نورین علی حق
آج کے اخبارات میں یہ خبر بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے کہ تسلیمہ کے خلاف مہاراشٹر کے ۴۸؍پولیس اسٹیشنوں میں شکایت درج کرائی گئی ہے جب کہ ان میں سے چند تھانوں کے افسران کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی ہے ۔چند افراد پر مشتمل ایک وفد نے ملاقات کی تھی جسے ہم نےمشورہ دیا کہ آپ حکومتی سطح سے اس بات کو اٹھائیں تاکہ اسے بڑے پیمانہ پر اٹھایا جاسکے ۔
یہ سلسلہ اس بار رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ،خود تسلیمہ بھی حصول شہرت کے اس حسین موقع کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتیں،چوں کہ اس سے قبل ہی وہ ادب کے نام پر اپنے تمام ہفوات قارئین کے حوالہ کرچکی ہیں اور اب ان کی جھولی ان ہفوات سے بھی خالی ہے جن سے نئی نسل اورپرستان ہوس جھوٹی لذتوں سے شادکام ہوا کرتے تھے ۔اب وہ بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ انہیں مفت کی شہرت بہر حال مسلمانوں کو ٹھیس پہنچاکر ہی مل سکتی ہے ۔چوں کہ اگر وہ عیسائی ویہودی اعتقادات کو زک پہنچائیں گی تو ان کا حقہ پانی تو بند ہوگا ہی ان کی زندگی کے لالے بھی پڑ جائیں گے اور خواہ مخواہ جان سے ہاتھ دھونا پڑ جائے گا، جہاں تک ہندوازم کی مخالفت کی بات ہے تو اس وقت ان کا واحد ٹھکانہ ہندوستان کی سر زمین ہے ۔ اگرانہیں یہاں رہنا ہے تو ہندوتو کو خوش رکھنا ہی ہوگا ۔جس کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ قرآن وصاحب قرآن کا وہ مذاق اڑاتی رہیں اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں سو فی صد کامیاب ہیں ۔اس سلسلہ میں یہ بھی قابل غور ہے کہ ان کی زبان کی ترسیل جتنی جلدی ہندوستانیوں میں ہوگی اتنی آسانی سے عربوں میں نہیں ہوسکتی اس لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے سر پر مسلط رہیں اور وقتا فوقتا انہیں ان کی اوقات یاد دلاتی رہیں۔تاکہ ان کے مغربی آقائوں کے ذریعہ ان کی دال روٹی کا انتظام ہوتا رہے اور مسلمان مرغ بسمل کی طرح بے بسی میں چھٹپٹانے کے علاوہ کچھ بھی نہ کرسکیں ۔
یہ تمام باتیں تو سمجھ میں آتی ہیں ،ان کے برعکس یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمان انہیں مفت کی شہرت طشت میں سجا کر پیش کرنے کے لیے کیوں اتائولے ہوتے ہیں ؟وہ توبیان دے کر خاموش ہوجاتی ہیںاور شاید اس امید پر چین کی بانسری بھی بجاتی ہوںگی کہ اب آگے کاکام مسلمان کردیں گے اور مسلمان ہندوستان کے طول وعرض میںان کے خلاف جھنڈے لے کر نکل جاتے ہیں ،گوکہ ان کے احتجاجوں اور مظاہروں کا مثبت فائدہ کچھ نہیں ہوتا اور تمام اردو اخبارات کے صفحات کے صفحات بھی سیاہ ہوجاتے ہیں ۔
یہ بھی قرین قیاس ہے کہ چند مسلم لیڈران خود ہی ان مواقع کے متلاشی رہتے ہوں گے تاکہ انہیں بھی چھپنے چھپانے کا موقع ملتارہے اور ان کا بھی ملت کے بہی خواہوں میں شمار ہوتا رہے ۔تسلیمہ نے اس بار مسلم عورتوں کو بھونڈا سا ایک مشورہ دیا تھا تب سےاب تک ان کی مخالفتوں کا بازار گرم ہے ۔
فی الوقت مہاراشٹر کے پولیس افسران کی طرح مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ آپ اتنے بڑے معاملے کو انفرادی طور پر نہ اٹھائیں ۔پہلے اتحاد کی قوت مجتمع کریں ،غیر مفاد پرست علما کا ایک پینل بنائیں اور اس کے تحت ان کی مخالفت کریں اور ایسے افراد کو بھی اپنے احتجاج میں شامل کریں جو حکومتی سطح پر اثرورسوخ رکھتے ہوں تاکہ حکومت آپ کے مطالبات پر غور کرے اور دریدہ دہنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے ۔جس ڈھب پر ہم اب تک تسلیمہ نسرین ،سلمان رشدی اور ان جیسے بے شمار لوگوں کے خلاف احتجاج کرتے آئے ہیں، وہ موثر طریقہ کار ہے ہی نہیں ۔اس سے خود مسلمانوں کا خسارہ ہوتا ہے اور ایک آدھ ناخوش گوار واقعہ کے رونما ہونے کی وجہ سے پوری ملت بھی بدنام ہوجاتی ہے ۔اگرمذاہب کے خلاف دریدہ دہنی کی روک تھام کے لیے بین مذاہب کوئی موثر کوشش ہوسکتی ہے تو اسے بھی ہمیں آزمانا چاہیے ۔اس زوال آمادہ زمانے میں بھی تمام مذاہب کے ماننے والوں میں ایسے افراد ضرور ہیں جو کسی بھی مذہب کے خلاف ایک حرف سننے کے قائل نہیں ہیں ۔اس پہل سے آپ کی سعی اصل معنی میں رنگ لائے گی اور آپ اپنے مقاصد میں بھی کامیاب ہوں گے ۔ اس وقت اپنے مسائل کی صلیب انفرادی طور پر اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔اس وقت ہر سطح پر اتحاد کی ضرورت ہے ۔ہم کب تک غیر موثر طریقہ کا ر کو اختیار کرکے شر پسند عناصر کے مقاصد کے حل کا غیر شعوری حصہ بنتے رہیں گے ۔تھانوں کا چکر نہ لگا کر ہم سونیا گاندھی اور وزیر اعظم سے مداخلت کا مطالبہ کریں اور دوبہ دو گفتگو کریں کہ ہمارے مسائل حل کریں یا ہمارے پاس ووٹ کے لیے نہ آئیں ۔تسلیمہ نسرین جتنی شہرت اپنی تحریروں اور اپنے اسلوب سےحاصل نہیں کرسکیں اس سے زیادہ ہم نے ان کی مخالفت کے ذریعہ انہیں شہرت دی ہے ۔اگر ہم متحد ہوکر ان کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اب ہم ان کے معاملہ کو اللہ کے حوالہ کردیں اور ان کے بیانات کو پاگلوں کی بڑ سمجھ کر ان پر کان ہی نہ دھریں۔ ث
No comments:
Post a Comment