ہیں لیکن ان کا سرٹیفکیٹ ہندی کے طورپر ملتا ہے تو بھائی ایک بڑی سزا ہے جس کے لیے عام آدمی کو بھی کہنا بہت بھاری پڑے گا چونکہ ممبئی بالی ووڈ میں بیٹھے ہوئے لوگ پیسے کی چکا چوند میں ڈوب چکے ہیں انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ چھوٹا سا سرٹیفکیٹ جو سنسد بورڈ جاری کرتا ہے اگر اس میں اردو کا نام شامل ہوتا ہے تو یہ ایک چھوٹی بات نہیں بلکہ کتنی بڑی بات ہوگی وہ لوگ جو فلمیں دیکھ رہے ہیں جب ان کے سامنے اردو لکھا ہوا آئے گا تو کتنا بڑا فرق پڑے گا۔ آزادی کے ۶۵ برسوں میں اردو زندہ اسی لیے رہی کہ اردو اتنی میٹھی زبان تھی کہ روزی روٹی سے کاٹ دیے جانے کے باوجود زندہ رہی لیکن شاید اردو ہماری علاقائی زبانوںسے بھی کہیں بہت بعد کی زبان بن گئی تھی جو فنڈ آتے تھے ان میں بھی بہت بعدمیںاردو کو فنڈ ملتا تھا اب یہ بھی ہوتا ہے کہ جب ہندی کے بعدکہیں اردو کو لانے کی بات ہوتی ہے تو آر ایس ایس اور اسی طرح کی دیگر تنظیموں کو پریشانی ہونے لگتی ہییہ بہت بڑی ناانصافی ہے کیونکہ دیگر بہت سی ہندوستانی زبونوں سے اردو کا وجود کہیں بڑا ہے اور اردو نے آزادی کے وقت میں بھی نمایاں رول ادا کیا تھا جب آپ نے سرٹیفکیٹ کی بات کی ہے تو میں آپ کی اس جنگ میں شامل ہوں اور میری بھی یہ کوشش ہوگی کہ آگے چل کراگر کوئی فلم اردو میں بنائی جارہی ہو تو اس کا سرٹیفکیٹ اردو ملنا چاہئے سنسد بورڈ سے ہم اس کی گزارش کریںگے ۔
نورین : آج کی تاریخ میں فلمی دنیا کویعنی بالی ووڈ کو اردو زندہ رکھے ہوئے ہے یا اردو کی بقا کا ذریعہ بالی ووڈ ہے؟
ذوقی :دیکھیے ایسا ہے کہ فلموں ،مکالموں کی زبان بہت حد تک بدلی ہے لیکن اردو آج بھی زندہ ہے اور بہت شان سے زندہ ہے۔ آج فلمی دنیا کی زبان بدل گئی ہے۔ منا بھائی اور اس طرح کی جو فلمیں سامنے آئیں ان میں ایک نئی زبان تھی، موالیوں کی زبان ۔یہ زبان کم و بیش وہی تھی جو اسکول اور کالج کے بچے بولتے ہیں ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اس طرح کی فلمیں نہیں بننی چاہئیں لیکن ان فلموںنے کہیں نہ کہیں دس برسوں میں اردو زبان کو بہت حد تک نقصان پہنچا یا ہے ۔ملٹی پلیکسس کے لیے آج جو فلمیں زیادہ سے زیادہ ریلیز ہورہی ہیں جن میں وشال کی فلمیں ہیں بڑے بڑے لوگوں کی فلمیں ہیں ان میں اردو اب غائب ہوتی جارہی ہے۔ ہاں کچھ لوگوں نے اردو کو زندہ رکھا ہے ۔ایک وقت تھا جب شہر یار، ندا فاضلی،شکیل اعظمی بڑے خوبصورت اردو مکالمے لکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کا وقت تھا جب شکیل بدایونی ،مجنوں سلطان پوری یہ لوگ بھی تھے جو اردو میں بہت خوبصورت گانے لکھ رہے تھے لیکن وقت کے ساتھ کچھ چیزوں میںتبدیلی ہوتی ہے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آج بالی ووڈ کا منظرنامہ ان چیزوں کی وجہ سیبہت حد تک بدل چکا ہے اب وہ بات نہیں ہے ،کچھ لوگ کوشش کررہے ہیں لیکن دنیا تبدیل ہوچکی ہے ۔
نورین: لیبیا، افغانستان،پاکستان اور عراق وایران کے حوالے سے اردواورہندی میڈیامیںجو بعد ہے اسے کس طرح ختم کیاجاسکتا ہے ،صحیح صورت حال اور صحیح سمت کی طرف اشارہ کرنا پسند کریںگے؟
ذوقی:سب سے پہلے میں آپ کو مبارکباد دوں گا کہ آپ نے ایک بہت اچھے اوربہت ضروری سوال کی بنیاد ڈالی ہے۔ آپ نے جس موضوع کو اٹھایا ہے وہ ایک بہت ضروری موضوع ہے افغانستان کے حوالے سے عراق کے حوالے سے یاحالیہ دنگوں کے حوالے سے جو میڈیا ہمارے سامنے آرہا ہے ہم اس میڈیا پر بھروسہ نہیں کرسکتے ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہیں نہ کہیں ہم تقسیم تک پہنچ چکے ہیں 1947کا ماحول ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے آپ دیکھیے کہ کتنے بڑے بڑے دنگے ہوئے بھرت پور،ردر پور،بنارس کے حالیہ دنگوں کے بارے میںجب آپ اردو اخبارات پڑھتے ہیں تووہاں ایک الگ دنیا ہوتی ہے لیکن جب آپ ہندی یا انگریزی اخبار پڑھتے ہیں یادیگر صوبائی اخبارات جو دوسری زبانوں کیہوتے ہیں ان میں ان خبروں کو اہمیت نہیںدی جاتی ہے، گجرات فساد کے تعلق سے سنجیو بھٹ کی خبر ہی کو لیجئے تو ہندی یاانگریزی میں بس چھوٹی سی خبر بنتی ہے ۔ مودی کو ہیرو بنانے کا کام وہاں آج بھی جاری ہے ایک بات ہم اور کہنا چاہیں گے کہ میڈیاخواہ ہندی یاانگریزی ہو،پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ہو کیسے بھول جاتی ہے کہ ۲۰۰۳ میں جو فساد ہوا مودی کے اشاروں پر ہوا تھا۔ اس کے ثبوت اورچشم دید گواہ ہیں، سی ڈیز ہیں۔ اور یہ سی ڈیز تمام چینلس کے پاس آج بھی موجود ہیں وہ لوگ ہیں جو مودی کے ان کارناموں کو جانتے ہیں ،قریب سے دیکھا ہیاس کے باوجود مودی کیسے ہیرو بن سکتا ہے؟ ایک آدمی جس نے لاش کی تجارت کی ہو وہ ہیرو کیسے بن سکتا ہے؟ لیکن میڈیا آج بھی کہیں نہ کہیں مودی کے نئے کارناموں کو لیکر گجرات کی ترقی کی داستانیں سنا کراسے ہیرو بنانے کا کام کررہا ہے اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر آئیے پورے ا نشن کے دوران اناہزارے نے کہیں مسلمانوں کا تذکرہ نہیں کیا سوائے یہ کہ انشن ختم کرنے کے لیے وہاں رسم کے طور پر ایک مسلمان لڑکی بٹھادی گئی اورایک دلت کو بٹھادیا گیا اب آگے بڑھیے۔ لیبیا کے کرنل قذافیکوالیکٹرانک میڈیا نے ایک وحشی، درندہ، عیاش کے طورپر پیش کیا کم وبیش ہندی اور انگریزی اخباروں میں بھی یہی صورت حال رہی آپ اردو اخبار ات دیکھیے بالکل الگ ہیں۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کہیں نہ کہیں آنے والے وقتوں میں اڈوانی جی کی تاج پوشی کے لیے تیار ہوگئے ہیں ۔ایک بہت بڑی جنگ شروع ہوچکی ہے جہاں مسلمان حاشیے پر ہیں آپ دیکھ لیجئے کہ پچھلے دس برسوں میں کون سا فرضی انکائونٹر سامنے آیاہے ۔میں پوچھتا ہوں کہ میڈیا کے نیوز چینل یا دوردرشن میں کام کرنے والاکون فرضی انکائونٹر کے قصے کو نہیں جانتا لیکن اس کے باوجود آج بھی میڈیا وہی کھیل رہی ہے فرضی انکائونٹر ،مسلمان لڑکا ٹوپی پہنے ہوئے— کرتا پائجامہ پہنے ہوئے — وہی اردو کی چٹ ۔ پوری سوسائٹیمیں بہت خاموشی سے ایک ایسی فضا بنائی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو اور اسلام کو حاشیے پر ڈال دیا جائے کہیں نہ کہیں ابھی بھی ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل یا یہودیوں کی سازش بڑے پیمانے پر سنکھ کے لوگوں کے ساتھ ملکر اپنا کھیل کھیل رہی ہے اور اسی لیے اردو کا مزاج اور ہے اور انگریزی اور ہندی کا مزاج اور ہے یہاں تک کہ جتنے بھی نیوز چینلس ہیں مسلمانوں کو منظم طورپر حاشیے پر ڈالنے کی کارروائی کررہے ہیں اور مسلمان بھول جائیں کہ اس کے لیے آواز ہندی اور انگریزی الیکٹرانک میڈیا اٹھائے گی۔ اس کے لیے مسلمانوں کو ہی سامنے آنا پڑے گا۔ ان کو اپنے چینلس تیاکرنے ہوں گے ان کو بڑے پیمانے پر سامنے آنا ہوگا ان کو اپنی آواز اورمضبوطی سے اٹھانی ہوگی اورمستقبل میں اگر ایک بڑی جنگ لڑنی ہے تو اردو کے علاوہ انگریزی اور دیگرزبانوں میں ان کو اپنے اخبارات لانے ہوں گے ۔جہاں اپنی باتوں کو مضبوطی کے ساتھ رکھاجاسکے۔ آپ یہ بھول جائیں کہ آپ کی خبروں کو انگریزی یا ہندی اخبارات سرخیاں بنائیںگے۔ جب یہ لوگ بھرت پورکے فساد کو سرخیاں نہیں بناسکے ،ردر پور کے فساد کو سرخیاں نہیں بنا سکے ، بنارس کے فساد کو سرخیاں نہیں بناسکے تو ان کو آپ کے ساتھ کہیں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ہاں جہاں آپ پر شک کی سوئی ہوتی ہے جہاں انہیں ایسا لگتا ہے آپ کو ذلیل کیا جاسکتا ہے وہاں یہ سامنے آئیںگے، وہاں یہ دکھائیںگے۔ لیکن آپ کے مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
نورین: اردو اخبارات اب کارپوریٹ سیکٹر کی زینت بنتے جارہے ہیں اورآر ایس ایس جیسی تنظیمیں بھی اس میں دلچسپی لے رہی ہیں تو کیا آئندہ اردو صحافت بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گی اور اس کے ذریعہ بھی انہیں شکار بنایا جائے گا۔؟
ذوقی: میرا شمار ترقی پسندوں میں کیا جاتارہا ہے عام طور پر میراخیال تھا کہ زبان کسی کی جاگیر نہیں ہوتی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ میرا یہ خیال غلط ہوتا گیا اور اردوزبان سمٹتی چلی گئی اور اس کے جاننے والے صرف مسلمان رہ گئے۔ ایسا ہم نے نہیں کیا ان لوگوں نے کیا کہ انہوں نے اردو کو خالص مسلمانوں کی زبان بنادی۔ آزادی کے وقت معاملہ دوسرا تھا اس وقت اردو سب کی زبان تھی لیکن ۶۰ برسوں میں معاملہ بالکل الٹ گیا سب سے پہلے میں کارپوریٹ سیکٹر کو خواہ وہ چوتھی دنیا ہو، جاگرن گروپ ہو یا سہارا گروپ ہو مبارک باد دینا چاہوں گا۔ جنہوں نے یہ ذمہ داری قبول کی۔ ان اخبارات سے پہلے جو مشہورمیگزین اور ہفتہ روزہ تھے یا اردوروزنامے تھے وہ اپنی روٹیاں سینک رہے تھے۔ مسلمانوں کی سیاست کررہے تھے، ان اخبارات میں وہ بات نہیں ہے۔ یہ صحیح صورت حال کی طرف اشارہ بھی کررہے ہیں، اہم مسائل اٹھارہے ہیں۔ حقائق بیان کررہے ہیں اس سے کم از کم اتنا تو ہوا کہ ہندستانی مسلمانوں کی شبیہ تو سامنے آئی۔ اورآپ نے جو کہا اس سے میں میں متفق ہوں۔ یقینا مسلمانوں کے خلاف یہ بڑی سازش ہے۔ لیکن مسلمان بڑے پیمانے پر اردو اخبارات نہیں نکال رہے ہیں حالانکہ ان کی بڑی نمائندگی ہے تمام میدانوں میں۔ ان کی بھی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں۔ ادارے ہیں لیکن اردو اخبارات غیر مسلم کارپوریٹ سیکٹر کے مالک نکال رہے ہیں۔ آر ایس ایس ۱۸۹۲ سے ہندو راشٹر کے جس مشن پر کام کررہا ہے۔ اس مشن کے لیے اسے سنسکرت، ہندی، انگریزی سے زیادہ اردو،فارسی، عربی جاننے والوں کی ضرورت ہے کیونکہ ۱۸۹۲ سے اب تک سوسالہ سفر میں وہ جس طرح ٹارگیٹ کرنا چاہتے ہیں وہ اس میں ناکام ہیں۔ اس لیے انہیں اس کی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مسلم بچہ دیگر اخبارات کو نہ خرید کر ایک اردو اخبار خرید ے گا اوروہ بھی اسے سمجھ رہے ہیں ۔اس لیے انہیں اپنا ایک ترجمان چاہئے۔ ممکن ہے سنگھ والے مستقبل قریب میں ایسے اردو اخبار جاری کریں جنہیںہم آنے سے روک نہیں سکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی سامنے آئیں۔ کوئی منصف، سیاست سامنے آئے اور بڑے پیمانہ پر آئے۔ تاکہ ان کے بھی اثرات مسلمانوں پر ہوں۔
نورین: آپ نے اپنے ناول’ آتش رفتہ کا سراغ‘ میں جس طرح آر ایس ایس، بجرنگ دل وغیرہ کے حقائق سے مسلمانوں کو واقف کرایا ہے کیا آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اسے سمجھیں گے اورآپ کی باتوں پر عمل پیرا ہوں گے؟
ذوقی:’لے سانس بھی آہستہ‘ میں بھی میں نے اس طرف اشارہ کیا ہے ۔تہذیبوں کے تصادم کی طرف جب میں نے اشارہ کیا ہے تو وہاں میں نے بابری مسجد کی شہادت بھی بیان کی ہے اور اس گھنونے پڑائو کو لے کر میں نے ’’بیان‘‘ بھی لکھا ہے۔ لیکن ۱۹۹۲ کے بعد صورت حال بدتر ہوئی ہے بہتر نہیں ہوئی ہے صرف ایک چیز ہوئی ہے کہ مسلمانوں نے خاموش رہنا سیکھ لیا ہے۔ لیکن خاموش رہنا کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ’لے سانس بھی آہستہ ‘کے بعد آتش رفتہ کاسراغ لکھنے کا ارادہ کیا ۔ تاکہ مسلمان ان چہروں کو بھی دیکھ لیںکہ آر ایس ایس بہت منظم طریقے سے اپنے کاموں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ مجھے کچھ پمفلٹ ملے جنہوں نے اس ناول کو آگے بڑھانے میں میری مدد کی۔ جنہیں پڑھ کر میری روح تک لرز گئی۔ ان میں لکھا تھا کہ ان اسکولوں میں جہاں مسلم طلبہ زیادہ ہیں ان کے سرکاری کھانوں میں کچھ ایسی چیزیں ملائیں جن کے کھانے سے ان کا ذہن کمزورہو، ان کی لڑکیوں کو اغوا کرکے انہیں طوائف خانوں میں فروخت کردیں، میڈیکل اسٹورز میں جب نسخہ سامنے آئے اور اس پر کسی مسلمان کانام لکھا ہو تو انہیں اکسپائر دوا دیں۔ اس کے لیے ہم نے فریش ریپر تیار کرلیے ہیں تاکہ آپ اکسپائر دوا کو ان میں رکھ کر انہیںدیں۔ یہ پمفلٹ آر ایس ایس کے دفاتر سے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ان کے اراکین ان پمفلٹ پرعمل کرتے ہیں۔ آتش رفتہ کا سراغ میں ایک ایسا بھی پڑائو آتا ہے جہاں انور پاشا جو ناول کا اہم کردار ہے اور اس کا برسوں پرانا دوست جو اس کے ساتھ رہتا ہے اور اس کے حقوق کی لڑائی بھی لڑتا ہے۔ آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو دوست نہیں دشمن ہے اور آر ایس ایس کا چیف ہے۔ یہ سب سن کر وہ حیران رہ جاتا ہے۔ انور پاشا اس کے دفتر ساڑھے تین بجے دن میں جاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ وہاں کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، قرأت ایسی کہ کیو ٹی وی اور پی ٹی وی پر بھی اس نے نہیں سنی ہوگی۔ پیشانیوں پر نماز کے نشانات بھی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تم کیا سوچتے ہو صرف تم ہی نماز پڑھتے ہو۔ میں ان لوگوں کو اس لیے تیار کررہاہوں کہ یہ تم میں اس طرح گھل مل جائیں جیسے دودھ میں پانی ۔میں نے یہ سب کچھ لکھ کر کہیں نہ کہیں مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے ان تمام باتوں کو آتش رفتہ میں گواہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
نورین :ادب سے وابستہ تخلیق کو رپوٹنگ کا نام دینے والے نقادوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
ذوقی:بے بنیاد ۔دراصل ہمارے درمیان ایسے نقادوں کی تعداد زیادہ ہے،جوناول کے فن سے واقف ہی نہیں ۔سروانٹس کے ناول ’ڈان کیہوٹے‘ کو ہی لیجئے ۔یہاں اس وقت کی مکمل سیاست طنز کے طور پر موجود ہے۔روسی ناول نگاروں کے یہاں زارشاہی کے خلاف احتجاج ومظاہرہ کی ایک مضبوط آواز پائی جاتی ہے ۔نجیب محفوظ سے لے کر اوہان پامک اور محسن حامد کے یہاں بھی آپ کو یہ سیاسی فضا مل جائے گی۔ناول’ آتش رفتہ کا سراغ‘ میں،میں نے اسی موضوع کو لے کر پیش لفظ لکھا ہے کہ آخر اردو کے نقاد سنجیدگی سے ناول کے نئے منظر نامہ پر غوروخوض کرتے ہوئے اپنا رویہ کب تبدیل کریں گے ۔ایک بات اور بھی ہے ۔بہت کم نقاد ہیں جو ناول پڑھتے ہیں ۔آرام طلبی کے شکار ہیں ۔دوسرے مضامین سے انہیں حوالے مل جاتے ہیں ۔اور وہ اول سے آخر تک اپنی ایک ہی بات دہراتے رہتے ہیں کہ ادب یہ نہیں ہے ،ادب وہ نہیں ہے۔جبکہ ادب کا مکمل چہرہ تبدیل ہوچکا ہے ۔نصاب کی کتابوں میں ،سو برسوں سے افسانے اور ناول کے حوالہ سے جو ادب بچوں کو پڑھایا جارہاہے ۔وہ غلط ہے ۔ناول اور ادب کی مکمل دنیا تبدیل ہوچکی ہے ۔
نورین:آپ اتنے برسوں سے لکھ رہے ہیں ۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ صلہ آپ کو ملا، جو ملنا چاہئے تھا؟
ذوقی:ادب میں کسی صلے یا شاباشی کے لیے میں نہیں لکھتا ۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ لوگ بغیر پڑھے میرے بارے میں ایک رائے بنا بیٹھے ہیں ۔اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ رائے میری تخلیق کے مطالعہ کے بغیر انہوں نے نہیں بنائی ،بلکہ اس رائے کو قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔مجھے پاکستان سے ایک دوست نے بتایا کہ بھائی ،آپ کی کہانیوںکو شائع کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔پاکستان کے ایک بڑے رسالے نے دس برس قبل مجھ سے کہانی مانگ کر اپنے شمارے میں جگہ دی ۔انہیں بھی منع کردیا گیا۔ یہ کھیل ہندوستان میں بھی ہوا ۔دانش الہ آبادی ،سبق اردو کے مدیر اس بات کے گواہ ہیں ۔یہ دو فیصد لوگ ہیں بھائی ۔یہ جوکررہے ہیں انہیں کرنے دیجئے ۔یہ دو فی صد پورا ہندوستان یا عالمی اردوادب نہیں ہے ۔یہ لوگوں کو گمراہ کررہے ہیںاور انہیں کرنے دیجئے ۔۹۸فی صد لوگ ان حقائق سے آگاہ ہیں ۔کسی کے ہیرو یا ولن بنانے سے کوئی ہیرویا ولن نہیں بن جاتا ۔بڑے تاریخی کردار اور مکالموں کی ضرورت پڑتی ہے ۔وقت کے ساتھ ایک بڑی فکر زیریں لہروں کے ساتھ چلتی ہے اور ناول نگار ،فنکار انہ چابک دستی سے انہیں لکھتا ہے ۔کسی ہزیان کے مریض کی طرح آئیں ،بائیں ،شائیں نہیں بکتا ۔میں دو فی صد لوگوں کے لیے نہیں لکھتا ۔میں ۹۸فی صد لوگوں کے لیے لکھتا ہوں ۔اور میری ایک بڑی دنیا ہے ۔ہزاروں لاکھوں چاہنے والے ۔میں ادب کی سیاست نہیں کرتا ۔لوگوں کے پیچھے نہیں بھاگتا ۔بڑے ناموں کے نام کہانی اور کتابیں منسوب ومعنون نہیں کرتا ۔اس لیے مجھے یقین ہے کہ دو فی صد والے صابن کے جھاگ کی طرح ابھریں گے ،ڈوب جائیں گے ۔
شور شرابے کے بغیر اور سیاست کے،جس میں دم ہوگا وہی زندہ رہے گا ۔’لے سانس بھی آہستہ ‘کے بعد میں نے’ آتش رفتہ کا سراغ ‘لکھا اور اب سرحدی جناح ۔ان باتوں پر توجہ دوں تو میرا لکھنا رک جائے گا ۔میرا کام صرف لکھنا ہے ۔ہر جینوئن ادیب کا کام صرف لکھنا ہے ۔ادب کی سیاست نہیں ۔
noorain ali haque ٭
7783/1,chamelian ,bara hindu rao,delhi_6
alihaqnrn@yahoo.com,9210284453