Welcome
Wednesday, 19 October 2011
NOORAIN ALI HAQUE: 9/11کے بعددنیا کا سب بڑا ڈرا مہ
NOORAIN ALI HAQUE: 9/11کے بعددنیا کا سب بڑا ڈرا مہ: وکی لیکس کی کہانی مسلم امہ کے خلاف ایک سازش تھی جسے مسلم بصیرت نے ناکام بنادیا نورین علی حق، دہلی پردہ اٹھتا ہے:وکی لیکس کے ذریعہ جاری کیے...
9/11کے بعددنیا کا سب بڑا ڈرا مہ
وکی لیکس کی کہانی مسلم امہ کے خلاف ایک سازش تھی جسے مسلم بصیرت نے ناکام بنادیا
نورین علی حق، دہلی
پردہ اٹھتا ہے:وکی لیکس کے ذریعہ جاری کیے گئے ڈھائی لاکھ خفیہ دستاویز ات میڈیامیں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ،اور طرح طرح کی پیشین گوئیوں کا بازار گرم ہے-ان خفیہ دستاویزات کے اجراءسے یہ بات پایہ ثبوت تک تو پہنچ ہی گئی ہے کہ دیگر ممالک کے سربراہ یا حکام جنون اور مرگی میں مبتلاہوں کہ نہ ہوں ، امریکہ اور اس کے حکام طاقت کے نشہ میں جنون کی حد سے تجاوز کرچکے ہیں -ان دستاویزات کے منظرعام پر آنے سے امریکی اخلاق باختگی بھی عیاں ہوچکی ہے -دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں ایک دوسرے کے سفرا موجود ہوتے ہیں اور اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہیں ،اپنے ملکی مفادات کا حصول اور اس کا تحفظ ونگرانی ان کی حد ہوتی ہے،وہ حتی الامکان یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنی حد سے تجاوز نہ کریں الا یہ کہ خود اس ملک کی حکومت کوئی خصوصی ذمہ داری انہیں سونپ دے ،خصوصی ذمہ داری افہام وتفہیم وغیرہ کی ہوتی ہے جسے وہ اپنے منہج پر ادا کرتے ہیں اور غیر ضروری تنازعات سے خود کو بچاتے بھی ہیں – اس کے برعکس امریکہ دیگر ممالک میں اپنے سفراسے جاسوسی بھی کراتا ہے یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں متعین ہندوستان،چین،پاکستان،کیوبا،وغیرہ کے نمائندوں کی ذاتی زندگیوں پر بھی گہری نظررکھنے پر زورڈالتا ہے-ان احکامات پر نہ صرف ہم حیرت واستعجاب کااظہارکررہے ہیں بلکہ خودامریکہ کے افغانستان ،الجیریا،اور بحرین میں سابق امریکی سفیر رونلڈری مین نے بھی ان پرحیرت کا اظہارکیا- وہ کہتے ہیں کہ واشنگٹن ان سے دیگر ملکوںکے بارے میں مسلسل وسیع پیمانے پر معلومات بھیجنے کا تقاضا کرتاہے،حالاں کہ یہ ناقابل فہم ہے کہ مختلف شخصیات کے کریڈٹ کارڈزکے نمبر وغیرہ جمع کرنے کا مطالبہ فارن سروس کے افسران سے کیوں کیا جارہا ہے جن کے پاس کسی طرح کی خفیہ معلومات جمع کرنے کی تربیت نہیں ہے-
اسی طرح مارچ 2008میں لکھے گئے ایک اور خط میں پیرا گوئے میں تعینات ایک سفارت کا ر سے پیراگوئے ،برازیل اور ارجنٹائن کے سرحدی علاقے میں القاعدہ ،حزب اللہ اور حماس کی موجودگی کے بارے میں بھی دریافت کیاگیا تھا-ان دستاویزات میں کئی ممالک کے سربراہوں کا مضحکہ بھی اڑایا گیا ہے -طرفہ تماشایہ کہ خفیہ دستاویز ات کے شائع ہوجانے اور امریکہ کے رازہاے سربستہ کے عیاں ہوجانے کے باوجود کسی بھی امریکی کا معذرت نامہ اب تک سامنے نہیں آسکا ہے بلکہ اس پر وکی لیکس اورخفیہ دستاویزات کاانکشاف کرنے والوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں-امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہاہے کہ دستاویزات عیاں کرنے والوں اور اس کا سبب بننے والوں کے خلاف سخت اور جارحانہ اقدامات کیے جائیں گے-دوسری طرف اپنے غیر اخلاقی بیانات اور احکامات کی زہر آلودگی کو کم کرنے کے لیے وہ یہ بھی کہنے سے نہیں کترارہی ہیں کہ امریکہ سمیت ہر ملک کو لازمی طور پر اس قابل ہو ناچاہیے کہ جن قوموں اور لوگوں کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں ان کے بارے میں بے تکلف گفتگو کرسکیں او رامریکہ سمیت ہر ملک کو لازمی طور پر اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ مشترکہ تحفظات پر ایمان داری کے ساتھ نجی بات چیت کرسکے-حالاں کہ اخلاقی طور پر انہیں ان ممالک سے معافی مانگنی چاہیے تھی جن کے بارے میں بھونڈے اور بھدے قسم کے جملوں کا استعمال کیا گیا ہے-یہ سب تماشا صرف دولت اور طاقت کا ہے جس کی بنا پر دیگر ممالک بھی ان خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے پر شتر مرغ کی طرح ریت میں سرچھپا لینا چاہتے ہیں کہ وہ تیکھے ،تلخ اورامریکہ مخالف بیانات دے کرجنگ وجدال مول خریدلینانہیں چاہتے -خیر مسلم ممالک میں تو یہ ہمت ہی نہیں کہ وہ ان دستاویزات کو سچ اورمبنی بر حقیقت تسلیم کرلیں اس لیے پاکستان نے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز سے منسوب صدر پاکستان زرداری سے متعلق بیان کو مسترد کردیا ہے-
واضح رہے کہ ان خفیہ دستاویزات کی جتنی تفصیل اب تک سامنے آسکی ہے اس میں سب سے زیادہ مسلم ممالک او رسربراہان کا کچاچٹھا ہے یہاں تک کہ فرانسیسی میڈیا نے کہا ہے کہ :
”ان رپورٹس کی روشنی میں بعض ممالک اور حکمرانوں کے متعلق عالمی سوچ بدل سکتی ہے تاہم اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلم ممالک کو ہوگا-ان کے درمیان نفرت اور اختلافات کھل کر سامنے آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور ان ممالک کے عوام میں پہلے سے موجود دوسرے ممالک کے حکمرانوں کے خلاف جذبات او رخدشات کو ہوا ملے گی-یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ان دستاویزات کے افشا کرنے کا اصل مقصد مسلم ممالک کے مابین دوریاں بڑھانا ہے-چوں کہ ان دنوں ایران سے سعودی عرب کے تعلقات میں پہلے سے بہتری اور استحکام نظر آرہاہے اور کبھی بھی مغربی ممالک مسلم دنیا کے اتفاق پر چین وسکون کی زندگی بسرنہیں کرسکتے-اس لیے یہ ایک طریقہ نکالا گیا ہے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے-وہ حقائق جنہیں اسلامی ممالک کے سربراہوں کے متعلق وکی لیکس نے جاری کیے ہیں انہیں اگر کوئی امریکی وزیریا حاکم کہتاتو سعودی اور متحدہ عرب ممالک کے تعلقات امریکہ سے تلخ ہوجاتے یاکم از کم وہ راز جسے شکوک کی نظروںسے دیکھاجاتاہے وہ کھل جاتا کہ امریکہ مسلم دنیا کے آپسی بہتر تعلقات کو پسند نہیں کرتا -اس لیے یہ کام وکی لیکس کے ذریعہ کرایا گیا-سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک کے پرندے دوسرے کسی ملک میں مار دیے جاتے ہیں یا شکار کرلیے جاتے ہیں تو اسے خبر ہوجاتی ہے اور لاکھوں خفیہ دستاویزات چوری کرلیے جاتے ہیں تو اسے اس کی بھنک تک نہیں لگتی- یہ بات ناقابل فہم ویقین ہے-دراصل یہ9/11کے بعد کا سب سے بڑا ڈرامہ ہے جسے خود امریکہ نے رچا ہے او رمہرہ وکی لیکس کو بنایا گیا ہے،تاکہ ایک ابھرتی ہوئی مسلم طاقت کو مسلم ممالک کے ذریعے ہی کچل دیا جائے یا عبداللہ بن عبد العزیز کے اصرار (امریکہ ایران پر حملہ کردے)پر ایران پائجامہ سے باہر آکر سعودی اور متحدہ عرب امارات کو دھمکی دے دے تو ہم دیگر مسلم ممالک کی خوش نودی کے حصول کے بعد ایران کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادیں ،حالاں کہ ان ممکنہ اور متوقع امکانات کے پیش نظر ایرانی صدر احمدی نژاد نے بر وقت اور عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ کہہ کر چور کے منھ پر کالک پوتنے کا عمل کیا ہے کہ ان دستاویزات سے ایران کے اپنے ہم سایہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر نہیں ہوںگے- ان خفیہ دستاویزات کو افشا کرنے والے وکی لیکس کے مقاصد کو جاننے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ وکی لیکس کیا ہے:
وکی لیکس(Wiki leaks)ایک تعارف ؟وکی لیکس کا کہناہے کہ وہ ایک بین الاقوامی بے لوث میڈیا آرگنائزیشن ہے-وہ خفیہ سینسرڈ،سیاسی،سفارتی اوراخلاقی اہمیت کے متعلق ممنوعہ اورغیر مطبوعہ دستاویزات بھی غیر معروف اور گمنام شخص سے قبول کرکے اسے منظرعام پرلاتی ہے-سویڈن میںاس ویب سائٹ کاقیام2006ءمیں عمل میں آیا-اسے سن شائن تنظیم چلاتی ہے-اس نے اپنی لاونچنگ کے ایک سال کے اندر ہی1.2میلین خفیہ دستاویزات اکٹھاکرنے کادعویٰ کیا-خفیہ طورپراس کے بانیوںمیں چین،متحدہ عرب امارات، تائیوان،یوروپ،آسٹریلیا،اور جنوبی افریقہ کے ٹکنالوجی کے ماہرین اور صحافی شامل ہیں اوروہی اس کامالی تعاون بھی کرتے ہیں-صرف ایک آسٹریلین شخصJulain Assangeڈائرکٹرکے طور پر بظاہر نظر آتا ہے-جولین اسانزے ۱۷۹۱ءمیں آسٹریلیا کے شہر کوئنس لینڈ میں پیدا ہوا جہاں اس کے والدین اپنی تھیٹر کمپنی چلاتے تھے لیکن اساسنزے کو نوجوانی سے ہی کمپیوٹر کا جنون تھا اس پر 1995ءمیں درجنوں ویب سائٹس ہیک کرنے کا الزام بھی لگ چکا ہے جس کے بعد اسے عدالت میں اعتراف اور جرمانہ ادا کرنا پڑا-39سالہ اسانزے کہیں مستقل قیام پذیر نہیں رہتا-عام طور پر اس کے پاس دو کیری بیگ رہتے ہیں جن میں سے ایک وہ اپنے کپڑے اور دوسرے کو لیپ ٹاپ کے لیے استعمال کرتا ہے-اسانزے1980ءکی دہائی کے آخر میں ہیکنگ کرنے والے گروپ ”انٹرنیشنل سروسیز“کا رکن بھی تھا،اس دوران1991ءمیں میل برن میں واقع اسانزے کے گھر پر آسٹریلیائی پولس نے چھاپہ بھی مارا-1996ءمیں اسانزے نے کمپیوٹر پر وگرامر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا-اس کے بعد اس نے 1999ءمیں لیکس ڈاٹ او آرجی نامی ڈومین رجسٹرڈ کرایا-
وکی لیکس کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے جن میں 2008ءکا ایکونومسٹ میگزین نیو میڈیا ایوارڈ،2009ءمیں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا یوکے میڈیا ایوارڈ،قابلِ ذکر ہیں -موخر الذکر ایوارڈ ویب سائٹ کے علاوہ اس کے بانی جولین اسانزے کو بھی دیا گیا – مئی 2010ءمیں دی نیویارک ڈیلی نیوز نے اسے خبروں کو مکمل طور پر تبدیل کرسکنے والی ویب سائٹس میں سرفہرست رکھا-
دسمبر2006ءمیں وکی لیکس کے پہلے ڈاکیومینٹ پوسٹ میں صومالیا کے سرکاری افسر کے قتل کے فیصلہ پر شیخ حسن داہری کے دست خط شدہ دستاویز عام کیے گیے- جنوری2007ءمیں پہلی مرتبہ یہ ویب سائٹ انٹرنیٹ پر جاری ہوئی-ان ہی ایام میں امریکی فوج کی خفیہ اطلاعات پہنچانے والے محکمہ میں متعین براڈلے میننگ نامی سپاہی نے امریکی فوج سے اپنی بر گشتگی کے بعد وکی لیکس کو عراق میں موجود امریکی فوجیوں کی خفیہ اطلاعات غیر معمولی تعداد میں بہم پہنچائی-اسے خفیہ اطلاعات اپنے کمپیوٹر پر منتقل کرنے کی پاداش میں گرفتار بھی کرلیا گیا- اب بھی اس سلسلہ میں اس پر مقدمہ چل رہا ہے ،پر لطف بات یہ ہے کہ مذکورہ فوجی سپاہی براڈ لے میننگ Bradley Meaningامریکی ہے -اپریل2010ءمیں اس نے2007ءکا ایک ویڈیو جاری کیا جس میں امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کی داستان ظلم وجبر قید تھی- اسی سال جولائی2010ءمیں 76,900خفیہ دستاویزات پر مبنی افغان جنگ ڈائری جاری کرکے پوری دنیامیں ہلچل مچادی،2008ءمیںامریکی انتخابات کے دوران اس نے ایک میل بکس کے خاکے جاری کیے تھے جن میں اس وقت کی نائب صدر کی امیدوار سارہ پالن کی تصاویراور اڈریس بک کے متعلق معلومات تھیں-
جنوری2009ءمیں یونائٹیڈ اسٹیٹس کے600دستاویزات عام کیے گیے،اسی سال ایسٹ انجلیایونیورسٹی کی کلائی میٹ ریسرچ یونٹ کے متنازعہ دستاویزات کو چھاپ دیا-جن میں ماہرین موسمیات کے مابین ای میل کے ذریعہ باتیں ہوئی تھیں-19ءمارچ2009ءکو مختلف ممالک کی غیر قانونی سائٹس کی فہرست جاری کی گئی 28جنوری2009ءکو پیرو کے قومی لیڈروں اور تاجروں کے درمیان86ٹیلی فونک ریکارڈنگ جاری کی اس میں پیٹروگیٹ آیل اسکینڈل سے متعلق باتیں تھیں یہ اسکینڈل 2008ءمیں ہواتھا-16جنوری2009ءکوایرانی نیوزایجنسی نے رپورٹ دی کہ ایران کے ایٹمک ایجنسی آرگنائزیشن کے سربراہ نے اپنی 12سالہ خدمات کے بعد اچانک استعفا دے دیا، بعد میں وکی لیکس نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ ایران میںزبردست ایٹمی دھماکہ ہواتھا،25نومبر2009ءکو اس نے 5.70لاکھ پیجر پیغامات عام کیے-یہ پیغامات9/11کے دن پنٹاگن افسروں اورنیویارک سٹی کے محکمہ پولس کے درمیان بھیجے گیے تھے-15مارچ2010ءکو امریکی محکمہ دفاع کی 32صفحات پر مشتمل خفیہ رپورٹ جاری کی گئی اس میں 2008ءکی کاونٹر انٹیلی جنس انالائسیس رپورٹ تھی- سب سے بڑا دھماکہ اس نے اس مرتبہ امریکہ کے لاکھوں خفیہ دستاویزات جاری کرکے کیا ہے جنہیں ہضم کرجانا پوری دنیا کے لیے باعث پریشانی ثابت ہورہا ہے-
موجود دستاویزات پر ایک طائرانہ نظر:2,51,287 خفیہ اطلاعات و دستاویزات 30نومبر کو وکی لیکس نے جاری کیے،جو گالیوں اور دشنام طراز یوں کا پلندہ ہے -غورطلب مقام ہے کہ ان دستاویزات میں کسی بھی ملک کے سربراہ کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا گیا ہے -عام طور پر غلط تاثر ہی دیگر ممالک کے سلسلہ میں امریکہ کا ہے جس سے خود امریکہ کی شرافت اور نمائشی تعلقات کا راز فاش ہوگیا ہے -ایسے ایسے ریمارکس ہیں جن کا تصور ایک شریف آدمی کر ہی نہیںسکتا چہ جائے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے سربراہ کے سلسلہ میںایسا کرے-ان حقائق کے منکشف ہونے سے انسانیت مجروح ہوئی ہے-گرچہ ان کا مقصد مسلم ممالک کے مابین منافرت پھیلانا رہا ہو مگر اس زمرے میں امریکہ بھی ننگاہوگیا ہے -ان میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کو ہٹلر سے یاد کیا گیا ہے ،فرانس کے صدر سرکوزی کو بے لباس بادشاہ بتایا گیا ہے-جرمنی کی چانسلر انجلینا مرکل کو کمزور حکمراں ،افغانی صدر حامد کرزئی کو دماغی خلل کا شکار اور لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی کل وقتی نرس ایک گرم حسینہ ہے -اس طرح کے افکار بہرحال غیر ذمہ داراور غیر مہذب ہی لوگوں کے ہوسکتے ہیں -خصوصی طور پر ان دستاویزات میں شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کے حوالہ سے دومسلم ملک کے سلسلہ میں بات سامنے آئی ہے -ایک تو یہ کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری دہشت گردی کے سدباب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں -دوسری یہ کہ سعودی فرماں روانے ایک سے زائدبار امریکہ سے اصرار کیا کہ آپ ایران پر حملہ کرکے اس کے نیو کلیائی تنصیبات کو تباہ وبرباد کردیں وہیں عادل الزبیر کے حوالہ سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ کہا کہ سعودی فرماں روا چاہتے ہیں کہ آپ لوگ سانپ کا سر کچل دیں -گرچہ ان دستاویزات کے سامنے آنے کے بعد سعودی وزارت خارجہ نے ان باتوں کی سخت انداز میں تردید کردی ہے وہیں صدر ایران محموداحمدی نژاد نے بھی کہا ہے کہ عرب ممالک مغرب اور امریکہ کے جھانسے میں نہ آئیں ان کا اصل مقصدہمارے باہمی تعلقات خراب کرناہے- ہمارے تعلقات پر وکی لیکس کا جادواثر انداز نہیں ہوگا-
وکی لیکس کے پاس ان اقوال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل نہیں ہیں اس لیے اس پر کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی-البتہ ایران وعرب کے بعض اختلافات کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے،تاکہ شیعوں کی اکثریت سعودی شاہ سے کم ازکم متنفر ضرور ہوجائے اور احمدی نژاد کے بیان کے بعد بھی بہت حد تک اس کی گنجائش باقی رہتی ہے-
ان امکانات کو مسلم ذہن سے کھرچ پھینکنے کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ اگر یقینا وکی لیکس کے یہ انکشافات جھوٹ ہیں تو سعود ی اس پر سخت اقدامات کرے اور اس کی گہرائی تک جائے کہ یہ وکی لیکس کی شرانگیزی ہے یا امریکی حکام کی کہ انہوں نے ہی ان اقوال کوسعودی شاہ سے منسوب کردیا-ورنہ مغرب اور اس کے ادارے اسی طرح جھوٹ منسوب کرکے ایک نہ ایک دن اپنے مقاصد واہداف میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے – ایران کب تک برداشت کرسکے گا-او ر یہ بھی امر اپنی جگہ مسلم ہے کہ ایران کے تباہ ہوجانے کے بعد 56مسلم ممالک میں سے کسی کے پاس یہ دم خم نہیں ہے کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے-آج حالات اس قدر عبرت ناک ہیں جس کا تصور ممکن نہیں -ہمارے کئی مسلم ممالک کے پاس دولت وثروت اور تیل کی زبر دست فراوانی ہے-لیکن وہ پھر بھی امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک کے دست نگرہیں-حالاں کہ یوروپ اور امریکہ عرب ممالک سے تیل اور دولت حاصل کرتے ہیں اور ان ہی پر رعب بھی جھاڑتے ہیں -اس سے بڑھ کر اور کیا مضحکہ خیز ہوسکتا ہے کہ سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کو آپریشن کرانا ہوتا ہے تو وہ امریکہ کا سفر کرتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ عرب میں تشفی بخش ذرائع علاج مہیا نہیں ہیںیا خود اپنے ملک کے ذرائع علاج سے شاہ عبداللہ مطمئن نہیں ہیں اس لیے وہ امریکہ کا سفر کرتے ہیں -بہر حال ان ہی ایام میں جب وکی لیکس کا ڈرامہ رونما ہوا شاہ سعودی کا امریکہ میں ہونا مصلحت سے خالی نہیں محسوس ہوتا-اب تک ان حقائق کا خلاصہ سامنے نہیں آسکا ہے اور نہ ہی آنے کی امید ہے چوں کہ 9/11ڈرامہ کے حقائق دس سال گزر جانے کے باوجود سامنے نہیں آسکے تو حالیہ ڈراموں کا سامنے آنا بھی آسان نہیں ہے-
بہت سے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہوگا کہ آخر کوئی ملک اپنے خلاف بھی سازش کیوں کرسکتا ہے تو اسے سمجھنے کے لئے9/11پر قائم کیے جانے والے شکوک کا مطالعہ ضروری ہے، ان کے مطالعہ سے سوچنے کا اندازبدلتا ہے او رقاری یہ سمجھ پاتا ہے کہ یہودی ومسیحی لابیز مسلمانوں کو بدنام کرنے اور انہیں پوری طرح مغرب زدہ ان کے ذہن پر آتاہے کہ کوئی اسلامی ملک خود کفیل بننے کی کوشش کررہا ہے تو وہ اس کے خلاف نت ئی سازشیں رچتے ہیں ،اپنی دھونس جمانے اور دوسروں کو کمزور وکمتر ثابت کرنے کے لیے مختلف اسلحے استعمال کرتے ہیں -پورا مغرب کلیسا کے سامنے سرنگوں ہوتاہے اور جب کوئی مسلم سربراہ قرآن ورسولﷺ کا اتباع کرتاہے تو اس کا عمل مغرب کے لیے ناقابل برداشت ہوتاہے ،مغرب کی یہ دوہر ی پالیسی کوئی نئی چیز نہیں ہے -بلکہ اس کے تبلیغی مشن کا ایک حصہ ہے -جسے وہ بڑے ہی شاطرانہ انداز میں سیکولر خول کے اندر لپیٹ کر مشرق کی طرف اچھال دیتاہے او رخول کو ہی دیکھ کر مشرقی اس کے دلدادہ ہوجاتے ہیں-بہرکیف اس سے قبل بھی امریکی ڈرامہ پر تجزیہ نگاروں نے بے تحاشا شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے جو دنیا کی مختلف زبانوں کی کتابوں اور رسائل وجرائد میں بکھرے پڑے ہیں البتہ9/11پر مبنی شکوک وشبہات کو کافی حد تک نذر الحفیظ ندوی نے اردو میں اپنی تصنیف مغربی میڈیا اور اس کے اثرات کے نئے ایڈیشن میں سمیٹاہے-
اس چوطرفہ بے چینی کے باوجود امریکہ کی خاموشی اور مسلم ممالک پر پیہم حملے شکوک وشبہات کو مزید ہوادیتے ہیں- البتہ مسلم دنیا حقائق جاننے کی خواہاں ضرور ہے-بہرحال ڈھائی لاکھ سے زائد خفیہ اطلاعات میں2,278کاٹھمنڈوکے امریکی سفارت خانہ سے اور 3325کولمبوکے امریکی سفارت خانہ سے،2220اسلام آبادکے امریکی سفارت خانہ سے اور 3038پیغامات ہندوستان کے امریکی سفارت خانہ سے جاری کیے گئے ہیں -ا ن خفیہ دستاویزات کو بعض 2006ءسے مارچ2010ءتک کے بتاتے ہیں او ربعض کا کہنا ہے کہ ان کی مدت28دسمبر1966ءسے شروع ہوتی ہے اور یہ دستاویزات 28فروری 2010ءتک کو محیط ہیں-
وکی لیکس ڈرامہ کے حقائق ومقاصد کیا ہیں؟ دقت نظر سے دیکھے جانے کے بعد کوئی بھی باشعور انسان یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان دستاویزات کا بیشتر حصہ ایسا ہے جسے پروپیگنڈے کے بغیر بھی عام کیا جاسکتا تھا لیکن اس کام کے لیے پوری دنیا کے میڈیا کا میدان میں آنا اور اس پر واویلا مچانا کسی خاص مقصدکے لیے ہے – تاریخ گواہ ہے کہ یوروپ وامریکہ کا یہ پرانا وتیرہ رہا ہے کہ وہ دوسروںکو لڑاتے ہیں اور حکومت کرتے رہتے ہیں – مزید یہ کہ افغانستان وعراق کی تباہی کو بھی عرصہ گزر چکا ہے- 56مسلم ممالک میں صرف ایک ایران ہی باقی ہے جو امریکہ کے کنٹرول سے باہر اور اس کے چشم وابرو کے اشاروں پر رقص کرنے کو تیار نہیں ہے -اسی لیے یہ ڈرامہ رچا گیا تاکہ تمام مسلم دنیا میں شیعہ سنی آپس میں ہی باہم دست وگریباں ہوجائیں اور ایران قوت برداشت کھو کر سعودی کو دھمکی بھی دے دے تو عرب ممالک کے موٹے دماغ والوں کی اجازت سے ایران پر حملہ کرنا آسان ہوجائے گا اس طرح اپنا مقصد بھی حل ہوجائے گا اور اگر ایران کی تباہی کے بعد وہاں بھی عراق کی طرح انسانیت سوز اور تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار دریافت نہ ہوسکے تو بعد میں ہمیں سبکی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گااو راس طرح وہ بش سے بہتر صدر امریکہ بھی ثابت ہوجائیں گے چوں کہ بش کو عراق پر دلائل کے بغیر حملہ کرکے بعد میں پوری دنیا کی طرف سے تنقید اور مذمت برداشت کرنا پڑی تھی-اور اس طرح مسلمانوں کو بھی خانوں میں تقسیم کرنا آسان ہوجائے گا-یہ تو دونوں رہنماوں سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز او ربالخصوص محموداحمدی نژاد کی دوراندیشی کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا میں شیعہ-سنی منافرت نہیں پھیل سکی- اگر محمود احمدی نژاد اس پر خاموشی اختیار کرلیتے یا اس پر سخت رد عمل کااظہار کرتے تو عن قریب محرم کے مہینہ میں شیعہ سنی اختلافات پھوٹ پڑتے اور انہیں جانی ومالی خسارے برداشت کرنے پڑتے-میرے اس خیال کو امریکہ کی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے اس بیان سے تقویت ملتی ہے کہ وہ ایک طرف وکی لیکس کے خلاف سخت اقدامات کی دھمکیاں دے رہی ہیں تو وہیں اس بات کی تصدیق بھی کررہی ہیں کہ ایران کے ہم سایہ عرب ممالک اس کے نیو کلیائی ایٹمی تنصیبات سے حددرجہ پریشان ہیں-یعنی وہ پس پردہ اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ یقینا شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز نے ایران پر حملہ کے لیے امریکہ سے اصرار کیا تھااورعادل الزبیرسفیرامریکہ برائے سعودیہ کی طرف بھی جو قول منسوب ہے وہ بھی سچ ہے -منظر عام پر آنے والے دستاویزات کے سیاق و سباق بہر حال اس جانب اشارہ کرتے ہیں ،ورنہ ایسے موقع پر جب مسلم دنیا خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ رہی ہو اس طرح کے بیانات آگ پر گھی کا کام کرتے ہیں- اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ عبد اللہ بن عبد العزیزکو امریکہ نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس طرح کے بیان پراکسایا ہو اور بعد میں اسے منظر عام پربھی لادیاگیا-جس وقت شاہ عبد اللہ بنفس نفیس امریکہ میں موجود تھے اور ان کے لیے پوری عمارت ہی مخصوص کرلی گئی تھی تاکہ غیر ضروری لوگوں کو یہ بھی پتہ نہ چل سکے کہ وہاں کیا ہورہا ہے او ربآسانی بیانات جاری کرائے جاسکیں-جولین اسانزے بھی لاپتہ ہوچکے ہیں یہ بھی ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ،کیا پتہ وہ خود کہیں فرار ہوا یا اسے انڈر گراونڈ کرادیا گیا-بہت ممکن ہے کہ میری اس تشویش پر بہت سے اذہان میںیہ سوال اٹھے کہ اس سے پہلے بھی امریکہ کے مظالم کو وکی لیکس سامنے لاچکا ہے پھر امریکہ اپنے مقاصد کے لیے اسے کیوںکر استعمال کرسکتا ہے تو اس سوال کا جواب بہت آسان ہے اور ہمارے گردو پیش میں ایسے حالات رونما ہوتے رہتے ہیں جب ایک نیتا دوسری پارٹی کے لیے سخت وسست کہتا رہتاہے لیکن آئندہ الیکشن میں وہ اپنے ذریعہ مخالفت کی جانے والی پارٹی کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہوتاہے-آج کی تاریخ میں ضمیر فروشی کی کوئی حد نہیں ہوتی انسان کسی بھی حد تک پہنچ جاتا ہے-بالخصوص اس وقت اسے اور بھی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ خود کو بے سہارا اور مالی واقتصادی طور پر کمزور محسوس کرتاہے- یہ بات بھی کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے کہ وکی لیکس بند بھی کیا جاچکا ہے او راس کے ایڈوائزری بورڈ کے ممبر کے طور پر صرف اسانزے ہی سامنے آئے ہیں- اس لیے یہ سوچنے کی بھی گنجائش اپنی جگہ باقی ہے کہ اندرونی طور پر خود امریکہ ہی اسے مالی تعاون کرتا ہو-پھر میڈیا کے حواس پر اس طرح اس کا چھاجانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہودی ومسیحی لابی کا دست مقدس اس کی پشت پرہے،ورنہ یہ دستاویزات اس طرح ہر فرد بشر کا موضوع سخن نہیں بن پاتے-بہرحال قابل تعریف ہیں محمود احمدی نژاد کہ ان کے محض ایک تردیدی بیان سے مسلمانوں کا خون آپسی قتال سے محفوظ رہا اور امریکہ ،اسرائیل اور دیگر یورپی ممالک کے خوابوں کا محل بھی ایک لمحہ میں زمیں بوس ہوگیا اور مظلوم فلسطین کے حق میں آوازاٹھانے والاایران بھی محفوظ رہا-جب مسلم دنیا کو آپس میں لڑا کر لطف اٹھانے والا مغرب کے ترکش کا آخری تیر بھی ہدف تک نہیں پہنچ سکا تو وہ بوکھلا کر ایران کو دھمکیاں دینے لگے کہ ایران محاذ آرائی اور عدم تعاون کا راستہ لازمی طور پر چھوڑ دے دھمکی آمیز اس جملہ کے بعد کیا کہا جاسکتا ہے وہ ہر شخص جانتااور اچھی طرح سمجھتابھی ہے- 30نومبر کے عین چار دن بعد4دسمبر کو یہ بیان عام کیا جانا اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ ڈرامہ فلاپ ہونے کے بعد پورامغرب بوکھلا گیا ہے-4دسمبر کو راشٹریہ سہارا نے ویانا (رائٹر)کے حوالہ سے ایک خبر شائع کیا ہے ،جس میں یہ بھی ہے کہ”مغرب کوشبہ ہے کہ ایران نیوکلیائی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے-جرمنی ،فرانس اور برطانیہ نے نیوکلیائی توانائی ایجنسی کی بورڈ میٹنگ میں ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اب کوئی متبادل راستہ نہیں رہ گیا-ایران کو لازماً سرگرم طریقہ سے اپنے نیوکلیائی پروگرام کی قطعی پرامن نوعیت کے تعلق سے مغرب کو اعتماد میں لیناہوگا“ظاہر ہے کہ تمام متبادل کا استعمال مغرب کرچکا ہے پھر بھی ایران تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہوسکی تو اب زور زبردستی سے کام لیا جائے گا-
مسلم دنیا کے مثبت رد عمل کی ضرورت ہے: مسلم دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوچنے سمجھنے اور مثبت عمل کے لیے یہ موقع غنیمت کے طور پر دیا گیا ہے اسے وہ محسوس کریںکہ داخلی وجزوی اختلافات چاہے جس حد تک بھی ہوں بہرحال ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کا ساتھ دے گا-ایسے موقع پر جب کہ خادم الحرمین ہر مسلم نگاہ سے گر جاتے نژاد کے ایک تردیدی بیان نے یہ ثابت کردیا ہے -اب مسلمانوں کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ،وہیں دوسری طرف ”الکفر ملة واحدة“کی حقیقت بھی سامنے آچکی ہے اس لیے وکی لیکس کے اس عمل کے اصل مقصد کو سمجھتے ہوئے آپسی اختلافات کو طاق نسیاں بنا کر مسلم ممالک”جَسَدواحد“کی عملی تفسیر پیش کریں اور ایران کو دوسرا عراق بننے سے بچائیں کہ اس کی تباہی بالواسطہ طورپرساری مسلم دنیا کی تباہی ٹھہرے گی-اگر ایران تباہ وبرباد ہوگیا تو ساری مسلم دنیا کی حالت 1947ءسے پہلے کے ہندوستان کی سی ہوجائے گی اور مسلم دنیا کی نہ صرف دولت بٹوری جائے گی بلکہ انہیں اچھوت اور غیر مہذب بھی ثابت کیا جائے گا-اور عرب و متحدہ عرب امارات ”ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم“ کے علاوہ کچھ نہیں کرسکیں گے-چوں کہ ان کے پاس نہ فوج ہے نہ اسلحہ،پھر وہ اپنا سو نا اوراپنا تیل بھی حاصل کرنے کے لیے امریکہ ویوروپ کی طرف بھوکے بھکاری کی طرح دیکھنے پر مجبور ہوجائیں گے-اور انہیں امریکہ کا ایک کتا بھی ڈرانے دھمکانے اور خوف زدہ کرنے کے لیے کافی ہوگا-اس لیے نہ صرف ایران کا ساتھ زبانی طور پر دیں بلکہ اسے مالی تعاون بھی کریں تاکہ وہ اپنے عزائم وارادے کو بہتر طریقے پر زمین پراتارسکے -اور زیادہ سے زیادہ نیو کلیائی تنصیبات کا تجربہ کرے-
سعودی ودیگر متحدہ امارات جن مفروضہ بدگمانیوں میں سانس لے رہے ہیں کہ انہیں ایران سے ہمہ وقت خطرات لاحق ہیں انہیں وہ اپنے ذہنوں سے نکال دیںوہ دشمن کی سازشوں کو سمجھیں ،مسلمہ امہ کی تباہی اور زوال کی داستانیں بہت طویل ہوچکی ہیں،ہمارے عالمی دشمن ہمیں بہت دنوں تک سے اپنی انگلیوں پر نچارہے ہیں تاخیر بہت ہوچکی ،لیکن آنکھیں کھولنے کا وقت اب بھی باقی ہے-اگر ہمیں روئے زمین پر اپنی داستان باقی رکھنی ہے تو ہمیں سنبھلنا ہی ہوگا اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم چلنا ہی ہوگا- چوں کہ ایران سب کچھ کرسکتا ہے-امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے ،اس کی سرزمین پر اسے ہی چیلنج کرسکتا ہے-اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں کرسکتا ہے،عراقی وکویتی اہل تشیع کا تعاون کرسکتا ہے مگر وہ رسول اور آل رسول کی سرزمین پر حملہ آورہوکر ان کے نقوش واثرات کو مٹانے کا سبب نہیں بن سکتا،اسے قندیل رہبانی سمجھ کر یک وتنہا نہ چھوڑیں یہ آئندہ مسلم دنیا کا سرمایہ افتخار بن سکتا ہے اس کی حفاظت کریں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کے سیاسی نظریات کے اتباع کے لیے خود کوتیار کریں ،چو ں کہ کسی بھی خوش حال ملک کے لیے صرف دولت کی ریل پیل ہی کافی نہیں ہوتی،اپنے دفاع کے لیے دفاعی ہتھیار کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے ،سیاسی بصارت وبصیرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے،یہ جبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم ”واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولاتفرقوا “پر عامل ہو کر اپنے ماضی کے اعلیٰ اقدار اور روایات پر نظر ڈالیں،اور”لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ “کی مضبوط ومستحکم کڑی کی اہمیت کو سمجھیں
نورین علی حق، دہلی
پردہ اٹھتا ہے:وکی لیکس کے ذریعہ جاری کیے گئے ڈھائی لاکھ خفیہ دستاویز ات میڈیامیں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ،اور طرح طرح کی پیشین گوئیوں کا بازار گرم ہے-ان خفیہ دستاویزات کے اجراءسے یہ بات پایہ ثبوت تک تو پہنچ ہی گئی ہے کہ دیگر ممالک کے سربراہ یا حکام جنون اور مرگی میں مبتلاہوں کہ نہ ہوں ، امریکہ اور اس کے حکام طاقت کے نشہ میں جنون کی حد سے تجاوز کرچکے ہیں -ان دستاویزات کے منظرعام پر آنے سے امریکی اخلاق باختگی بھی عیاں ہوچکی ہے -دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں ایک دوسرے کے سفرا موجود ہوتے ہیں اور اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہیں ،اپنے ملکی مفادات کا حصول اور اس کا تحفظ ونگرانی ان کی حد ہوتی ہے،وہ حتی الامکان یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنی حد سے تجاوز نہ کریں الا یہ کہ خود اس ملک کی حکومت کوئی خصوصی ذمہ داری انہیں سونپ دے ،خصوصی ذمہ داری افہام وتفہیم وغیرہ کی ہوتی ہے جسے وہ اپنے منہج پر ادا کرتے ہیں اور غیر ضروری تنازعات سے خود کو بچاتے بھی ہیں – اس کے برعکس امریکہ دیگر ممالک میں اپنے سفراسے جاسوسی بھی کراتا ہے یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں متعین ہندوستان،چین،پاکستان،کیوبا،وغیرہ کے نمائندوں کی ذاتی زندگیوں پر بھی گہری نظررکھنے پر زورڈالتا ہے-ان احکامات پر نہ صرف ہم حیرت واستعجاب کااظہارکررہے ہیں بلکہ خودامریکہ کے افغانستان ،الجیریا،اور بحرین میں سابق امریکی سفیر رونلڈری مین نے بھی ان پرحیرت کا اظہارکیا- وہ کہتے ہیں کہ واشنگٹن ان سے دیگر ملکوںکے بارے میں مسلسل وسیع پیمانے پر معلومات بھیجنے کا تقاضا کرتاہے،حالاں کہ یہ ناقابل فہم ہے کہ مختلف شخصیات کے کریڈٹ کارڈزکے نمبر وغیرہ جمع کرنے کا مطالبہ فارن سروس کے افسران سے کیوں کیا جارہا ہے جن کے پاس کسی طرح کی خفیہ معلومات جمع کرنے کی تربیت نہیں ہے-
اسی طرح مارچ 2008میں لکھے گئے ایک اور خط میں پیرا گوئے میں تعینات ایک سفارت کا ر سے پیراگوئے ،برازیل اور ارجنٹائن کے سرحدی علاقے میں القاعدہ ،حزب اللہ اور حماس کی موجودگی کے بارے میں بھی دریافت کیاگیا تھا-ان دستاویزات میں کئی ممالک کے سربراہوں کا مضحکہ بھی اڑایا گیا ہے -طرفہ تماشایہ کہ خفیہ دستاویز ات کے شائع ہوجانے اور امریکہ کے رازہاے سربستہ کے عیاں ہوجانے کے باوجود کسی بھی امریکی کا معذرت نامہ اب تک سامنے نہیں آسکا ہے بلکہ اس پر وکی لیکس اورخفیہ دستاویزات کاانکشاف کرنے والوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں-امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہاہے کہ دستاویزات عیاں کرنے والوں اور اس کا سبب بننے والوں کے خلاف سخت اور جارحانہ اقدامات کیے جائیں گے-دوسری طرف اپنے غیر اخلاقی بیانات اور احکامات کی زہر آلودگی کو کم کرنے کے لیے وہ یہ بھی کہنے سے نہیں کترارہی ہیں کہ امریکہ سمیت ہر ملک کو لازمی طور پر اس قابل ہو ناچاہیے کہ جن قوموں اور لوگوں کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں ان کے بارے میں بے تکلف گفتگو کرسکیں او رامریکہ سمیت ہر ملک کو لازمی طور پر اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ مشترکہ تحفظات پر ایمان داری کے ساتھ نجی بات چیت کرسکے-حالاں کہ اخلاقی طور پر انہیں ان ممالک سے معافی مانگنی چاہیے تھی جن کے بارے میں بھونڈے اور بھدے قسم کے جملوں کا استعمال کیا گیا ہے-یہ سب تماشا صرف دولت اور طاقت کا ہے جس کی بنا پر دیگر ممالک بھی ان خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے پر شتر مرغ کی طرح ریت میں سرچھپا لینا چاہتے ہیں کہ وہ تیکھے ،تلخ اورامریکہ مخالف بیانات دے کرجنگ وجدال مول خریدلینانہیں چاہتے -خیر مسلم ممالک میں تو یہ ہمت ہی نہیں کہ وہ ان دستاویزات کو سچ اورمبنی بر حقیقت تسلیم کرلیں اس لیے پاکستان نے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز سے منسوب صدر پاکستان زرداری سے متعلق بیان کو مسترد کردیا ہے-
واضح رہے کہ ان خفیہ دستاویزات کی جتنی تفصیل اب تک سامنے آسکی ہے اس میں سب سے زیادہ مسلم ممالک او رسربراہان کا کچاچٹھا ہے یہاں تک کہ فرانسیسی میڈیا نے کہا ہے کہ :
”ان رپورٹس کی روشنی میں بعض ممالک اور حکمرانوں کے متعلق عالمی سوچ بدل سکتی ہے تاہم اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلم ممالک کو ہوگا-ان کے درمیان نفرت اور اختلافات کھل کر سامنے آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور ان ممالک کے عوام میں پہلے سے موجود دوسرے ممالک کے حکمرانوں کے خلاف جذبات او رخدشات کو ہوا ملے گی-یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ان دستاویزات کے افشا کرنے کا اصل مقصد مسلم ممالک کے مابین دوریاں بڑھانا ہے-چوں کہ ان دنوں ایران سے سعودی عرب کے تعلقات میں پہلے سے بہتری اور استحکام نظر آرہاہے اور کبھی بھی مغربی ممالک مسلم دنیا کے اتفاق پر چین وسکون کی زندگی بسرنہیں کرسکتے-اس لیے یہ ایک طریقہ نکالا گیا ہے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے-وہ حقائق جنہیں اسلامی ممالک کے سربراہوں کے متعلق وکی لیکس نے جاری کیے ہیں انہیں اگر کوئی امریکی وزیریا حاکم کہتاتو سعودی اور متحدہ عرب ممالک کے تعلقات امریکہ سے تلخ ہوجاتے یاکم از کم وہ راز جسے شکوک کی نظروںسے دیکھاجاتاہے وہ کھل جاتا کہ امریکہ مسلم دنیا کے آپسی بہتر تعلقات کو پسند نہیں کرتا -اس لیے یہ کام وکی لیکس کے ذریعہ کرایا گیا-سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک کے پرندے دوسرے کسی ملک میں مار دیے جاتے ہیں یا شکار کرلیے جاتے ہیں تو اسے خبر ہوجاتی ہے اور لاکھوں خفیہ دستاویزات چوری کرلیے جاتے ہیں تو اسے اس کی بھنک تک نہیں لگتی- یہ بات ناقابل فہم ویقین ہے-دراصل یہ9/11کے بعد کا سب سے بڑا ڈرامہ ہے جسے خود امریکہ نے رچا ہے او رمہرہ وکی لیکس کو بنایا گیا ہے،تاکہ ایک ابھرتی ہوئی مسلم طاقت کو مسلم ممالک کے ذریعے ہی کچل دیا جائے یا عبداللہ بن عبد العزیز کے اصرار (امریکہ ایران پر حملہ کردے)پر ایران پائجامہ سے باہر آکر سعودی اور متحدہ عرب امارات کو دھمکی دے دے تو ہم دیگر مسلم ممالک کی خوش نودی کے حصول کے بعد ایران کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادیں ،حالاں کہ ان ممکنہ اور متوقع امکانات کے پیش نظر ایرانی صدر احمدی نژاد نے بر وقت اور عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ کہہ کر چور کے منھ پر کالک پوتنے کا عمل کیا ہے کہ ان دستاویزات سے ایران کے اپنے ہم سایہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر نہیں ہوںگے- ان خفیہ دستاویزات کو افشا کرنے والے وکی لیکس کے مقاصد کو جاننے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ وکی لیکس کیا ہے:
وکی لیکس(Wiki leaks)ایک تعارف ؟وکی لیکس کا کہناہے کہ وہ ایک بین الاقوامی بے لوث میڈیا آرگنائزیشن ہے-وہ خفیہ سینسرڈ،سیاسی،سفارتی اوراخلاقی اہمیت کے متعلق ممنوعہ اورغیر مطبوعہ دستاویزات بھی غیر معروف اور گمنام شخص سے قبول کرکے اسے منظرعام پرلاتی ہے-سویڈن میںاس ویب سائٹ کاقیام2006ءمیں عمل میں آیا-اسے سن شائن تنظیم چلاتی ہے-اس نے اپنی لاونچنگ کے ایک سال کے اندر ہی1.2میلین خفیہ دستاویزات اکٹھاکرنے کادعویٰ کیا-خفیہ طورپراس کے بانیوںمیں چین،متحدہ عرب امارات، تائیوان،یوروپ،آسٹریلیا،اور جنوبی افریقہ کے ٹکنالوجی کے ماہرین اور صحافی شامل ہیں اوروہی اس کامالی تعاون بھی کرتے ہیں-صرف ایک آسٹریلین شخصJulain Assangeڈائرکٹرکے طور پر بظاہر نظر آتا ہے-جولین اسانزے ۱۷۹۱ءمیں آسٹریلیا کے شہر کوئنس لینڈ میں پیدا ہوا جہاں اس کے والدین اپنی تھیٹر کمپنی چلاتے تھے لیکن اساسنزے کو نوجوانی سے ہی کمپیوٹر کا جنون تھا اس پر 1995ءمیں درجنوں ویب سائٹس ہیک کرنے کا الزام بھی لگ چکا ہے جس کے بعد اسے عدالت میں اعتراف اور جرمانہ ادا کرنا پڑا-39سالہ اسانزے کہیں مستقل قیام پذیر نہیں رہتا-عام طور پر اس کے پاس دو کیری بیگ رہتے ہیں جن میں سے ایک وہ اپنے کپڑے اور دوسرے کو لیپ ٹاپ کے لیے استعمال کرتا ہے-اسانزے1980ءکی دہائی کے آخر میں ہیکنگ کرنے والے گروپ ”انٹرنیشنل سروسیز“کا رکن بھی تھا،اس دوران1991ءمیں میل برن میں واقع اسانزے کے گھر پر آسٹریلیائی پولس نے چھاپہ بھی مارا-1996ءمیں اسانزے نے کمپیوٹر پر وگرامر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا-اس کے بعد اس نے 1999ءمیں لیکس ڈاٹ او آرجی نامی ڈومین رجسٹرڈ کرایا-
وکی لیکس کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے جن میں 2008ءکا ایکونومسٹ میگزین نیو میڈیا ایوارڈ،2009ءمیں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا یوکے میڈیا ایوارڈ،قابلِ ذکر ہیں -موخر الذکر ایوارڈ ویب سائٹ کے علاوہ اس کے بانی جولین اسانزے کو بھی دیا گیا – مئی 2010ءمیں دی نیویارک ڈیلی نیوز نے اسے خبروں کو مکمل طور پر تبدیل کرسکنے والی ویب سائٹس میں سرفہرست رکھا-
دسمبر2006ءمیں وکی لیکس کے پہلے ڈاکیومینٹ پوسٹ میں صومالیا کے سرکاری افسر کے قتل کے فیصلہ پر شیخ حسن داہری کے دست خط شدہ دستاویز عام کیے گیے- جنوری2007ءمیں پہلی مرتبہ یہ ویب سائٹ انٹرنیٹ پر جاری ہوئی-ان ہی ایام میں امریکی فوج کی خفیہ اطلاعات پہنچانے والے محکمہ میں متعین براڈلے میننگ نامی سپاہی نے امریکی فوج سے اپنی بر گشتگی کے بعد وکی لیکس کو عراق میں موجود امریکی فوجیوں کی خفیہ اطلاعات غیر معمولی تعداد میں بہم پہنچائی-اسے خفیہ اطلاعات اپنے کمپیوٹر پر منتقل کرنے کی پاداش میں گرفتار بھی کرلیا گیا- اب بھی اس سلسلہ میں اس پر مقدمہ چل رہا ہے ،پر لطف بات یہ ہے کہ مذکورہ فوجی سپاہی براڈ لے میننگ Bradley Meaningامریکی ہے -اپریل2010ءمیں اس نے2007ءکا ایک ویڈیو جاری کیا جس میں امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کی داستان ظلم وجبر قید تھی- اسی سال جولائی2010ءمیں 76,900خفیہ دستاویزات پر مبنی افغان جنگ ڈائری جاری کرکے پوری دنیامیں ہلچل مچادی،2008ءمیںامریکی انتخابات کے دوران اس نے ایک میل بکس کے خاکے جاری کیے تھے جن میں اس وقت کی نائب صدر کی امیدوار سارہ پالن کی تصاویراور اڈریس بک کے متعلق معلومات تھیں-
جنوری2009ءمیں یونائٹیڈ اسٹیٹس کے600دستاویزات عام کیے گیے،اسی سال ایسٹ انجلیایونیورسٹی کی کلائی میٹ ریسرچ یونٹ کے متنازعہ دستاویزات کو چھاپ دیا-جن میں ماہرین موسمیات کے مابین ای میل کے ذریعہ باتیں ہوئی تھیں-19ءمارچ2009ءکو مختلف ممالک کی غیر قانونی سائٹس کی فہرست جاری کی گئی 28جنوری2009ءکو پیرو کے قومی لیڈروں اور تاجروں کے درمیان86ٹیلی فونک ریکارڈنگ جاری کی اس میں پیٹروگیٹ آیل اسکینڈل سے متعلق باتیں تھیں یہ اسکینڈل 2008ءمیں ہواتھا-16جنوری2009ءکوایرانی نیوزایجنسی نے رپورٹ دی کہ ایران کے ایٹمک ایجنسی آرگنائزیشن کے سربراہ نے اپنی 12سالہ خدمات کے بعد اچانک استعفا دے دیا، بعد میں وکی لیکس نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ ایران میںزبردست ایٹمی دھماکہ ہواتھا،25نومبر2009ءکو اس نے 5.70لاکھ پیجر پیغامات عام کیے-یہ پیغامات9/11کے دن پنٹاگن افسروں اورنیویارک سٹی کے محکمہ پولس کے درمیان بھیجے گیے تھے-15مارچ2010ءکو امریکی محکمہ دفاع کی 32صفحات پر مشتمل خفیہ رپورٹ جاری کی گئی اس میں 2008ءکی کاونٹر انٹیلی جنس انالائسیس رپورٹ تھی- سب سے بڑا دھماکہ اس نے اس مرتبہ امریکہ کے لاکھوں خفیہ دستاویزات جاری کرکے کیا ہے جنہیں ہضم کرجانا پوری دنیا کے لیے باعث پریشانی ثابت ہورہا ہے-
موجود دستاویزات پر ایک طائرانہ نظر:2,51,287 خفیہ اطلاعات و دستاویزات 30نومبر کو وکی لیکس نے جاری کیے،جو گالیوں اور دشنام طراز یوں کا پلندہ ہے -غورطلب مقام ہے کہ ان دستاویزات میں کسی بھی ملک کے سربراہ کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا گیا ہے -عام طور پر غلط تاثر ہی دیگر ممالک کے سلسلہ میں امریکہ کا ہے جس سے خود امریکہ کی شرافت اور نمائشی تعلقات کا راز فاش ہوگیا ہے -ایسے ایسے ریمارکس ہیں جن کا تصور ایک شریف آدمی کر ہی نہیںسکتا چہ جائے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے سربراہ کے سلسلہ میںایسا کرے-ان حقائق کے منکشف ہونے سے انسانیت مجروح ہوئی ہے-گرچہ ان کا مقصد مسلم ممالک کے مابین منافرت پھیلانا رہا ہو مگر اس زمرے میں امریکہ بھی ننگاہوگیا ہے -ان میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کو ہٹلر سے یاد کیا گیا ہے ،فرانس کے صدر سرکوزی کو بے لباس بادشاہ بتایا گیا ہے-جرمنی کی چانسلر انجلینا مرکل کو کمزور حکمراں ،افغانی صدر حامد کرزئی کو دماغی خلل کا شکار اور لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی کل وقتی نرس ایک گرم حسینہ ہے -اس طرح کے افکار بہرحال غیر ذمہ داراور غیر مہذب ہی لوگوں کے ہوسکتے ہیں -خصوصی طور پر ان دستاویزات میں شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کے حوالہ سے دومسلم ملک کے سلسلہ میں بات سامنے آئی ہے -ایک تو یہ کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری دہشت گردی کے سدباب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں -دوسری یہ کہ سعودی فرماں روانے ایک سے زائدبار امریکہ سے اصرار کیا کہ آپ ایران پر حملہ کرکے اس کے نیو کلیائی تنصیبات کو تباہ وبرباد کردیں وہیں عادل الزبیر کے حوالہ سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ کہا کہ سعودی فرماں روا چاہتے ہیں کہ آپ لوگ سانپ کا سر کچل دیں -گرچہ ان دستاویزات کے سامنے آنے کے بعد سعودی وزارت خارجہ نے ان باتوں کی سخت انداز میں تردید کردی ہے وہیں صدر ایران محموداحمدی نژاد نے بھی کہا ہے کہ عرب ممالک مغرب اور امریکہ کے جھانسے میں نہ آئیں ان کا اصل مقصدہمارے باہمی تعلقات خراب کرناہے- ہمارے تعلقات پر وکی لیکس کا جادواثر انداز نہیں ہوگا-
وکی لیکس کے پاس ان اقوال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل نہیں ہیں اس لیے اس پر کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی-البتہ ایران وعرب کے بعض اختلافات کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے،تاکہ شیعوں کی اکثریت سعودی شاہ سے کم ازکم متنفر ضرور ہوجائے اور احمدی نژاد کے بیان کے بعد بھی بہت حد تک اس کی گنجائش باقی رہتی ہے-
ان امکانات کو مسلم ذہن سے کھرچ پھینکنے کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ اگر یقینا وکی لیکس کے یہ انکشافات جھوٹ ہیں تو سعود ی اس پر سخت اقدامات کرے اور اس کی گہرائی تک جائے کہ یہ وکی لیکس کی شرانگیزی ہے یا امریکی حکام کی کہ انہوں نے ہی ان اقوال کوسعودی شاہ سے منسوب کردیا-ورنہ مغرب اور اس کے ادارے اسی طرح جھوٹ منسوب کرکے ایک نہ ایک دن اپنے مقاصد واہداف میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے – ایران کب تک برداشت کرسکے گا-او ر یہ بھی امر اپنی جگہ مسلم ہے کہ ایران کے تباہ ہوجانے کے بعد 56مسلم ممالک میں سے کسی کے پاس یہ دم خم نہیں ہے کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے-آج حالات اس قدر عبرت ناک ہیں جس کا تصور ممکن نہیں -ہمارے کئی مسلم ممالک کے پاس دولت وثروت اور تیل کی زبر دست فراوانی ہے-لیکن وہ پھر بھی امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک کے دست نگرہیں-حالاں کہ یوروپ اور امریکہ عرب ممالک سے تیل اور دولت حاصل کرتے ہیں اور ان ہی پر رعب بھی جھاڑتے ہیں -اس سے بڑھ کر اور کیا مضحکہ خیز ہوسکتا ہے کہ سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کو آپریشن کرانا ہوتا ہے تو وہ امریکہ کا سفر کرتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ عرب میں تشفی بخش ذرائع علاج مہیا نہیں ہیںیا خود اپنے ملک کے ذرائع علاج سے شاہ عبداللہ مطمئن نہیں ہیں اس لیے وہ امریکہ کا سفر کرتے ہیں -بہر حال ان ہی ایام میں جب وکی لیکس کا ڈرامہ رونما ہوا شاہ سعودی کا امریکہ میں ہونا مصلحت سے خالی نہیں محسوس ہوتا-اب تک ان حقائق کا خلاصہ سامنے نہیں آسکا ہے اور نہ ہی آنے کی امید ہے چوں کہ 9/11ڈرامہ کے حقائق دس سال گزر جانے کے باوجود سامنے نہیں آسکے تو حالیہ ڈراموں کا سامنے آنا بھی آسان نہیں ہے-
بہت سے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہوگا کہ آخر کوئی ملک اپنے خلاف بھی سازش کیوں کرسکتا ہے تو اسے سمجھنے کے لئے9/11پر قائم کیے جانے والے شکوک کا مطالعہ ضروری ہے، ان کے مطالعہ سے سوچنے کا اندازبدلتا ہے او رقاری یہ سمجھ پاتا ہے کہ یہودی ومسیحی لابیز مسلمانوں کو بدنام کرنے اور انہیں پوری طرح مغرب زدہ ان کے ذہن پر آتاہے کہ کوئی اسلامی ملک خود کفیل بننے کی کوشش کررہا ہے تو وہ اس کے خلاف نت ئی سازشیں رچتے ہیں ،اپنی دھونس جمانے اور دوسروں کو کمزور وکمتر ثابت کرنے کے لیے مختلف اسلحے استعمال کرتے ہیں -پورا مغرب کلیسا کے سامنے سرنگوں ہوتاہے اور جب کوئی مسلم سربراہ قرآن ورسولﷺ کا اتباع کرتاہے تو اس کا عمل مغرب کے لیے ناقابل برداشت ہوتاہے ،مغرب کی یہ دوہر ی پالیسی کوئی نئی چیز نہیں ہے -بلکہ اس کے تبلیغی مشن کا ایک حصہ ہے -جسے وہ بڑے ہی شاطرانہ انداز میں سیکولر خول کے اندر لپیٹ کر مشرق کی طرف اچھال دیتاہے او رخول کو ہی دیکھ کر مشرقی اس کے دلدادہ ہوجاتے ہیں-بہرکیف اس سے قبل بھی امریکی ڈرامہ پر تجزیہ نگاروں نے بے تحاشا شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے جو دنیا کی مختلف زبانوں کی کتابوں اور رسائل وجرائد میں بکھرے پڑے ہیں البتہ9/11پر مبنی شکوک وشبہات کو کافی حد تک نذر الحفیظ ندوی نے اردو میں اپنی تصنیف مغربی میڈیا اور اس کے اثرات کے نئے ایڈیشن میں سمیٹاہے-
اس چوطرفہ بے چینی کے باوجود امریکہ کی خاموشی اور مسلم ممالک پر پیہم حملے شکوک وشبہات کو مزید ہوادیتے ہیں- البتہ مسلم دنیا حقائق جاننے کی خواہاں ضرور ہے-بہرحال ڈھائی لاکھ سے زائد خفیہ اطلاعات میں2,278کاٹھمنڈوکے امریکی سفارت خانہ سے اور 3325کولمبوکے امریکی سفارت خانہ سے،2220اسلام آبادکے امریکی سفارت خانہ سے اور 3038پیغامات ہندوستان کے امریکی سفارت خانہ سے جاری کیے گئے ہیں -ا ن خفیہ دستاویزات کو بعض 2006ءسے مارچ2010ءتک کے بتاتے ہیں او ربعض کا کہنا ہے کہ ان کی مدت28دسمبر1966ءسے شروع ہوتی ہے اور یہ دستاویزات 28فروری 2010ءتک کو محیط ہیں-
وکی لیکس ڈرامہ کے حقائق ومقاصد کیا ہیں؟ دقت نظر سے دیکھے جانے کے بعد کوئی بھی باشعور انسان یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان دستاویزات کا بیشتر حصہ ایسا ہے جسے پروپیگنڈے کے بغیر بھی عام کیا جاسکتا تھا لیکن اس کام کے لیے پوری دنیا کے میڈیا کا میدان میں آنا اور اس پر واویلا مچانا کسی خاص مقصدکے لیے ہے – تاریخ گواہ ہے کہ یوروپ وامریکہ کا یہ پرانا وتیرہ رہا ہے کہ وہ دوسروںکو لڑاتے ہیں اور حکومت کرتے رہتے ہیں – مزید یہ کہ افغانستان وعراق کی تباہی کو بھی عرصہ گزر چکا ہے- 56مسلم ممالک میں صرف ایک ایران ہی باقی ہے جو امریکہ کے کنٹرول سے باہر اور اس کے چشم وابرو کے اشاروں پر رقص کرنے کو تیار نہیں ہے -اسی لیے یہ ڈرامہ رچا گیا تاکہ تمام مسلم دنیا میں شیعہ سنی آپس میں ہی باہم دست وگریباں ہوجائیں اور ایران قوت برداشت کھو کر سعودی کو دھمکی بھی دے دے تو عرب ممالک کے موٹے دماغ والوں کی اجازت سے ایران پر حملہ کرنا آسان ہوجائے گا اس طرح اپنا مقصد بھی حل ہوجائے گا اور اگر ایران کی تباہی کے بعد وہاں بھی عراق کی طرح انسانیت سوز اور تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار دریافت نہ ہوسکے تو بعد میں ہمیں سبکی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گااو راس طرح وہ بش سے بہتر صدر امریکہ بھی ثابت ہوجائیں گے چوں کہ بش کو عراق پر دلائل کے بغیر حملہ کرکے بعد میں پوری دنیا کی طرف سے تنقید اور مذمت برداشت کرنا پڑی تھی-اور اس طرح مسلمانوں کو بھی خانوں میں تقسیم کرنا آسان ہوجائے گا-یہ تو دونوں رہنماوں سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز او ربالخصوص محموداحمدی نژاد کی دوراندیشی کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا میں شیعہ-سنی منافرت نہیں پھیل سکی- اگر محمود احمدی نژاد اس پر خاموشی اختیار کرلیتے یا اس پر سخت رد عمل کااظہار کرتے تو عن قریب محرم کے مہینہ میں شیعہ سنی اختلافات پھوٹ پڑتے اور انہیں جانی ومالی خسارے برداشت کرنے پڑتے-میرے اس خیال کو امریکہ کی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے اس بیان سے تقویت ملتی ہے کہ وہ ایک طرف وکی لیکس کے خلاف سخت اقدامات کی دھمکیاں دے رہی ہیں تو وہیں اس بات کی تصدیق بھی کررہی ہیں کہ ایران کے ہم سایہ عرب ممالک اس کے نیو کلیائی ایٹمی تنصیبات سے حددرجہ پریشان ہیں-یعنی وہ پس پردہ اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ یقینا شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز نے ایران پر حملہ کے لیے امریکہ سے اصرار کیا تھااورعادل الزبیرسفیرامریکہ برائے سعودیہ کی طرف بھی جو قول منسوب ہے وہ بھی سچ ہے -منظر عام پر آنے والے دستاویزات کے سیاق و سباق بہر حال اس جانب اشارہ کرتے ہیں ،ورنہ ایسے موقع پر جب مسلم دنیا خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ رہی ہو اس طرح کے بیانات آگ پر گھی کا کام کرتے ہیں- اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ عبد اللہ بن عبد العزیزکو امریکہ نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس طرح کے بیان پراکسایا ہو اور بعد میں اسے منظر عام پربھی لادیاگیا-جس وقت شاہ عبد اللہ بنفس نفیس امریکہ میں موجود تھے اور ان کے لیے پوری عمارت ہی مخصوص کرلی گئی تھی تاکہ غیر ضروری لوگوں کو یہ بھی پتہ نہ چل سکے کہ وہاں کیا ہورہا ہے او ربآسانی بیانات جاری کرائے جاسکیں-جولین اسانزے بھی لاپتہ ہوچکے ہیں یہ بھی ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ،کیا پتہ وہ خود کہیں فرار ہوا یا اسے انڈر گراونڈ کرادیا گیا-بہت ممکن ہے کہ میری اس تشویش پر بہت سے اذہان میںیہ سوال اٹھے کہ اس سے پہلے بھی امریکہ کے مظالم کو وکی لیکس سامنے لاچکا ہے پھر امریکہ اپنے مقاصد کے لیے اسے کیوںکر استعمال کرسکتا ہے تو اس سوال کا جواب بہت آسان ہے اور ہمارے گردو پیش میں ایسے حالات رونما ہوتے رہتے ہیں جب ایک نیتا دوسری پارٹی کے لیے سخت وسست کہتا رہتاہے لیکن آئندہ الیکشن میں وہ اپنے ذریعہ مخالفت کی جانے والی پارٹی کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہوتاہے-آج کی تاریخ میں ضمیر فروشی کی کوئی حد نہیں ہوتی انسان کسی بھی حد تک پہنچ جاتا ہے-بالخصوص اس وقت اسے اور بھی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ خود کو بے سہارا اور مالی واقتصادی طور پر کمزور محسوس کرتاہے- یہ بات بھی کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے کہ وکی لیکس بند بھی کیا جاچکا ہے او راس کے ایڈوائزری بورڈ کے ممبر کے طور پر صرف اسانزے ہی سامنے آئے ہیں- اس لیے یہ سوچنے کی بھی گنجائش اپنی جگہ باقی ہے کہ اندرونی طور پر خود امریکہ ہی اسے مالی تعاون کرتا ہو-پھر میڈیا کے حواس پر اس طرح اس کا چھاجانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہودی ومسیحی لابی کا دست مقدس اس کی پشت پرہے،ورنہ یہ دستاویزات اس طرح ہر فرد بشر کا موضوع سخن نہیں بن پاتے-بہرحال قابل تعریف ہیں محمود احمدی نژاد کہ ان کے محض ایک تردیدی بیان سے مسلمانوں کا خون آپسی قتال سے محفوظ رہا اور امریکہ ،اسرائیل اور دیگر یورپی ممالک کے خوابوں کا محل بھی ایک لمحہ میں زمیں بوس ہوگیا اور مظلوم فلسطین کے حق میں آوازاٹھانے والاایران بھی محفوظ رہا-جب مسلم دنیا کو آپس میں لڑا کر لطف اٹھانے والا مغرب کے ترکش کا آخری تیر بھی ہدف تک نہیں پہنچ سکا تو وہ بوکھلا کر ایران کو دھمکیاں دینے لگے کہ ایران محاذ آرائی اور عدم تعاون کا راستہ لازمی طور پر چھوڑ دے دھمکی آمیز اس جملہ کے بعد کیا کہا جاسکتا ہے وہ ہر شخص جانتااور اچھی طرح سمجھتابھی ہے- 30نومبر کے عین چار دن بعد4دسمبر کو یہ بیان عام کیا جانا اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ ڈرامہ فلاپ ہونے کے بعد پورامغرب بوکھلا گیا ہے-4دسمبر کو راشٹریہ سہارا نے ویانا (رائٹر)کے حوالہ سے ایک خبر شائع کیا ہے ،جس میں یہ بھی ہے کہ”مغرب کوشبہ ہے کہ ایران نیوکلیائی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے-جرمنی ،فرانس اور برطانیہ نے نیوکلیائی توانائی ایجنسی کی بورڈ میٹنگ میں ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اب کوئی متبادل راستہ نہیں رہ گیا-ایران کو لازماً سرگرم طریقہ سے اپنے نیوکلیائی پروگرام کی قطعی پرامن نوعیت کے تعلق سے مغرب کو اعتماد میں لیناہوگا“ظاہر ہے کہ تمام متبادل کا استعمال مغرب کرچکا ہے پھر بھی ایران تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہوسکی تو اب زور زبردستی سے کام لیا جائے گا-
مسلم دنیا کے مثبت رد عمل کی ضرورت ہے: مسلم دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوچنے سمجھنے اور مثبت عمل کے لیے یہ موقع غنیمت کے طور پر دیا گیا ہے اسے وہ محسوس کریںکہ داخلی وجزوی اختلافات چاہے جس حد تک بھی ہوں بہرحال ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کا ساتھ دے گا-ایسے موقع پر جب کہ خادم الحرمین ہر مسلم نگاہ سے گر جاتے نژاد کے ایک تردیدی بیان نے یہ ثابت کردیا ہے -اب مسلمانوں کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ،وہیں دوسری طرف ”الکفر ملة واحدة“کی حقیقت بھی سامنے آچکی ہے اس لیے وکی لیکس کے اس عمل کے اصل مقصد کو سمجھتے ہوئے آپسی اختلافات کو طاق نسیاں بنا کر مسلم ممالک”جَسَدواحد“کی عملی تفسیر پیش کریں اور ایران کو دوسرا عراق بننے سے بچائیں کہ اس کی تباہی بالواسطہ طورپرساری مسلم دنیا کی تباہی ٹھہرے گی-اگر ایران تباہ وبرباد ہوگیا تو ساری مسلم دنیا کی حالت 1947ءسے پہلے کے ہندوستان کی سی ہوجائے گی اور مسلم دنیا کی نہ صرف دولت بٹوری جائے گی بلکہ انہیں اچھوت اور غیر مہذب بھی ثابت کیا جائے گا-اور عرب و متحدہ عرب امارات ”ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم“ کے علاوہ کچھ نہیں کرسکیں گے-چوں کہ ان کے پاس نہ فوج ہے نہ اسلحہ،پھر وہ اپنا سو نا اوراپنا تیل بھی حاصل کرنے کے لیے امریکہ ویوروپ کی طرف بھوکے بھکاری کی طرح دیکھنے پر مجبور ہوجائیں گے-اور انہیں امریکہ کا ایک کتا بھی ڈرانے دھمکانے اور خوف زدہ کرنے کے لیے کافی ہوگا-اس لیے نہ صرف ایران کا ساتھ زبانی طور پر دیں بلکہ اسے مالی تعاون بھی کریں تاکہ وہ اپنے عزائم وارادے کو بہتر طریقے پر زمین پراتارسکے -اور زیادہ سے زیادہ نیو کلیائی تنصیبات کا تجربہ کرے-
سعودی ودیگر متحدہ امارات جن مفروضہ بدگمانیوں میں سانس لے رہے ہیں کہ انہیں ایران سے ہمہ وقت خطرات لاحق ہیں انہیں وہ اپنے ذہنوں سے نکال دیںوہ دشمن کی سازشوں کو سمجھیں ،مسلمہ امہ کی تباہی اور زوال کی داستانیں بہت طویل ہوچکی ہیں،ہمارے عالمی دشمن ہمیں بہت دنوں تک سے اپنی انگلیوں پر نچارہے ہیں تاخیر بہت ہوچکی ،لیکن آنکھیں کھولنے کا وقت اب بھی باقی ہے-اگر ہمیں روئے زمین پر اپنی داستان باقی رکھنی ہے تو ہمیں سنبھلنا ہی ہوگا اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم چلنا ہی ہوگا- چوں کہ ایران سب کچھ کرسکتا ہے-امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے ،اس کی سرزمین پر اسے ہی چیلنج کرسکتا ہے-اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں کرسکتا ہے،عراقی وکویتی اہل تشیع کا تعاون کرسکتا ہے مگر وہ رسول اور آل رسول کی سرزمین پر حملہ آورہوکر ان کے نقوش واثرات کو مٹانے کا سبب نہیں بن سکتا،اسے قندیل رہبانی سمجھ کر یک وتنہا نہ چھوڑیں یہ آئندہ مسلم دنیا کا سرمایہ افتخار بن سکتا ہے اس کی حفاظت کریں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کے سیاسی نظریات کے اتباع کے لیے خود کوتیار کریں ،چو ں کہ کسی بھی خوش حال ملک کے لیے صرف دولت کی ریل پیل ہی کافی نہیں ہوتی،اپنے دفاع کے لیے دفاعی ہتھیار کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے ،سیاسی بصارت وبصیرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے،یہ جبھی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم ”واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولاتفرقوا “پر عامل ہو کر اپنے ماضی کے اعلیٰ اقدار اور روایات پر نظر ڈالیں،اور”لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ “کی مضبوط ومستحکم کڑی کی اہمیت کو سمجھیں
NOORAIN ALI HAQUE: اپنوں کی ستم ظریفیاں اور علامہ فضل حق خیر آبادی چ...
NOORAIN ALI HAQUE: اپنوں کی ستم ظریفیاں اور علامہ فضل حق خیر آبادی چ...: نورین علی حق٭ دنیا میں ایسے ایسے بندگان خدا پیدا ہوتے رہے ہیں اور اپنے ذمہ کے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دے کر دنیا سدھار جاتے ہیں۔جن کی بع...
اپنوں کی ستم ظریفیاں اور علامہ فضل حق خیر آبادی چشتی
نورین علی حق٭
دنیا میں ایسے ایسے بندگان خدا پیدا ہوتے رہے ہیں اور اپنے ذمہ کے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دے کر دنیا سدھار جاتے ہیں۔جن کی بعض باتیں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں اور زبان زد خاص و عام ہوجاتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت بہار وجھارکھنڈ کے اس نمائندہ کنونشن میں اظہار مافی الضمیر کے لئے اور دل کے پھپھولے کی نمائش کے لئے کسی مرد قلندر کے اس شعر کے علاوہ اپنی لن ترانی بھی اچھی نہیں لگ رہی ہے کہ
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
آج ہر طرف شور ہے کہ حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کی شخصیت اور خدمات کو فراموش کردیا گیا ہے ۔اور اس کی بازیافت کی کوششوں میں ہم مصروف ہیں لیکن ایسے ماخذات کی کمی ہے۔جس کے ذریعہ ان پر گفتگو آگے بڑھائی جاسکے ،ان کے مجاہدانہ کردار کوہم نے ۱۹۴۷ کے بعد پیش کیا۔ ایسے میں آج ان کرم فرمائوں کی کمی نہیں جو سرے سے علامہ کے مجاہد انہ کردار سے انکار کرتے ہیں ،گوکہ علامہ کی ہمہ جہت شخصیت ناقابل فراموش ہے۔
حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی (۱۲۱۲ھ ؍۱۷۹۷ء؍۱۲۷۸ھ؍۱۸۶۱ء) ایک مردم خیز خانوادہ میں پیدا ہوئے، اعلی تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کئے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندستان کو انگریزوں کے پنجہ ناپاک سے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی ،عشق ومحبت رسول ﷺپر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ میں سوچتا ہوں کہ ان تمام مضبوط اور توانا امور کی انجام دہی کے باوجود انہیں پردہ خفا میں کیوں ڈال دیا گیا اور ایک جاہل،ان پڑھ شخص کو ہمارے علما بھی مولانا کے لقب کے ساتھ کیوں ملقب کرنے لگے تو جواب ملتا ہے کہ ڈیڑھ صدی تک ہمارے علما غیروں اور فضل حق مخالفین کو ہی پڑھتے رہے، جس کے نتیجہ میں ہمارے بزرگان دین اور علمائے کرام طاق نسیاں کی زینت بن کر رہ گئے۔
آپ یاد کریں حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے ۱۸؍رمضان ۱۲۴۰ھ ؍۱۹۲۵ء میں مسئلہ امکان نظیر اور مسئلہ شفاعت پر شاہ اسماعیل کی کتاب ’تقویہ الایمان ‘‘ کے خلاف فتوی کفر دیا جو ’’تحقیق الفتوی فی ابطال الصغوی ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوچکاہے ۔۱۸۲۵ء سے ۲۰۱۱ تک ہمارے علما تقویہ الایمان کی مخالفت سے تھکے نہیں ہیں اور مسلسل اس کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے ،حالاں کہ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ علامہ نے مخالفت کردی تھی ہم آگے بڑھتے، ان کی تصانیف کی اشاعت کا کام کرتے لیکن صدحیف ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد حضرت مولانا احمد رضاخاں فاضل بریلوی نے جن علمائے دیوبند پر کفر کا فتوی دیا تھا انہیں ہم کافر مان لیتے اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں لگ جاتے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا بلکہ ہم مفتی احمد رضاخاں کے بعد قاضی بن کرفتوئے کفر کانفاذ کرنے لگے اور اپنے اکابر کی تصانیف کو پڑھے بغیر ہی دیوبندیوں پر لٹھ چلانا شروع کردیا جس کا نقصان انہیں تو ہوا نہیں البتہ ہم دانش ور طبقہ میں کم ظرف اور کم فہم سمجھے جانے لگے اور اپنے بزرگوں کا دامن بھی ہمارے ہاتھوں سے جاتا رہا۔
تاریخی حقائق کے سہارے آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ فضل حق خیرآبادی پر ایک صدی تک کوئی قابل قدر کام نہیں ہوا ۔مولانا عبداللہ بلگرامی،مولانا برکات احمد ٹونکی ،مولانا سلمان اشرف اصدقی بہاری،مولانا عبدالحکیم شرف قادری،مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی،حکیم محمود احمد برکاتی کا وقیع کام خیر آبادیات پر ہے۔جولائق مستحسن قدم تو ہے لیکن ان کے ہاتھوں سے خیرآبادی کی ذات جاتی رہی ان میں مولانا عبدالشاہد خاں نے علامہ کی سوانح پر بھی کام کیا اور ان کا کام آج اولین ماخذ کے طور پر ہم پیش کرتے ہیں لیکن تحریک طور پر علامہ فضل حق کی شخصیت،علم وفضل سوانح اور مجاہدانہ زندگی کو اختیارکرنے کی طرف جس نے ہمیں متوجہ کیا وہ مولانا یسین اختر مصباحی ہیں ۔ذاتی طور پر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید مولانا یاسین اختر مصباحی اگر ندوۃ العلما لکھنؤ نہ جاتے تو آج بھی خیرآبادی وخیرآبادیات کی نشاۃ ثانیہ نہیں ہوتی۔
میں نے نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے مولاناکے ندوہ میں قیام کی شرط اس لئے لگائی چوں کہ وہاں جب ہم جاتے ہیں تو سید احمد بریلوی کے حوالے سے ہزاروں کی تعداد میں کاغذ سیاہ ملتے ہیں ،انہیں امیرالمومنین کہنے کے ساتھ خانقاہی وسنی علما کو بعض حضرات انگریزوں کا زرخرید غلام قرار دینے سے بھی نہیں کتراتے اس لئے وہاں ہمارا ضمیر پیچ و تاب کھاکر رہ جاتا ہے۔ قرین قیاس ہے کہ مصباحی صاحب نے بھی وہیںسے تحریک پاکر خیرآبادیات پر نئے سرے سے کام کا آغاز کیا اور خیرآبادیات کی تشہیر واشاعت اور علامہ فضل حق خیرآبادی کی شخصیت ہمارے اہم ایجنڈوں میں شامل ہوئی۔
آج وہ اندھیرا چھٹ رہا ہے روشنی کی کرن نظر آنے لگی ہے اس کے باوجود بے شمار کج کلاہان اہل سنت موجود ہیں جنہیں یک قطبیت کے سوا آج بھی کوئی دوسرا کام اچھا نہیں لگتا ۔
اس سلسلہ میں مولانا یاسین اختر مصباحی،ڈاکٹرسلمہ سیہول،پروفیسر ایوب قادری،ڈاکٹر معین الدین عقیل ،اور اسکالرز میں ڈاکٹر قمرالنسا بیگم ،ڈاکٹر محمد عبدالستار خاں،ڈاکٹر عبدالواحد چشتی ،ڈاکٹر عوض اللہ جاد المجازی،ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی،مولانا محمد احمد مصباحی،ڈاکٹر جہاں آرا بیگم،ڈاکٹر ارشاد احمد ساحل سہسرامی قابل ذکر اور لائق صدستائش ہیں جنہوں نے مختلف ناحیوں سے علامہ پرکام کیااور خیرآبادیات کو آگے بڑھانے میں ممدد ومعاون ثابت ہوئے ۔ان کے علاوہ مولانا اسید الحق محمد عاصم القادری اور مولانا خوشتر نورانی کی بالترتیب ’’خیرآبادیات‘‘ اور’’ علامہ فضل حق خیرآبادی ۔چند عنوانات‘‘ کے نام سے کتابیں آچکی ہیں ،دونوں معاصر محقق و ناقدنے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے خیرآبادیات کے بکھرے اوراق کو سمیٹا ہے۔جس کے نتیجہ میں علامہ کا ڈیڑھ سوسالہ یوم وفات یاد گار بن گیا ہے اور یہ سلسلہ دراز ہے۔اب بھی سمینارو سمپوزیم اور کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس فہرست میں زیادہ تر نام بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے بعد کے ہیں ،ایسے میں ظاہر ہے کہ کسی بھی شخصیت کے حوالہ سے سیکنڈ ہینڈ معلومات تو دی جاسکتی ہیں حقائق ومشاہدات پیش نہیں کیے جاسکتے ۔یہاں میں قطعی یہ نہیں کہنا چاہتا کہ جو کام سامنے آئے ہیں وہ غیر محقق اور مفروضہ ہیں ،میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے محققین وناقدین اور سوانح نگاران اس وقت خواب خرگوش سے بیدار ہوئے جب آزاد ہندوستان میں مسلمانوں اور مسلم نقوش سے نفرت وبغاوت کا پودا ثمر بار ہونے کو تھا اور حتی المقدور یہ کوششیں کی جارہی تھیں کہ مسلمانوں کی خدمات کی ایک ایک علامت ردی کی ٹوکری میں ڈال کر آگ کے حوالہ کردیاجائے ۔یہ تو خارجی ذہنیت تھی دوسری طرف داخلی سطح پر اس وقت تک سید احمد شہید ،اسماعیل شہید اور ان کے رفقاکو مجاہدین آزادی کی صفوں میں استحکام مل چکا تھا ۔اذاھبت ریح الایمان ،جب ایمان کی باد بہاری چلی ،سیرت سید احمد شہید ،سیرت احمدی جیسی کتابوں کی تصنیف پر پوری قوت وتوانائی جھونکی جاچکی تھی اور ایسے اسلوب وانداز میں یہ کتابیں لکھی گئی تھیں کہ ان پر آپ کو اعتراض بھی نہ ہو ،ان میں اپنے آباکی تعریفیں تو تھیں کھلے عام سنی وخانقاہی علما کی مذمتیں نہیں تھیں ،نام کی نشاندہی کے بغیر لفظ’’بدعتی ‘‘سے انہیں مخاطب کیا جارہا تھا ۔وقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم بھی انہی کے اسالیب وانداز اور مطمح نظر کو پیش نظر رکھ کر اپنے آبا اور علمائے اہل سنت کی سوانح اور خدمات کو موثر انداز میں پیش کرتے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ،ہم نے جہاں کہیں علامہ کی ذات وخدمات پر کچھ لکھنے کا ارادہ کیا تو علامہ کے حوالہ سے دلائل کی تلاش سے زیادہ ہم نے شاہ اسماعیل دہلوی کے weak pointsتلاش کیے اور پیش کش کا وہی پرانہ اور سوسالہ فرسودہ طرز اختیار کیا جس میں زمانہ کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیںتھی ۔ہر آن دنیا بدل رہی تھی ،لوگ اپنے بزرگوں کی تصانیف کو نئی زبان اور نیا تیور دینے میں کوشاں تھے ہم اس وقت بھی منطقی قیل وقال اور فتوی نویسی کی زبان استعمال کررہے تھے،ظاہر ہے خود ہماری تحریک ہمارے لیے وبال جان بن گئی اور وہ طبقہ جسے سنی ودیوبندی سے کوئی مطلب اور سروکارنہیں تھا وہ بھی محض ہمارے رویے اور زبان سے اکتا گیا اس نے بھی ہمارے بزرگوں پر کام کرنا گوارہ نہ کیا اور ہم راتوں کے جلسوں اور ھاوھو سے اتنے خوش گمان تھے کہ نشیمن لٹتا رہا اور ہم رات کے تھکے ماندے دن دن بھر بستر استراحت پر دراز رہے ۔اپنے ان نقائص پر ہم ایک محاسبانہ نظر ڈالیں اور کہیں کہ کیا ہم سے زیادہ دیگر لوگوں نے علامہ فضل حق خیرآبادی پر ظلم وستم کیا ہے ۔علامہ فضل حق خیر آبادی کا حق ہم نے اب بھی ادانہیں کیا ہے ۔بلکہ ڈیڑھ سوسال بعد باضابطہ کا م کاآغاز کیا ہے ۔
اخیر میں مولانا سیف الدین اصدق اور ان کے رفقا ے کارسمیت تمام باشندگان جمشید پورکو میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرنا چاہتاہوں جنہوں نے اس تحریک توازن کو آگے بڑھانے میں دلچسپی لی ہے۔
٭شوگر ہاسپٹل،چمیلیان روڈ ،باڑہ ہندو رائو،دہلی ۔۶
دنیا میں ایسے ایسے بندگان خدا پیدا ہوتے رہے ہیں اور اپنے ذمہ کے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دے کر دنیا سدھار جاتے ہیں۔جن کی بعض باتیں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں اور زبان زد خاص و عام ہوجاتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت بہار وجھارکھنڈ کے اس نمائندہ کنونشن میں اظہار مافی الضمیر کے لئے اور دل کے پھپھولے کی نمائش کے لئے کسی مرد قلندر کے اس شعر کے علاوہ اپنی لن ترانی بھی اچھی نہیں لگ رہی ہے کہ
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
آج ہر طرف شور ہے کہ حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کی شخصیت اور خدمات کو فراموش کردیا گیا ہے ۔اور اس کی بازیافت کی کوششوں میں ہم مصروف ہیں لیکن ایسے ماخذات کی کمی ہے۔جس کے ذریعہ ان پر گفتگو آگے بڑھائی جاسکے ،ان کے مجاہدانہ کردار کوہم نے ۱۹۴۷ کے بعد پیش کیا۔ ایسے میں آج ان کرم فرمائوں کی کمی نہیں جو سرے سے علامہ کے مجاہد انہ کردار سے انکار کرتے ہیں ،گوکہ علامہ کی ہمہ جہت شخصیت ناقابل فراموش ہے۔
حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی (۱۲۱۲ھ ؍۱۷۹۷ء؍۱۲۷۸ھ؍۱۸۶۱ء) ایک مردم خیز خانوادہ میں پیدا ہوئے، اعلی تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کئے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندستان کو انگریزوں کے پنجہ ناپاک سے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی ،عشق ومحبت رسول ﷺپر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ میں سوچتا ہوں کہ ان تمام مضبوط اور توانا امور کی انجام دہی کے باوجود انہیں پردہ خفا میں کیوں ڈال دیا گیا اور ایک جاہل،ان پڑھ شخص کو ہمارے علما بھی مولانا کے لقب کے ساتھ کیوں ملقب کرنے لگے تو جواب ملتا ہے کہ ڈیڑھ صدی تک ہمارے علما غیروں اور فضل حق مخالفین کو ہی پڑھتے رہے، جس کے نتیجہ میں ہمارے بزرگان دین اور علمائے کرام طاق نسیاں کی زینت بن کر رہ گئے۔
آپ یاد کریں حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے ۱۸؍رمضان ۱۲۴۰ھ ؍۱۹۲۵ء میں مسئلہ امکان نظیر اور مسئلہ شفاعت پر شاہ اسماعیل کی کتاب ’تقویہ الایمان ‘‘ کے خلاف فتوی کفر دیا جو ’’تحقیق الفتوی فی ابطال الصغوی ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوچکاہے ۔۱۸۲۵ء سے ۲۰۱۱ تک ہمارے علما تقویہ الایمان کی مخالفت سے تھکے نہیں ہیں اور مسلسل اس کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے ،حالاں کہ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ علامہ نے مخالفت کردی تھی ہم آگے بڑھتے، ان کی تصانیف کی اشاعت کا کام کرتے لیکن صدحیف ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد حضرت مولانا احمد رضاخاں فاضل بریلوی نے جن علمائے دیوبند پر کفر کا فتوی دیا تھا انہیں ہم کافر مان لیتے اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں لگ جاتے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا بلکہ ہم مفتی احمد رضاخاں کے بعد قاضی بن کرفتوئے کفر کانفاذ کرنے لگے اور اپنے اکابر کی تصانیف کو پڑھے بغیر ہی دیوبندیوں پر لٹھ چلانا شروع کردیا جس کا نقصان انہیں تو ہوا نہیں البتہ ہم دانش ور طبقہ میں کم ظرف اور کم فہم سمجھے جانے لگے اور اپنے بزرگوں کا دامن بھی ہمارے ہاتھوں سے جاتا رہا۔
تاریخی حقائق کے سہارے آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ فضل حق خیرآبادی پر ایک صدی تک کوئی قابل قدر کام نہیں ہوا ۔مولانا عبداللہ بلگرامی،مولانا برکات احمد ٹونکی ،مولانا سلمان اشرف اصدقی بہاری،مولانا عبدالحکیم شرف قادری،مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی،حکیم محمود احمد برکاتی کا وقیع کام خیر آبادیات پر ہے۔جولائق مستحسن قدم تو ہے لیکن ان کے ہاتھوں سے خیرآبادی کی ذات جاتی رہی ان میں مولانا عبدالشاہد خاں نے علامہ کی سوانح پر بھی کام کیا اور ان کا کام آج اولین ماخذ کے طور پر ہم پیش کرتے ہیں لیکن تحریک طور پر علامہ فضل حق کی شخصیت،علم وفضل سوانح اور مجاہدانہ زندگی کو اختیارکرنے کی طرف جس نے ہمیں متوجہ کیا وہ مولانا یسین اختر مصباحی ہیں ۔ذاتی طور پر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید مولانا یاسین اختر مصباحی اگر ندوۃ العلما لکھنؤ نہ جاتے تو آج بھی خیرآبادی وخیرآبادیات کی نشاۃ ثانیہ نہیں ہوتی۔
میں نے نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے مولاناکے ندوہ میں قیام کی شرط اس لئے لگائی چوں کہ وہاں جب ہم جاتے ہیں تو سید احمد بریلوی کے حوالے سے ہزاروں کی تعداد میں کاغذ سیاہ ملتے ہیں ،انہیں امیرالمومنین کہنے کے ساتھ خانقاہی وسنی علما کو بعض حضرات انگریزوں کا زرخرید غلام قرار دینے سے بھی نہیں کتراتے اس لئے وہاں ہمارا ضمیر پیچ و تاب کھاکر رہ جاتا ہے۔ قرین قیاس ہے کہ مصباحی صاحب نے بھی وہیںسے تحریک پاکر خیرآبادیات پر نئے سرے سے کام کا آغاز کیا اور خیرآبادیات کی تشہیر واشاعت اور علامہ فضل حق خیرآبادی کی شخصیت ہمارے اہم ایجنڈوں میں شامل ہوئی۔
آج وہ اندھیرا چھٹ رہا ہے روشنی کی کرن نظر آنے لگی ہے اس کے باوجود بے شمار کج کلاہان اہل سنت موجود ہیں جنہیں یک قطبیت کے سوا آج بھی کوئی دوسرا کام اچھا نہیں لگتا ۔
اس سلسلہ میں مولانا یاسین اختر مصباحی،ڈاکٹرسلمہ سیہول،پروفیسر ایوب قادری،ڈاکٹر معین الدین عقیل ،اور اسکالرز میں ڈاکٹر قمرالنسا بیگم ،ڈاکٹر محمد عبدالستار خاں،ڈاکٹر عبدالواحد چشتی ،ڈاکٹر عوض اللہ جاد المجازی،ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی،مولانا محمد احمد مصباحی،ڈاکٹر جہاں آرا بیگم،ڈاکٹر ارشاد احمد ساحل سہسرامی قابل ذکر اور لائق صدستائش ہیں جنہوں نے مختلف ناحیوں سے علامہ پرکام کیااور خیرآبادیات کو آگے بڑھانے میں ممدد ومعاون ثابت ہوئے ۔ان کے علاوہ مولانا اسید الحق محمد عاصم القادری اور مولانا خوشتر نورانی کی بالترتیب ’’خیرآبادیات‘‘ اور’’ علامہ فضل حق خیرآبادی ۔چند عنوانات‘‘ کے نام سے کتابیں آچکی ہیں ،دونوں معاصر محقق و ناقدنے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے خیرآبادیات کے بکھرے اوراق کو سمیٹا ہے۔جس کے نتیجہ میں علامہ کا ڈیڑھ سوسالہ یوم وفات یاد گار بن گیا ہے اور یہ سلسلہ دراز ہے۔اب بھی سمینارو سمپوزیم اور کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس فہرست میں زیادہ تر نام بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے بعد کے ہیں ،ایسے میں ظاہر ہے کہ کسی بھی شخصیت کے حوالہ سے سیکنڈ ہینڈ معلومات تو دی جاسکتی ہیں حقائق ومشاہدات پیش نہیں کیے جاسکتے ۔یہاں میں قطعی یہ نہیں کہنا چاہتا کہ جو کام سامنے آئے ہیں وہ غیر محقق اور مفروضہ ہیں ،میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے محققین وناقدین اور سوانح نگاران اس وقت خواب خرگوش سے بیدار ہوئے جب آزاد ہندوستان میں مسلمانوں اور مسلم نقوش سے نفرت وبغاوت کا پودا ثمر بار ہونے کو تھا اور حتی المقدور یہ کوششیں کی جارہی تھیں کہ مسلمانوں کی خدمات کی ایک ایک علامت ردی کی ٹوکری میں ڈال کر آگ کے حوالہ کردیاجائے ۔یہ تو خارجی ذہنیت تھی دوسری طرف داخلی سطح پر اس وقت تک سید احمد شہید ،اسماعیل شہید اور ان کے رفقاکو مجاہدین آزادی کی صفوں میں استحکام مل چکا تھا ۔اذاھبت ریح الایمان ،جب ایمان کی باد بہاری چلی ،سیرت سید احمد شہید ،سیرت احمدی جیسی کتابوں کی تصنیف پر پوری قوت وتوانائی جھونکی جاچکی تھی اور ایسے اسلوب وانداز میں یہ کتابیں لکھی گئی تھیں کہ ان پر آپ کو اعتراض بھی نہ ہو ،ان میں اپنے آباکی تعریفیں تو تھیں کھلے عام سنی وخانقاہی علما کی مذمتیں نہیں تھیں ،نام کی نشاندہی کے بغیر لفظ’’بدعتی ‘‘سے انہیں مخاطب کیا جارہا تھا ۔وقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم بھی انہی کے اسالیب وانداز اور مطمح نظر کو پیش نظر رکھ کر اپنے آبا اور علمائے اہل سنت کی سوانح اور خدمات کو موثر انداز میں پیش کرتے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ،ہم نے جہاں کہیں علامہ کی ذات وخدمات پر کچھ لکھنے کا ارادہ کیا تو علامہ کے حوالہ سے دلائل کی تلاش سے زیادہ ہم نے شاہ اسماعیل دہلوی کے weak pointsتلاش کیے اور پیش کش کا وہی پرانہ اور سوسالہ فرسودہ طرز اختیار کیا جس میں زمانہ کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیںتھی ۔ہر آن دنیا بدل رہی تھی ،لوگ اپنے بزرگوں کی تصانیف کو نئی زبان اور نیا تیور دینے میں کوشاں تھے ہم اس وقت بھی منطقی قیل وقال اور فتوی نویسی کی زبان استعمال کررہے تھے،ظاہر ہے خود ہماری تحریک ہمارے لیے وبال جان بن گئی اور وہ طبقہ جسے سنی ودیوبندی سے کوئی مطلب اور سروکارنہیں تھا وہ بھی محض ہمارے رویے اور زبان سے اکتا گیا اس نے بھی ہمارے بزرگوں پر کام کرنا گوارہ نہ کیا اور ہم راتوں کے جلسوں اور ھاوھو سے اتنے خوش گمان تھے کہ نشیمن لٹتا رہا اور ہم رات کے تھکے ماندے دن دن بھر بستر استراحت پر دراز رہے ۔اپنے ان نقائص پر ہم ایک محاسبانہ نظر ڈالیں اور کہیں کہ کیا ہم سے زیادہ دیگر لوگوں نے علامہ فضل حق خیرآبادی پر ظلم وستم کیا ہے ۔علامہ فضل حق خیر آبادی کا حق ہم نے اب بھی ادانہیں کیا ہے ۔بلکہ ڈیڑھ سوسال بعد باضابطہ کا م کاآغاز کیا ہے ۔
اخیر میں مولانا سیف الدین اصدق اور ان کے رفقا ے کارسمیت تمام باشندگان جمشید پورکو میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرنا چاہتاہوں جنہوں نے اس تحریک توازن کو آگے بڑھانے میں دلچسپی لی ہے۔
٭شوگر ہاسپٹل،چمیلیان روڈ ،باڑہ ہندو رائو،دہلی ۔۶
Subscribe to:
Posts (Atom)