Welcome

Welcome to my blog with Islamic greeting "Assalam-o alaikum warahmatullah-i wabarakatuh" (Noorain Alihaque)

Friday, 26 August 2011

مسلم ممالک کے ناگفتہ بہ حالات اور سربراہوں کی چنگیزیت


نورین علی حق
 دنیا کے جس خطے میں مسلمان بستے ہیں وہاں کی موجودہ صورت حال ناگفتہ بہ ہے ۔اس حقیقت کے برملا اعتراف کے طور پر مجھے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ معاصرمسلم دنیاکا منظر نامہ یہ ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ برسر اقدار ہیں وہاں وہ آپس میں ہی بر سر پیکار بھی ہیں اور جہاں وہ اقلیت کے طور پر زندگی بسر کررہے ہیں وہاں ان کے ساتھ ناانصافیاں روا رکھی جارہی ہیں ۔ انہیں کسی بھی طرح مین اسٹریم سے کاٹنے کی حتی الممکنات کوششیں کی جارہی ہیں ۔اور مغربی دنیا اپنے ان ناپاک عزائم کو یقینی بنانے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہے ۔قابل ذکر یہ ہے کہ اس میں بھی خود مسلمانوں کی سادہ لوحی ،جذباتیت پسندی ،تفہیم مسائل سے دوری ،عجلت پسندی کو بڑا دخل ہے ۔ انہی کمزوریوں کا یورپ ناجائز فائدہ اٹھا تا ہے اور جب مسلمانوں کو اس کادیر سویر ادراک ہوجاتا ہے تو وہ سڑکوں پر اتر کر مظاہرہ کرنا شروع کردیتے ہیں ،گوکہ اس میں  مسلم عوام کچلے جاتے ہیں اور ان کے قائدین دین وملت مورچہ کھول کر منظر سے پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور عوام بے چارے اپنے سینے گولیوں سے چھلنی کرتے ہیں یہ پوری تاریخ ہے ۔اگر اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی ذی عقل یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس طریقہ کی ایجاد یزید بن معاویہ سے ہوتی ہےجو میدان کربلا سے بذات خود دور تھا ۔آج پھر وہی طریقے اپنائے جارہے ہیں ،جس کی چھوٹی سی مثال لال مسجد ،پاکستان کی دی جاسکتی ہے کہ وہاں بھی قائدین منظر سے غائب تھے اور طلبہ کے سینے فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی ہورہے تھے ۔ایسا ہی کچھ عراق میں ہوا کہ عام فوجی اور عوام امریکا کا نشانہ بنتے رہے اور خود صدر محترم ایک کوہ سے ملے ۔بعد میں مصر اور اسی ڈگر پر فی الوقت لیبیااورشام بھی ہیں ۔جہاں پورے وثوق سے اعلان کیا جارہا ہے کہ معمر قذافی اور ان کے صاحب زادے محفوظ اور باغیوں کی پکڑ سے دور ہیں حالاں کہ یہ اعلان ہی چغلی کھا رہا ہے کہ لیبیا زیادہ تر معمر کے قبضہ سے نکل چکا ہے اور اب خود وہاں کے سربراہ کو جان کے لالے پڑے ہیں ،انہیں چھپنےکی ضرورت محسوس ہورہی ہے ان تمام درگتوں کے باوجود انہیں یہ توفیق نہیں ہورہی ہے کہ باغیوں کے مطالبے کوقبول کرکے مغرب کے خواب کو شرمندہ تعبیرنہ ہونےدیں ۔ تاکہ آئندہ بھی لیبیا مغرب کی راست مداخلت سے محفوظ رہ سکے۔
 اب تو حالات نازک ہوچکے ہیں اور مغرب کو توڑواور حکومت کرو کی حکمت عملی اختیار کرنے کا پورا موقع مل چکا ہے اب انہیں لیبیا میں اپنی چشم وابرو کے اشاروں پر ناچنے والے حکمراں کو کرسی اقتدار سونپنے سے کون روک سکتا ہے ؟بعد میں لیبیا کی نشاۃ ثانیہ کے نام پر جوکچھ ہو گا اس سے بھی دانش وران خوب اچھی طرح واقف ہیں ۔آج باغیوں کو پوشیدہ طور پر قذافی کے خلاف ابھا رااور اکسایا جارہا ہے اور انہیں تعاون بھی کیا جارہا ہے ۔
 لیکن جب قذافی سے باغی شکست کھا جائیں گے یا فتح حاصل کرلیں گے دونوں ہی صورت میںباگ ڈور بالآخر امریکا اور اس کے ہم نوائوں کے ہاتھوں میں جانی ہے چوں کہ اگر باغی ہارتے ہیں تو ان کے تعاون اورعوامی خواہشات کے نام پر امریکا لیبیا کے داخلی معاملات میں مداخلت کرےگا اور اگر باغی جیت جاتے ہیں تو وہاں معاہدوں اور تجارتی تبادلے کے نام پر پہنچ کر وہاں کی اقتصادیا ت کو توڑنے اور کمزور کرنے کا موقع ملے گا ۔ اس طور وہ لیبیا کولوٹنے میں کامیاب ہوسکیں گے ۔اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے ضروری تھاکہ مرض کے لاعلاجہونے اور ناسور بننےسے قبل اسلام کے شورائی نظام کو پیش نظررکھ کر انتخابات کرادینے چاہیئں اگر ایسا ہوتا تو آج اس قدر حالات خراب نہیں ہوتے کہ خود مسلمان مسلمانوں کے خون کے پیاسے نظر آرہے ہیں ۔
 ایسی صورت حال کا سامنا عالم اسلام کو ہر اس موقع پر کرنا پڑا ہے ۔جب جب اقتدار کے لالچی اور قرآنی واسلامی شورائی نظام کو طاق نسیاں کی زینت بنا کر حکومت کرنے والے افراد غالب ہوجاتے ہیں ۔اسلامی ممالک پرخلفائے راشدہ کے بعد زیادہ تر انہی غیر قرآنی نظام کی بالا دستی رہی ہے ۔اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ خلفائے راشدہ کے بعد ہر زمانے میں عیسائیوںویہودیوں کو مسلمانوں کے اندر بغاوت کا جذبہ پیدا کرنے کے بھر مواقع ملتے رہے ہیں ۔اسلامی اقتدار کے مالک کبھی عیسائی شاعر اخطل کے ساتھ شراب نوشی کرتے دیکھے گئے ہیں تو کبھی لارینس آف عربیہ عثمانی حکومت کے خاتمہ کے لئے مشورے دیتے نظر آئے ہیں آج کی موجودہ صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ عمومی طور پر تمام سربراہان مملکت اسلامیہ مغرب زدہ اور تمدن مغرب کو اپنے لئے لائق عمل سمجھتے ہیں اب ان کے لئے اسلامی اعمال ،تہذیب وتمدن،اخلاق،اطوار،آداب سب کچھ لائق شرم وعار ہوچکے ہیں ،ان کےلئے ان باتوں میں کوئی کشش نہیں ہے ۔ان کا علاج ،ان کی سیاحت ،ان کے بچوں کی تعلیم مغرب میں ہوتی ہے چوں کہ اسلامی تعلیمات اوراس کا طریقہ تعلیم ان کے بچوں کے قابل نہیں رہا ۔مرعوبیت ان کے رگ وریشے میں رچ بس گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہاں مالس ،فلم ہالز ،مغربی ماڈل گاڑیاں ،مغربی طرز تعمیر سے مزین عمارتیں، مغربی لباس تیارتو کئے جارہے ہیں ۔لیکن انہیں حکومت سازی اور اقتدار کی بحالی کے لئے اسلامی طریقے یاد نہیں آتے ۔حکومتوں اور حکومتی افراد کے لئے اسلام نے جو شرائط مقرر کی ہیں ،عوام کی خوش حالی ،اقتصادی بالاتری کے لئے انہیں اس کی چنداں فکر نہیںہوتی ۔نباض ملت اقبال نے کبھی کہا تھاکہ
نظام پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
آج ہر طرف یہی صورت حا ل پیدا ہوچکی ہے ۔دونوں ہی نظام کے تحت چلنے والی حکومتیں اسلام اور دین سے بیزار ہوچکی ہیں ۔حیرت یہ ہوتی ہے کہ آج کے اس زوال آمادہ زمانےمیں بھی اسلامیان دنیا کو خلفائے راشدین اور ان کی صاف وشفاف حکومتیں یاد نہیں آتیں ،انہیں جو حکومتیں متاثر کرتی ہیں ،ان کے بارے میں جمہور علما کا اتفاق ہے کہ وہ سلطنتیںتھیں ۔اسلامی نظام اسے قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اور یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ چنگیزیت کا دور دورہ ہے ۔عوام ایک تانا شاہ سربراہ کی تانا شاہی سے بور ہوچکے ہیں اور وہ اس عذاب الہی سے خود کو دور کرنا چاہتے ہیں ۔وہ ایک ماڈل نظام کے خواہاں ہیں ۔جس کے حصول کی ناکامی اور تصور کے خلاف حکومتی امور انجام دیے جاتے ہیں تو وہ سڑکوں پر اتر آتے ہیں ۔اسلامی ممالک کے حوالہ سے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہاں کی اکثریت کبھی بھی گمراہیوں اور بے دینیوں پر اتفاق نہیں کرسکتی اور جب تک مسلم ممالک کا قبلہ درست نہیں ہوجاتا تب تک اس طرح کے حالات پیدا ہوتے رہیں گے۔ مسلم ممالک میں جاری باغی سیلاب میں ہزاروں کی تعداد میں عوام بہہ چکے ہیں ،وہاں کی زمین عوام کے خون ناحق سے رنگین ہوچکی ہے لیکن سربراہوں کو اس کی فکر نہیں ہے اور یہی بے فکری اور بربریت ان کی نیا ڈبوئے گی ۔
alihaqnrn@yahoo.com