نورین علی حق
مودی کے سیاسی برت پر زیادہ تر سیاسی لیڈران کی رائے سے ہم محظوظ ہوچکے ہیں ۔آج کے اخبارات میں برت پر اچھا خاصا مواد اکٹھا ہوگیا ہے ۔ہندو ازم میں برت کا جو تصور ہے شاید مودی کے برت رکھنے سے وہ تصور بھی مجروح ہوا ہے۔مودی کے جرائم اتنےزیادہ اور سنگین ہیں کہ اسے برت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔خواہ میڈیا اس برت کی جتنی تشہیر کرلے اور احساس دلائے کہ مودی بنیادی طور پر بے قصور تھے او ر انہیں خواہ مخواہ کٹہرے میں کھڑا کیا جارہاتھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی ضمیر سب سے بڑا جج ہوتا ہے ۔ وہ وقتا فوقتا مجرم کو احساس ندامت کراہی دیتا ہے ۔یہ بھی طے ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کے وزارت عظمی کے عہدہ پر وہ فائز نہیں ہوسکتا ۔وہ یہ بھول رہا ہےکہ انسان مجبور ہوکر بہت سے کام تو کرلیتا ہے مگر وہ خوشی اسی کام میں محسوس کرتا ہے ۔جو وہ آزادی کے ساتھ کرتا ہے ۔ٹی وی چینلوں نے مسلم خواتین اور مردوں کو بھی مودی کے اسٹیج پر دکھایا اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ مسلمان گجرات واقعات کو بھول چکے ہیں ،خون کا ایک ایک قطرہ مسلمانوں کویاد ہے اور وہ وقت کے منتظر ہیں ،ابھی مودی جتنا چاہے برت رکھ لے الیکشن میں وہ زمین چاٹنے پر ضرور مجبور ہوجائے گا
جہاں تک شاہ نواز حسین کے معافی نامے کے ساتھ گجرات جانے کی بات ہے تو وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور وہ بی جے پی کے زرخرید غلام ہیں ان کا کوئی عمل مسلمانوں کے لئے لائق تقلید نہیں ہے ۔وہ بھی اگر مودی کی پوجا کرنے لگیں جب بھی یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ مسلمانوں نے مودی کو معاف کردیا ہے ۔عدالتیں گواہوں کی گواہی پر فیصلے صادر کیا کرتی ہیں اور مودی نے سارے ثبوت کانگریس کی تساہلی اور چشم پوشی کی وجہ سے مٹا دیا ہے ۔اس لئے بہت ممکن ہے کہ وہ عدالت سے بری کردیا جائے ۔اس کے باوجود ہر انصاف پسند کے دل میں وہ مجرم ہی رہے گا ۔
alihaqnrn@yahoo.com
No comments:
Post a Comment