Welcome

Welcome to my blog with Islamic greeting "Assalam-o alaikum warahmatullah-i wabarakatuh" (Noorain Alihaque)

Tuesday, 30 August 2011

NOORAIN ALI HAQUE: عید سعید کی سماجی اہمیت وافادیت

NOORAIN ALI HAQUE: عید سعید کی سماجی اہمیت وافادیت: نورین علی حق ایک ماہ کے مسلسل روزوں کے بعد اللہ تبارک وتعالی اپنے بندوں کوعیدکی شکل میںعارضی جزاعطافرماتا ہے تاکہ انہیں خوشیوں کا موقع م...

عید سعید کی سماجی اہمیت وافادیت

نورین علی حق 
 ایک ماہ کے مسلسل روزوں کے بعد اللہ تبارک وتعالی اپنے بندوں کوعیدکی شکل میںعارضی جزاعطافرماتا ہے تاکہ انہیں خوشیوں کا موقع ملے لیکن یہ بات بھی اسلام کے پیش نظر ہمیشہ رہتی ہے کہ امت محمدیہ کبھی بھی حد سے تجاوز نہ کرے ،منشائے خداوندی کے مطابق ہی زندگی کے ایام گزارے یہی وجہ ہے کہ خوشیوں کے مواقع پر بھی تمام غیر شرعی باتوں سے اجتناب کرنے اور معاشرہ کوساتھ لے کر چلنے کا حکم دیا گیا ہے ۔فطرے کی ادائیگی کی اصل منشا یہی ہے کہ معاشرے کے غربا بھی مین اسٹریم میں آجائیں اسلام کا نظام زکاۃ اور فطرہ نہ صرف غربا مسلمانوں کی تفریق کو مٹادینے والا ہے بلکہ اگر اس پر عمل در آمد کو یقینی بنا یا جائے تو مسلم معاشرے میں ایک بھی انسان غریب نہیں نظر آئےگا ۔
 یہ ساری باتیں تو خیر داخلی سطح کی ہیں ،ان احکامات کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔لیکن اس تکثیری معاشرے میں جہاں ہم بستے اور سانسیں لیتے ہیں اس معاشرے کے بھی کچھ تقاضے ہیں جنہیں ہمیں محسوس کرنا چاہئے چوں کہ پہلی صدی ہجری کےاسلامی معاشرے نے اسے ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ پہلی صدی ہجری کے مدینہ میں بھی مسلمان دیگر مذاہب کے متبعین کو اپنی خوشیوں میں شریک کرتے تھے ،انہیں بھی بحیثیت پڑوسی ان کا حق دیا کرتے تھے ۔تاریخ اسلامی کے اوراق گواہ وشاہد ہیں کہ رسول اسلام اور متبعین اسلام تازندگی پڑوسیوں کے حقوق پر روشنی ڈالتے رہے اور جہاں کہیں موقع ملا ایسا نمونہ پیش کیاکہ اس کے بعد اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ،اسلام کی عملی تاریخ ہمیںتعلیم دیتی ہے کہ ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیش کریں ،قومی یکجہتی کی عملی تصویر بن جائیں یہی منشائے دین ونبوت ہے اور یہی اسلامی اعمال پر پابندی اوراستحکام کا ایک ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے چوں کہ جب تک ہمارے روابط دیگر مذاہب کے متبعین سے خوش گوار نہیں ہوں گے ہمیں اسلامی اعمال کی ادائیگی میں ضرور دشواریاں آئیں گی ۔اس لئے ہمارے تعلقات برادران وطن سے بہتر ہونے چاہئیں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اسلام نے اسے سرے سے خارج از امکان قراردیا ہے ۔مگر ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔
 ہم عید کے بعد عرصہ تک عید ملن کی تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں ،سیاسی پارٹیاں بھی اس میں دلچسپی لیتیہیں ،ہندوستان گیر سطح کے رہنمائوں ،وزیر اعظم ،وزرائے اعلی ،سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کی رہائش گاہوں پر عید کی مناسبت سے دعوتیںہوتیہیں ۔لیکن وہ یہ سب نہ کریں جب بھی  ایک ہیں اور آئندہ بھی حصول مقصد کے لیےمتحد رہیں گے ،مسئلہ ان کے دلوں کو جوڑنے کا ہے جن کے دل بعض مواقع پر ٹوٹتے ہیں اور اس کے ذمہ دار بعض دفعہ ہمارے سیاسی رہنما ہی ہوتے ہیں ۔ایسے میں ہمارے بزرگان دین کے اعمال ہمارے لئے نمو نہ عمل بن سکتے ہیں ۔چوں کہ انہوں نے جس اندازسے ہندوستانی عوام کا دل جیتا ہے ،اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔
 موجودہ تناظر میں عید محض بال بچوں کے ساتھ خوشیا ں منانے کا نام نہیں ہے ۔اس کو موقع غنیمت سمجھ کر برادران وطن کے مابین زیادہ سے زیادہ اخوت ،بھائی چارگی ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے جذبات پیش کریں ۔ہندوستان میں عید کو بلا تفریق مذہب وملت منانےکی روایت ملتی ہے اور یہ روایت نہ صرف سراہے جانے کے لائق بلکہ لائق عمل بھی ہے ۔عید کے موقع کو تکثیریت پسند بنایا جانا چاہئےاس کو تبلیغ دین کا بھی ذریعہ بنایا جاسکتا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ہم اپنے مدعو کے ممدوح نہیں ہوں گے وہ ہماری باتیں نہیں سن سکتے ۔
 ایک زمانہ تھا جب بزرگان دین کی شخصیات اتنی پر کشش تھیں کہ بلا تفریق مذاہب عوام ان کےپاس آتے تھے اور ان سے دعائیں لیتے تھے، ان سے مستفید ہوتے تھے،ان سے علوم وفنون سیکھتے تھے ،شب وروز کی مصاحبت اور ان کے اعمال وافعال اور کردار سے متاثرہوکر بالآخر اسلامی زنبیل کےقیدی ہوجاتے تھے ۔لیکن المیہ یہ ہوا کہ ان نفوس قدسیہ کے بعد ویسی موثر شخصیات کو پیدا کرنا اسلامی معاشرہ نے چھوڑ دیا دیگر اقوام کی طرح مسلمانوں کے اندر سے بھی احساس سودوزیاں جاتا رہا ۔وہ بھی خودی کھو بیٹھے اب بس نام کے وہ مسلمان تو تھے ان میں وہ عزائم وارادے نہیں تھے جن کے لئے ان کے آبا یہاں ہمیشہ معروف رہے ہیں ۔اس مستزاد یہ کہ اپنی حکومت و سلطنت کو ہمیشگی پر مبنی سمجھنے والے سلاطین نے دیگر اقوام ومذاہب کے متبعین کے دلوں میں نفرت کا شعلہ فشاں پیدا کرنےکاسبب بنے۔اس وقت تو معاملہ مسلمانوں کی سمجھ سے باہر تھا اور یہ طویل سلطنت کے خمار میں مست تھے لیکن آنے والے وقتوں میں حالات نے بتا دیا کہ اب بادشاہت ختم ہوچکی ہے اور اس ہندوستان میں اب جینا ہے تو صوفیہ کے طریقہ کار کے مطابق جینا ہوگا بصورت دیگر تمام حالات تمہارے خلاف ہوں گے ۔
 بہر حال اس صورت حال کے اختتام کے لیےعید ،بقرعید ،جشن عید میلادالنبی کے مواقع کو ایام دعوت وتبلیغ کے طور پر منایا جائے اور اس میں دیگر اقوام کو اعتماد میں لیا جائے صرف مسلم محلوں کے اپنے رشتہ داروں کی سویوں،مٹھائیوں،شیرکیضیافت سےاب بات نہیں بنے گی اب مسلم محلوں سے باہر نکلنا ہوگا اور دلتوں کو گلے لگانا ہوگا ،عید کی مناسبت سے گلیوں اور چوراہوں کو صاف کرنے والوں کو عیدی سے نوازنا اور انہیں بھی گلے لگانا ہوگا تبھی بات بنے گی چوں کہ وہ آج بھی احساس کمتری میں جیتے ہیں اور اسلام نے سب سےبڑا جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ یہی ہے کہ اس نے بے سہاروں کو سہارا دیا ،معاشرے کے دبے کچلے عوام کو جینے کاطریقہ ،سلیقہ اور حوصلہ دیاانہیں اپنے وقت کے چودھریوں کے چنگل سے آزاد کرایا ۔کیا آج ہم اسوصف اسلام کو مزید مستحکم نہیں بناسکتے ؟ـ
 یہ منظر دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ مسلم عوام مساجد سے نماز عید الفطر ادا کرکے نکلتے ہیں اور وہاں پرموجود لاٹھی ،ڈنڈوں سے لیس پہریدار پولیس اہلکار کو نظر انداز کرکےاپنے گھروں کی راہ لے لیتےہیں ۔حالاں کہ ان اوقات میں اگر کوئی ان کا تعلقاتی مل جاتا ہے تو وہ ان سے مصافحہ ومعانقہ کرتے ہیں لیکن وہ پولیس والوں کو اس لائق نہیں سمجھتے گو کہ اس وقت وہ مسلم محلوں میں آن ڈیوٹی ہوتے ہیں اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اس لیے اگر کوئی مسلمان ان سے معانقہ کرنا چاہے تو وہ چاہ کربھی انکار نہیں کرسکتے مگر ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ قومی بھائی ہونےکی حیثیت سے ہماری محبت اور اخوت کے حق دار یہ بھی ہیں اور انہیں ان کے حق سے محروم کرنے کاہمیں کوئی حق نہیں ۔ان سطروں کو لکھتے ہوئے مجھےاپنے بھائیوں عاطف وساجد ،عشرت جہاں ،بٹلہ ہائوس کا فرضی انکائونٹر ،گجرات فرضی انکائونٹر،گجرات فسادات اور ملک میں روارکھے جانے والے مظالم کے سینکڑوں واقعات ذہن کے پردے پر ابھررہے ہیں اور کل کی طرح آج بھی لائق مذمت اور ناقابل فراموش ہیں لیکن کیا اس کے کچھ ہم خود بھی ذمہ دار نہیں کہ آ ج کا مسلمان اپنا صحیح تعارف بھی کرانے سے قاصر ہے، رسول اعظم اور خاندان نبوت کے اکابر نے جو تاثرات قائم کئے تھے انہیں ہماری بد اعمالیوں کی نظر بد لگ گئی اوربزرگوں کا دیا ہوا بھرم بھی ہم نے سرعام نیلام کردیا ۔ایسے حالات میں عزت ووقار کی بازیافت اور بحالی کے لئے ضروری ہے کہ ہم مغلوب اور سطحی افکار و نظریات سے باہر نکلیں اور آنے والی نسلوں کو بھی سمت مخالف میں بہنے والے سمندر میں رہ کر  پورےتشخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا درس دیں ، ہماری قومی اور ملی کامیابی یہی ہے ۔ عید کی خوشیوں سے ہندوستان کاچپہ چپہ اور اس کے تمام بسنے والےجب تک سرشار نہیں ہوں گے تب تک  عید کی سماجی اہمیت و افادیت پوری طرح عیاں نہیں ہوسکتی اورنہ مسلمان اس سے بھر پور لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔
alihaqnrn@yahoocom,9210284453
 

Friday, 26 August 2011

مسلم ممالک کے ناگفتہ بہ حالات اور سربراہوں کی چنگیزیت


نورین علی حق
 دنیا کے جس خطے میں مسلمان بستے ہیں وہاں کی موجودہ صورت حال ناگفتہ بہ ہے ۔اس حقیقت کے برملا اعتراف کے طور پر مجھے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ معاصرمسلم دنیاکا منظر نامہ یہ ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ برسر اقدار ہیں وہاں وہ آپس میں ہی بر سر پیکار بھی ہیں اور جہاں وہ اقلیت کے طور پر زندگی بسر کررہے ہیں وہاں ان کے ساتھ ناانصافیاں روا رکھی جارہی ہیں ۔ انہیں کسی بھی طرح مین اسٹریم سے کاٹنے کی حتی الممکنات کوششیں کی جارہی ہیں ۔اور مغربی دنیا اپنے ان ناپاک عزائم کو یقینی بنانے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہے ۔قابل ذکر یہ ہے کہ اس میں بھی خود مسلمانوں کی سادہ لوحی ،جذباتیت پسندی ،تفہیم مسائل سے دوری ،عجلت پسندی کو بڑا دخل ہے ۔ انہی کمزوریوں کا یورپ ناجائز فائدہ اٹھا تا ہے اور جب مسلمانوں کو اس کادیر سویر ادراک ہوجاتا ہے تو وہ سڑکوں پر اتر کر مظاہرہ کرنا شروع کردیتے ہیں ،گوکہ اس میں  مسلم عوام کچلے جاتے ہیں اور ان کے قائدین دین وملت مورچہ کھول کر منظر سے پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور عوام بے چارے اپنے سینے گولیوں سے چھلنی کرتے ہیں یہ پوری تاریخ ہے ۔اگر اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی ذی عقل یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس طریقہ کی ایجاد یزید بن معاویہ سے ہوتی ہےجو میدان کربلا سے بذات خود دور تھا ۔آج پھر وہی طریقے اپنائے جارہے ہیں ،جس کی چھوٹی سی مثال لال مسجد ،پاکستان کی دی جاسکتی ہے کہ وہاں بھی قائدین منظر سے غائب تھے اور طلبہ کے سینے فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی ہورہے تھے ۔ایسا ہی کچھ عراق میں ہوا کہ عام فوجی اور عوام امریکا کا نشانہ بنتے رہے اور خود صدر محترم ایک کوہ سے ملے ۔بعد میں مصر اور اسی ڈگر پر فی الوقت لیبیااورشام بھی ہیں ۔جہاں پورے وثوق سے اعلان کیا جارہا ہے کہ معمر قذافی اور ان کے صاحب زادے محفوظ اور باغیوں کی پکڑ سے دور ہیں حالاں کہ یہ اعلان ہی چغلی کھا رہا ہے کہ لیبیا زیادہ تر معمر کے قبضہ سے نکل چکا ہے اور اب خود وہاں کے سربراہ کو جان کے لالے پڑے ہیں ،انہیں چھپنےکی ضرورت محسوس ہورہی ہے ان تمام درگتوں کے باوجود انہیں یہ توفیق نہیں ہورہی ہے کہ باغیوں کے مطالبے کوقبول کرکے مغرب کے خواب کو شرمندہ تعبیرنہ ہونےدیں ۔ تاکہ آئندہ بھی لیبیا مغرب کی راست مداخلت سے محفوظ رہ سکے۔
 اب تو حالات نازک ہوچکے ہیں اور مغرب کو توڑواور حکومت کرو کی حکمت عملی اختیار کرنے کا پورا موقع مل چکا ہے اب انہیں لیبیا میں اپنی چشم وابرو کے اشاروں پر ناچنے والے حکمراں کو کرسی اقتدار سونپنے سے کون روک سکتا ہے ؟بعد میں لیبیا کی نشاۃ ثانیہ کے نام پر جوکچھ ہو گا اس سے بھی دانش وران خوب اچھی طرح واقف ہیں ۔آج باغیوں کو پوشیدہ طور پر قذافی کے خلاف ابھا رااور اکسایا جارہا ہے اور انہیں تعاون بھی کیا جارہا ہے ۔
 لیکن جب قذافی سے باغی شکست کھا جائیں گے یا فتح حاصل کرلیں گے دونوں ہی صورت میںباگ ڈور بالآخر امریکا اور اس کے ہم نوائوں کے ہاتھوں میں جانی ہے چوں کہ اگر باغی ہارتے ہیں تو ان کے تعاون اورعوامی خواہشات کے نام پر امریکا لیبیا کے داخلی معاملات میں مداخلت کرےگا اور اگر باغی جیت جاتے ہیں تو وہاں معاہدوں اور تجارتی تبادلے کے نام پر پہنچ کر وہاں کی اقتصادیا ت کو توڑنے اور کمزور کرنے کا موقع ملے گا ۔ اس طور وہ لیبیا کولوٹنے میں کامیاب ہوسکیں گے ۔اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے ضروری تھاکہ مرض کے لاعلاجہونے اور ناسور بننےسے قبل اسلام کے شورائی نظام کو پیش نظررکھ کر انتخابات کرادینے چاہیئں اگر ایسا ہوتا تو آج اس قدر حالات خراب نہیں ہوتے کہ خود مسلمان مسلمانوں کے خون کے پیاسے نظر آرہے ہیں ۔
 ایسی صورت حال کا سامنا عالم اسلام کو ہر اس موقع پر کرنا پڑا ہے ۔جب جب اقتدار کے لالچی اور قرآنی واسلامی شورائی نظام کو طاق نسیاں کی زینت بنا کر حکومت کرنے والے افراد غالب ہوجاتے ہیں ۔اسلامی ممالک پرخلفائے راشدہ کے بعد زیادہ تر انہی غیر قرآنی نظام کی بالا دستی رہی ہے ۔اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ خلفائے راشدہ کے بعد ہر زمانے میں عیسائیوںویہودیوں کو مسلمانوں کے اندر بغاوت کا جذبہ پیدا کرنے کے بھر مواقع ملتے رہے ہیں ۔اسلامی اقتدار کے مالک کبھی عیسائی شاعر اخطل کے ساتھ شراب نوشی کرتے دیکھے گئے ہیں تو کبھی لارینس آف عربیہ عثمانی حکومت کے خاتمہ کے لئے مشورے دیتے نظر آئے ہیں آج کی موجودہ صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ عمومی طور پر تمام سربراہان مملکت اسلامیہ مغرب زدہ اور تمدن مغرب کو اپنے لئے لائق عمل سمجھتے ہیں اب ان کے لئے اسلامی اعمال ،تہذیب وتمدن،اخلاق،اطوار،آداب سب کچھ لائق شرم وعار ہوچکے ہیں ،ان کےلئے ان باتوں میں کوئی کشش نہیں ہے ۔ان کا علاج ،ان کی سیاحت ،ان کے بچوں کی تعلیم مغرب میں ہوتی ہے چوں کہ اسلامی تعلیمات اوراس کا طریقہ تعلیم ان کے بچوں کے قابل نہیں رہا ۔مرعوبیت ان کے رگ وریشے میں رچ بس گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہاں مالس ،فلم ہالز ،مغربی ماڈل گاڑیاں ،مغربی طرز تعمیر سے مزین عمارتیں، مغربی لباس تیارتو کئے جارہے ہیں ۔لیکن انہیں حکومت سازی اور اقتدار کی بحالی کے لئے اسلامی طریقے یاد نہیں آتے ۔حکومتوں اور حکومتی افراد کے لئے اسلام نے جو شرائط مقرر کی ہیں ،عوام کی خوش حالی ،اقتصادی بالاتری کے لئے انہیں اس کی چنداں فکر نہیںہوتی ۔نباض ملت اقبال نے کبھی کہا تھاکہ
نظام پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
آج ہر طرف یہی صورت حا ل پیدا ہوچکی ہے ۔دونوں ہی نظام کے تحت چلنے والی حکومتیں اسلام اور دین سے بیزار ہوچکی ہیں ۔حیرت یہ ہوتی ہے کہ آج کے اس زوال آمادہ زمانےمیں بھی اسلامیان دنیا کو خلفائے راشدین اور ان کی صاف وشفاف حکومتیں یاد نہیں آتیں ،انہیں جو حکومتیں متاثر کرتی ہیں ،ان کے بارے میں جمہور علما کا اتفاق ہے کہ وہ سلطنتیںتھیں ۔اسلامی نظام اسے قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اور یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ چنگیزیت کا دور دورہ ہے ۔عوام ایک تانا شاہ سربراہ کی تانا شاہی سے بور ہوچکے ہیں اور وہ اس عذاب الہی سے خود کو دور کرنا چاہتے ہیں ۔وہ ایک ماڈل نظام کے خواہاں ہیں ۔جس کے حصول کی ناکامی اور تصور کے خلاف حکومتی امور انجام دیے جاتے ہیں تو وہ سڑکوں پر اتر آتے ہیں ۔اسلامی ممالک کے حوالہ سے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہاں کی اکثریت کبھی بھی گمراہیوں اور بے دینیوں پر اتفاق نہیں کرسکتی اور جب تک مسلم ممالک کا قبلہ درست نہیں ہوجاتا تب تک اس طرح کے حالات پیدا ہوتے رہیں گے۔ مسلم ممالک میں جاری باغی سیلاب میں ہزاروں کی تعداد میں عوام بہہ چکے ہیں ،وہاں کی زمین عوام کے خون ناحق سے رنگین ہوچکی ہے لیکن سربراہوں کو اس کی فکر نہیں ہے اور یہی بے فکری اور بربریت ان کی نیا ڈبوئے گی ۔
alihaqnrn@yahoo.com
 

Wednesday, 24 August 2011

انا کا رام لیلا میں انشن جنسی بے راہ روی کا ذریعہ

نورین علی حق
 انا ہزارے کی بلا دہلی سے کب دور ہوگی ؟آپ لوگوں نے یعنی میڈیا نے انہیں کچھ زیادہ ہی اہمیت دے دی ہے ۔جس کی وجہ سے ان کے حوصلے کچھ زیادہ ہی بلند ہوگئے ہیں اور وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں ۔اب دیکھئے کہ نہ صرف دہلی کا ٹریفک نظام چرمرا رہا ہے ۔بلکہ نوجوان طبقہ بے لگام ہورہا ہے ۔پوری پوری رات نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان علاقوں میں عیاشیاں کررہے ہیں اور والدین بھی یہ سوچ کر خوش ہیں کہ میرے بچے آزادی کی دوسری لڑائی میں شریک ہیں گو کہ ان کی یہ سوچ سراسر غلط اور خام خیالی پر مبنی ہے ۔جتنی برائیاں ممکن ہوسکتی ہیں وہ سب وہاں موجود ہیں ۔زیادہ تر نوجوان رام لیلا میدان میں اکٹھا ہیں ان کا دوہی مقصد ہے ایک یہ کہ وہ ٹی وی اسکرین پر نظر آئیں اور دوسرایہ کہ وہاں خواہشات نفس کی تسکین کا سامان فراہم کردیا گیا ہے ۔اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے چوں کہ وہ ان کی عیاشیوں پر لگام لگانے کی کوشش کرے گی توان کے خلاف ہی انا کے اندھے مقلدین مورچہ کھول دیں گے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ انشن اور بھیڑ اپنے آپ میں خود ایک کرپشن ہے ۔جسے جسمانی اور روحانی کرپشن کا نام دیا جاسکتا ہے ۔میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ اس طرح کے احتجاج سے مسلم محلوں کو براہ مہربانی بچایا جائے ۔فی الوقت رام لیلا میدان جنسی انارکی کے معاملے میں کھیل گائوں ہوچکا ہے۔رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں مسلم علاقے میںیہ  انا کا انشن ایک عذاب الہی ہے۔جس کے خاتمہ کے لئے روزہ داروں کو اجتماعی دعا کرنی چاہئے ۔

انتشار کے شکار مسلم ادارے

 مسلم ادارے بالعموم انتشار کا شکار رہتے ہیں حالاں کہ اس انتشاری کیفیت کے خود مسلمان ذمہ دار ہوتے ہیں ۔اور وہ اپنے تمام الزامات کو حکومت وحکومتی لوگوں کے سر منڈھ دیتے ہیں ۔اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ الٹا حکومت کو اقلیتی اداروں میں مداخلت کا سنہری موقع مل  جاتا ہے ۔اور جب سب کچھ لٹ پٹ  چکا ہوتا ہے تو مسلمانوں کو ہوش آتا ہے اور پھروہ چیخنا شروع کرتے ہیں ،اب تک علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے وائس چانسلر کے خلاف آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے اور کسی بھی  طرح علی گڑھ سے ان کا انخلاچاہتے تھے ۔لیکن جب ان سے ان کے حقوق چھن گئے اور تمام معاملے وزارت تعلیم نے حل کرنے شروع کردیے تو اب ان کے مخالفین ہی شور کررہے ہیں کہ یہ غیر قانونی اور بے جا مداخلت ہورہی ہے ۔حالاں کہ یہ موقع خود مسلمانوں نے دیا ہے اگر اس بری طرح وائس چانسلر کی مخالفت نہیں کی ہوتی تو آج یہ نوبت نہیں آتی ۔جذباتیت پسندی اکثر مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی رہی ہے اور آئندہ بھی مسلمانوں کا اس مرض لادوا سے جاں بر ہونے کی کوئی امید نہیں ہے ۔کوئی بھی فرد اپنے عقل وشعور کے سہارے کوئی فیصلہ نہیں لیتا ۔کسی نے کہہ دیا کوا کان لے کر بھاگ رہا ہے اور یہ کوے کے پیچھے دوڑنے لگے ۔

Tuesday, 23 August 2011

علوم وفنو ن حضرت علی کی بارگاہ کے رہین منت ہیں

نورین علی حق 
 کہا جاتا ہے کہ صفاکی پہاڑی سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاعلان حق فرمایاتو خدا کی وحدانیت کی تصدیق کرنے والے ایک ۱۰ سالہ آشوب چشم میں مبتلا بچہ کا کفار قریش نے مضحکہ اڑاتے ہوئے یہ جملہ کسا تھاکہ ’’لو ڈیڑھ آدمی کا اسلام مبارک ہو ۔‘‘ان میں ایک تو یار غار رسول ،صدیق اکبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور آدھے مولائے کائنات ،اسد اللہ الغالب ،جانشین پیمبر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔چونکہ حضرت خدیجہ ؓگھر میں تھیں اس لیے کفار کو ان کے اور حضرت زید بن حارثؓ کے ایمان کا علم نہیں تھا ۔لہذا اپنی ناسٹلجیائی ذہنیت کا غبار حضرت علی ؓپر اتار دیا ۔اور گمنامیوں کی انتہائی پستی میں چلے گئے جہاں سے واپسی کی کوئی صورت نہیں نکلتی ،لیکن آشوب چشم میں مبتلا وہ بچہ رہتی دنیا تک کے لیے نہ صرف یہ کہ حیات دوام اختیار کرگیا بلکہ ظاہری موت کے بعد بھی نسلا بعد نسل ان کی اولاد اسلام کو صحرائے عرب سے نکال کر دنیا کے بلاد وامصار میں پھیلاتے رہے اور اس مشن میں کامیابی کے حصول کے لئے اپنی رگوں میں دوڑنے والے خون کے ایک ایک قطرے کو اسلام اور اس کی بقاواشاعت کے لئے نچھاور کردیا ۔
 یہاں تک کہ ان کی عظمت وسربلندی کی گواہی قرآن نے بھی بارہا دی ،سورۃ توبہ کی دوسری رکوع کے شروع میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین وانصار میں سے بھلائی کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے سابقین اولین سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے ۔ان کے لئے نہروں والی جنتیں تیار ہیں ۔جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ ان کی بڑی کامیابی ہے ۔
 تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو عمومی سابقین اولین میں بھی حضرت مولائے کائنات کو اولیت حاصل ہے اور اگر غائرانہ نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوگا کہ صفاکی پہاڑی پر حضرت علی اظہار اسلام کا دوسرا رکن اقرار باللسان فرمارہے تھے ۔تصدیق بالقلب تو دس سال پہلے پیدائش کے بعد ماں فاطمہ بنت اسد کی گود سے ہی اپنی آنکھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زیارت سے کردی تھی اور جہاں تک عمل بالجوارح کی بات ہے تو اسلام کی پوری تاریخ خدمات علی سے مزین ومرتب ہے ۔جدوجہد نبوی کے ہر دور میں ہر مقام پر علی کی ذات نمایاں نظر آتی ہے ۔کوہ صفا پر سنگ باری کے دوران ،شعب ابی طالب میں ،طائف کی گلیوں میں ،غزوہ بدر ،غزوہ احد ،غزوہ خندق ،صلح حدیبیہ ،شب ہجرت نبوی ،غزوہ خیبر ،حجۃالوداع ہر جگہ حضرت علی پوری تب وتاب کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں اور پھر پورنمائندگی کرتے ہیں ۔پوری زندگی فرمان رسول پر جی جان سے عمل کرتے رہے بس ایک جگہ انکار کرتے ہیں اور اس انکار میں بھی دراصل رسول کی رسالت کا اقرار ہے کہ جب کتابت صلح حدیبیہ کے دوران کفار مکہ کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے ’’محمد رسول اللہ ‘‘کی کتابت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ محمد بن عبد اللہ لکھاجائے   اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب صلح حدیبیہ حضرت علی ؓ کو رسول اللہ حذف کرنے کا حکم دیاتو وہاں حضرت علیؓ نے انکار کردیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست اقدس سے رسول اللہ کو حذف کیا اور محمد بن عبداللہ لکھایا۔
اس موقع سے مورخین تو اریخ اسلام حضرت علی کے انکار کی وجہ تحریر نہیں کرتے چونکہ وہ بہت ظاہر ہے لیکن اس وقت سہیل بن عمروکے عمل کا اس سے بہتر رد عمل غالباً کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا کہ تم اگر مصلحتاً بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محمد رسول اللہ نہیںمان سکتے تو ہم بھی  مصلحتاً رسول اللہ کے جملہ کو اپنے ہاتھ سے کاٹ نہیں سکتے۔
 جہاں تک تدبیر ، حکمت عملی ، نفاذ قوانین اسلام اور اعلاء کلمۃالحق کی بات ہے تو یہاں بھی حضرت علیؓ کو امتیاز حاصل ہے جس کی گواہی اجلہ صحابہ کرام ؓ نے دی ہے۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا ہے کہ’’ لولا علی فھلک عمر ‘‘بطور تمثیل نہیں ہے۔ ان کے دل کی گہرائیو ںسے نکلی ہوئی بات ہے۔ قرآنی تفہیم، معانی قرآنی کے ادراک کے سلسلہ میں بھی حضرت مولائے کائنات مرجع تھے اور بعد میں بھی آپ کی اولاد کے ذریعہ وہ شعلہ علم و عمل دوسروں کی زندگیوں سے تاریکی دور کرتا رہا ۔ حضرت امام حسن ؓ ، حضرت امام حسینؓ، حضرت زین العابدینؓ، حضرت محمد باقرؓ، حضرت جعفر صادقؓ، حضرت موسیٰ کاظمؓ، حضرت علی رضاؓ، حضرت محمد تقی جوادؓ، حضرت علی نقویؓ، حضرت حسن عسکریؓ کی شخصیات سے اپنے دور کے ائمہ اکتساب فیض کرتے رہے اور اہل بیت اطہار کے قلوب کی تابانیاں پوری دنیا میں پھیلتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دور میں احقاق حق اور ابطال باطل کا تسلسل تعطل کا شکار نہیں ہوسکا۔ سخت ترین نا مساعدحالات اور ہجرت کی کلفتوں کو برداشت کرتے ہوئے دعوت دین کا فریضہ سادات کرام سے کبھی نہیں چھوٹا۔ امتداد زمانہ کے ساتھ شخصیات بدلتی رہیں،مقصد حیات نہیں بدلا۔ اگر غیر منقسم ہندوستان میں اسلام کی جڑیں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے مضبوط کیں تو حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ نے بغداد اور اس کے نواحی ممالک پر اثر انداز رہے اور یہ سب کے سب اولاد علی ہیں۔ آج دنیا سائنس اور ٹکنالوجی کی بات کرتی ہے تو اس لئے کہ مطالعہ قرآن اور علوم سینہ سےلیس ہوکر حضرت امام جعفر صادقؓ نے سائنس کا پہلا تصور سفیان ثوریؒ کو دیا وہیں انہوں نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کو فقہی استدلال کے طریقے سکھائے۔ حضرت ابو حنیفہؒ نے اس فقہی تفہیم کو آگے بڑھایا۔ اس طرح تمام علوم و فنون اسلامیہ اہل بیت اطہار کے مرہون منت ہیں اور امت مسلمہ پر ان کے احسانات ناتمام سے پوری ملت اسلامیہ گراں بار ہے۔ یہ سب کچھ رسول کائنات اور مولائے کائنات کی دعائے نیم شبی، آہ سحر گاہی اور جذباتیت سے اجتناب کے نتائج ہیں۔زمانے نے اپنےماتھے کی آنکھوں سےدیکھا کہ جس آدھے پر صفا کی پہاڑی کے کفارومشرکین ہنسے تھے اسی آدھے اوراس کی اولادنے دنیا کے آدھے  حصے پراسلامی علم لہرایا ،اور ائمہ سادات کے بعد بھی سادات کرام اپنے آبا کے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں ہمیشہ رہے اور آج بھی صورت حال یہ ہے کہ
خواب آنکھوں میں سلامت ہیں ابھی اجڑا ہے کیا
ہم ابھی تک ہیں سفر میں ابھی بدلا ہے کیا   
alihaqnrn@yahoo.com