نورین علی حق٭
دنیا میں ایسے ایسے بندگان خدا پیدا ہوتے رہے ہیں اور اپنے ذمہ کے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دے کر دنیا سدھار جاتے ہیں۔جن کی بعض باتیں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں اور زبان زد خاص و عام ہوجاتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت بہار وجھارکھنڈ کے اس نمائندہ کنونشن میں اظہار مافی الضمیر کے لئے اور دل کے پھپھولے کی نمائش کے لئے کسی مرد قلندر کے اس شعر کے علاوہ اپنی لن ترانی بھی اچھی نہیں لگ رہی ہے کہ
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
آج ہر طرف شور ہے کہ حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کی شخصیت اور خدمات کو فراموش کردیا گیا ہے ۔اور اس کی بازیافت کی کوششوں میں ہم مصروف ہیں لیکن ایسے ماخذات کی کمی ہے۔جس کے ذریعہ ان پر گفتگو آگے بڑھائی جاسکے ،ان کے مجاہدانہ کردار کوہم نے ۱۹۴۷ کے بعد پیش کیا۔ ایسے میں آج ان کرم فرمائوں کی کمی نہیں جو سرے سے علامہ کے مجاہد انہ کردار سے انکار کرتے ہیں ،گوکہ علامہ کی ہمہ جہت شخصیت ناقابل فراموش ہے۔
حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی (۱۲۱۲ھ ؍۱۷۹۷ء؍۱۲۷۸ھ؍۱۸۶۱ء) ایک مردم خیز خانوادہ میں پیدا ہوئے، اعلی تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کئے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندستان کو انگریزوں کے پنجہ ناپاک سے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی ،عشق ومحبت رسول ﷺپر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ میں سوچتا ہوں کہ ان تمام مضبوط اور توانا امور کی انجام دہی کے باوجود انہیں پردہ خفا میں کیوں ڈال دیا گیا اور ایک جاہل،ان پڑھ شخص کو ہمارے علما بھی مولانا کے لقب کے ساتھ کیوں ملقب کرنے لگے تو جواب ملتا ہے کہ ڈیڑھ صدی تک ہمارے علما غیروں اور فضل حق مخالفین کو ہی پڑھتے رہے، جس کے نتیجہ میں ہمارے بزرگان دین اور علمائے کرام طاق نسیاں کی زینت بن کر رہ گئے۔
آپ یاد کریں حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے ۱۸؍رمضان ۱۲۴۰ھ ؍۱۹۲۵ء میں مسئلہ امکان نظیر اور مسئلہ شفاعت پر شاہ اسماعیل کی کتاب ’تقویہ الایمان ‘‘ کے خلاف فتوی کفر دیا جو ’’تحقیق الفتوی فی ابطال الصغوی ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوچکاہے ۔۱۸۲۵ء سے ۲۰۱۱ تک ہمارے علما تقویہ الایمان کی مخالفت سے تھکے نہیں ہیں اور مسلسل اس کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے ،حالاں کہ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ علامہ نے مخالفت کردی تھی ہم آگے بڑھتے، ان کی تصانیف کی اشاعت کا کام کرتے لیکن صدحیف ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد حضرت مولانا احمد رضاخاں فاضل بریلوی نے جن علمائے دیوبند پر کفر کا فتوی دیا تھا انہیں ہم کافر مان لیتے اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں لگ جاتے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا بلکہ ہم مفتی احمد رضاخاں کے بعد قاضی بن کرفتوئے کفر کانفاذ کرنے لگے اور اپنے اکابر کی تصانیف کو پڑھے بغیر ہی دیوبندیوں پر لٹھ چلانا شروع کردیا جس کا نقصان انہیں تو ہوا نہیں البتہ ہم دانش ور طبقہ میں کم ظرف اور کم فہم سمجھے جانے لگے اور اپنے بزرگوں کا دامن بھی ہمارے ہاتھوں سے جاتا رہا۔
تاریخی حقائق کے سہارے آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ فضل حق خیرآبادی پر ایک صدی تک کوئی قابل قدر کام نہیں ہوا ۔مولانا عبداللہ بلگرامی،مولانا برکات احمد ٹونکی ،مولانا سلمان اشرف اصدقی بہاری،مولانا عبدالحکیم شرف قادری،مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی،حکیم محمود احمد برکاتی کا وقیع کام خیر آبادیات پر ہے۔جولائق مستحسن قدم تو ہے لیکن ان کے ہاتھوں سے خیرآبادی کی ذات جاتی رہی ان میں مولانا عبدالشاہد خاں نے علامہ کی سوانح پر بھی کام کیا اور ان کا کام آج اولین ماخذ کے طور پر ہم پیش کرتے ہیں لیکن تحریک طور پر علامہ فضل حق کی شخصیت،علم وفضل سوانح اور مجاہدانہ زندگی کو اختیارکرنے کی طرف جس نے ہمیں متوجہ کیا وہ مولانا یسین اختر مصباحی ہیں ۔ذاتی طور پر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید مولانا یاسین اختر مصباحی اگر ندوۃ العلما لکھنؤ نہ جاتے تو آج بھی خیرآبادی وخیرآبادیات کی نشاۃ ثانیہ نہیں ہوتی۔
میں نے نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے مولاناکے ندوہ میں قیام کی شرط اس لئے لگائی چوں کہ وہاں جب ہم جاتے ہیں تو سید احمد بریلوی کے حوالے سے ہزاروں کی تعداد میں کاغذ سیاہ ملتے ہیں ،انہیں امیرالمومنین کہنے کے ساتھ خانقاہی وسنی علما کو بعض حضرات انگریزوں کا زرخرید غلام قرار دینے سے بھی نہیں کتراتے اس لئے وہاں ہمارا ضمیر پیچ و تاب کھاکر رہ جاتا ہے۔ قرین قیاس ہے کہ مصباحی صاحب نے بھی وہیںسے تحریک پاکر خیرآبادیات پر نئے سرے سے کام کا آغاز کیا اور خیرآبادیات کی تشہیر واشاعت اور علامہ فضل حق خیرآبادی کی شخصیت ہمارے اہم ایجنڈوں میں شامل ہوئی۔
آج وہ اندھیرا چھٹ رہا ہے روشنی کی کرن نظر آنے لگی ہے اس کے باوجود بے شمار کج کلاہان اہل سنت موجود ہیں جنہیں یک قطبیت کے سوا آج بھی کوئی دوسرا کام اچھا نہیں لگتا ۔
اس سلسلہ میں مولانا یاسین اختر مصباحی،ڈاکٹرسلمہ سیہول،پروفیسر ایوب قادری،ڈاکٹر معین الدین عقیل ،اور اسکالرز میں ڈاکٹر قمرالنسا بیگم ،ڈاکٹر محمد عبدالستار خاں،ڈاکٹر عبدالواحد چشتی ،ڈاکٹر عوض اللہ جاد المجازی،ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی،مولانا محمد احمد مصباحی،ڈاکٹر جہاں آرا بیگم،ڈاکٹر ارشاد احمد ساحل سہسرامی قابل ذکر اور لائق صدستائش ہیں جنہوں نے مختلف ناحیوں سے علامہ پرکام کیااور خیرآبادیات کو آگے بڑھانے میں ممدد ومعاون ثابت ہوئے ۔ان کے علاوہ مولانا اسید الحق محمد عاصم القادری اور مولانا خوشتر نورانی کی بالترتیب ’’خیرآبادیات‘‘ اور’’ علامہ فضل حق خیرآبادی ۔چند عنوانات‘‘ کے نام سے کتابیں آچکی ہیں ،دونوں معاصر محقق و ناقدنے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے خیرآبادیات کے بکھرے اوراق کو سمیٹا ہے۔جس کے نتیجہ میں علامہ کا ڈیڑھ سوسالہ یوم وفات یاد گار بن گیا ہے اور یہ سلسلہ دراز ہے۔اب بھی سمینارو سمپوزیم اور کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس فہرست میں زیادہ تر نام بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے بعد کے ہیں ،ایسے میں ظاہر ہے کہ کسی بھی شخصیت کے حوالہ سے سیکنڈ ہینڈ معلومات تو دی جاسکتی ہیں حقائق ومشاہدات پیش نہیں کیے جاسکتے ۔یہاں میں قطعی یہ نہیں کہنا چاہتا کہ جو کام سامنے آئے ہیں وہ غیر محقق اور مفروضہ ہیں ،میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے محققین وناقدین اور سوانح نگاران اس وقت خواب خرگوش سے بیدار ہوئے جب آزاد ہندوستان میں مسلمانوں اور مسلم نقوش سے نفرت وبغاوت کا پودا ثمر بار ہونے کو تھا اور حتی المقدور یہ کوششیں کی جارہی تھیں کہ مسلمانوں کی خدمات کی ایک ایک علامت ردی کی ٹوکری میں ڈال کر آگ کے حوالہ کردیاجائے ۔یہ تو خارجی ذہنیت تھی دوسری طرف داخلی سطح پر اس وقت تک سید احمد شہید ،اسماعیل شہید اور ان کے رفقاکو مجاہدین آزادی کی صفوں میں استحکام مل چکا تھا ۔اذاھبت ریح الایمان ،جب ایمان کی باد بہاری چلی ،سیرت سید احمد شہید ،سیرت احمدی جیسی کتابوں کی تصنیف پر پوری قوت وتوانائی جھونکی جاچکی تھی اور ایسے اسلوب وانداز میں یہ کتابیں لکھی گئی تھیں کہ ان پر آپ کو اعتراض بھی نہ ہو ،ان میں اپنے آباکی تعریفیں تو تھیں کھلے عام سنی وخانقاہی علما کی مذمتیں نہیں تھیں ،نام کی نشاندہی کے بغیر لفظ’’بدعتی ‘‘سے انہیں مخاطب کیا جارہا تھا ۔وقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم بھی انہی کے اسالیب وانداز اور مطمح نظر کو پیش نظر رکھ کر اپنے آبا اور علمائے اہل سنت کی سوانح اور خدمات کو موثر انداز میں پیش کرتے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ،ہم نے جہاں کہیں علامہ کی ذات وخدمات پر کچھ لکھنے کا ارادہ کیا تو علامہ کے حوالہ سے دلائل کی تلاش سے زیادہ ہم نے شاہ اسماعیل دہلوی کے weak pointsتلاش کیے اور پیش کش کا وہی پرانہ اور سوسالہ فرسودہ طرز اختیار کیا جس میں زمانہ کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیںتھی ۔ہر آن دنیا بدل رہی تھی ،لوگ اپنے بزرگوں کی تصانیف کو نئی زبان اور نیا تیور دینے میں کوشاں تھے ہم اس وقت بھی منطقی قیل وقال اور فتوی نویسی کی زبان استعمال کررہے تھے،ظاہر ہے خود ہماری تحریک ہمارے لیے وبال جان بن گئی اور وہ طبقہ جسے سنی ودیوبندی سے کوئی مطلب اور سروکارنہیں تھا وہ بھی محض ہمارے رویے اور زبان سے اکتا گیا اس نے بھی ہمارے بزرگوں پر کام کرنا گوارہ نہ کیا اور ہم راتوں کے جلسوں اور ھاوھو سے اتنے خوش گمان تھے کہ نشیمن لٹتا رہا اور ہم رات کے تھکے ماندے دن دن بھر بستر استراحت پر دراز رہے ۔اپنے ان نقائص پر ہم ایک محاسبانہ نظر ڈالیں اور کہیں کہ کیا ہم سے زیادہ دیگر لوگوں نے علامہ فضل حق خیرآبادی پر ظلم وستم کیا ہے ۔علامہ فضل حق خیر آبادی کا حق ہم نے اب بھی ادانہیں کیا ہے ۔بلکہ ڈیڑھ سوسال بعد باضابطہ کا م کاآغاز کیا ہے ۔
اخیر میں مولانا سیف الدین اصدق اور ان کے رفقا ے کارسمیت تمام باشندگان جمشید پورکو میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرنا چاہتاہوں جنہوں نے اس تحریک توازن کو آگے بڑھانے میں دلچسپی لی ہے۔
٭شوگر ہاسپٹل،چمیلیان روڈ ،باڑہ ہندو رائو،دہلی ۔۶
No comments:
Post a Comment