نورین علی حق
صدیوں نہیں صرف نصف سال پرانی بات ہے کہ ہندوستانی خوا تین کی اکثریت بلا تفریق مذہب و ملت گھر ،شوہر، اور خاندان کی متبع تھی اور اسے اپنی ذمہ داریوں کا بھی بخوبی احساس تھا ۔ آخر کون سا انقلاب آیا کہ ہمارے معاشرے کی کایا پلٹ ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہوا ئے تیز و تند ہماری خواتین کے سروں سے آنچل اور دلوں سے شرم و حیا کوسوں دور اُڑا لے گئی اور اس کا انہیں خود بھی احساس تک نہیں ہوا اور یہ سلسلہ بے ستری ہنوز فزوں تر ہے اور خدا ہی بہتر جا نتا ہے کہ یہ سلسلہ اپنے اختتام کوپہنچے گا یا بڑھتا ہی چلا جائے گا۔
معاشرتی ،ملکی اور غیر ملکی سطح پر آزادی نسواں کا شور ،ادبی سطح پر تا نیثیت کا شوشہ ،صنف نازک کے احساسات و واردات کا بے محابہ اظہار ،بازار اور انڈسٹریل حلقوں میں خواتین کی طرف بڑھتے رجحانات ،گھریلوسطح پر عورتوں کا اپنی بالا دستی کا اصرار ،پرا ئیویٹ سیکٹر میں نو خیز و نو جوان دوشیزاؤں کی بڑھتی تعداد کیا صرف مثبت افکار کا نتیجہ ہیں یا انہیں نامعلوم طریقے سے منڈی کی رونق بنا دینے کی سازش ؟
ظاہر ہے کہ ہر با شعور اور عقل و خرد سے لیس انسان وہی جواب دے گا جو میں سننا چاہتا ہوں ،لیکن کیا وہ اپنی توجہ اس جانب بھی مبذول کرنے کو تیار ہے کہ جو آج ہو رہا ہے اور جس طرح والدین ،سر پرست آج بے بس و لاچار اور مجبور ہو گئے ہیں بلکہ اس کو اکیسویں صدی کی بڑی کامیابی قرار دینے میں قولاً نہیں تو عملاً شریک ضرور ہیںاور اپنی بہنوں،بیویوں ،بیٹیوں کے ا عمال سے سو فیصد واقفیت کے با وجود چشم پو شی اور تجاہل عارفانہ برتنے کو ہی حکمت عملی اور مصلحت پسندی گمان کر رہے ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ جن اقوام کے پیش نظر زندگی کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے وہ تو سراپا برائیوں میں ڈوبی ہو ئی ہیں ہی مسلم قوم میں بھی وہ تمام برائیاں اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہیں اور پورا معاشرہ برائیوں کے دلدل میں جا پھنسا ہے اور طر فہ تماشا یہ کہ اسے اپنے اعمال پر ندامت کے بر خلاف فخرومباہات ہے اور وہ اپنے ان غیر شرعی ا عمال کے حق میں یہودی روایات کو آگے بڑھا تے ہوئے مفروضہ دلائل اور غیر معقولی تاویلات کامتلاشی بھی ہے۔گر چہ ان تاویلات کی اہمیت ’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
ایک طرف صار فیت کے اس دور میں باپ بھائی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں ،تاکہ انہیں شادی بیاہ جیسی کمر توڑ ذمہ داری سے چھٹکارا مل جائے اور انہیں اس سلسلہ میں دردرکی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں ۔وہیں ہمارے معاشرے میں مروج نظام شادی کو بھی اس بے لگامی میں بڑا دخل ہے چوں کہ اشیائے خوردنی اور ضروریات زندگی کی ادائیگی ہی آج جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے اور اس پر مستزادیہ کہ شادی بیاہ میں استطاعت سے زیادہ مطالبات ۔آخر سر پرست چشم پوشی نہ بر تیں تو کیا کریں ؟ حالاں کہ یہ نظام شادی خود ہمارے معاشرے نے بصد شوق اپنے سر منڈھا ہے اور آج اسی کی ضرب سے خو ں آلود بھی ہے۔
اس کے علاوہ یہ کہ خواتین بغاوت پر تبھی آمادہ ہو ئیں جب ظلم و ستم کا پانی سر سے اونچا ہو گیا ۔انہیں تو گھر کی چہار دیواری تک محدود رکھا گیا اور مرد لاوارث جانوروں کی طرح آزاد اپنی خواہشیں پوری کرتے رہے ۔وفا کا درس صرف خواتین کو پڑھانے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور مرد بے وفا ئیوں کی انتہا کو پار کرتے رہے ۔ہونا کیا تھا بالآخر خواتین نے بھی اپنے پیروں سے قید و بند کی بیڑیاں اتار پھینکیں اور جب گھنگرو باندھ کر بر سر بازار نظر آئیں تو معاشرہ کے مردوں کو شریعت اور اسلامی تعلیمات یاد آنے لگیں ،جب کہ رسول اعظم ﷺکی بے شماراحادیث ،آپ کے ا عمال یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ کی وفاؤں ،رہنمائیوں اور بے انتہا محبتوں کا نتیجہ تھیں حضرت خدیجہ ۔قرآن پاک نے جہاں خواتین پر مردوں کے حقوق کی تعیین کی ہے وہیں مردوں کو بھی عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیا ہے۔
نصف صدی پر محیط مسلم خواتین کے ذریعہ لکھے جانے والے ادب کا ہی عدل و انصاف کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اس نتیجہ تک پہنچنا مشکل نہیں کہ وہ باغیانہ تیور رکھنے والی تحریریں ردعمل کے طور پر سامنے آئیںحالاںکہ اس ردعمل کو بھی مرد انہ سماج نے مثبت طریقہ پر نہیں لیا اور واویلا کرتے رہے۔ جس کا نقصان وقت و حالات کے ساتھ انہیں ہی جھلینا پڑا ۔جب کہ حکمت عملی اور وقت کا تقاضا یہ تھا کہ مردانہ سماج اپنا محا سبہ کرتا اور اپنے اعمال و افعال کو رسول کریم ﷺ کے سانچہ میں ڈھال کر خواتین کے سامنے پیش کرتا تو انہیں بھی خود کو اپنے دور کی فاطمہ ،خدیجہ، رابعہ بصری بنانے میں آسانی ہو تی اور پھر مسلم تاریخ کا ایک نیا آغاز ہو تا اور ہمارا معاشرہ حضرت امام حسن ،حضرت امام حسین ،حضرت حسن بصری ،حضرت جنید بغدادی ،حضرت محی الدین عبد القادر جیلانی ، حضرت شیخ معین الدین چشتی ،حضرت شیخ احمد سر ہندی ،حضرت امام غزالی ،شیخ ابن تیمیہ ، شیخ ابن قیم، حضرت شیخ کلیم اللہ جہان آبادی جیسی شخصیات کے اعمال سے لیس فرزند وں سے فیض پاتا۔بے راہ روی کے طوفان میں گھرا ہمارا معاشرہ آج ان ماؤں سے محروم ہے جو وقت کے ائمہ کی ولادت کا ذریعہ بنتی رہی ہیں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کا ہمارا معاشرہ پوری طرح خواتین کے ہاتھوں میں ہے ۔انہیں بھی اس بات کی بہرحال ضرورت ہے کہ وہ بھی معاشرہ کو صحیح سمت دینے میں اپنا رول ادا کریں اور صرف منفی رد عمل سے کا م نہ لے کر مثبت رد عمل کی طرف بھی پیش رفت کریں کہ ہر زمانہ میں ماؤں کی اہمیت مسلم رہی ہے اور انہیں کی تر بیت کے نتیجہ میں اسلامی معاشرہ نے اپنے وقت کے بر گزیدہ اکابر ین سے کسب فیض کیا ہے ۔
قرآن پاک اور احادیث مبارک نے ذاتی طور پر خود کو محفو ظ رکھنے کے جو طریقے خواتین کو بتائے ہیں اگر صرف انہیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے عورتیں اختیار کر لیں تو معاشرہ کی آدھی برائیاں خود بہ خو دختم ہو جائیں گی ۔
آج عورتوں نے بھی اپنا احتساب ترک کر دیا ہے حالا نکہ مو جودہ زمانہ کا جبری تقاضا یہ ہے کہ مسلم معاشرہ کا ہر فرد خواہ مرد ہو کہ عورت اپنے ہر ہر فعل کا محا سبہ کر ے۔ یوروپ کے سراب نما نعروں کے تتبع میں خود کو اسی راہ پر نہ ڈالے بلکہ قرآن و احادیث اور دیگر اسلامی کتب اور عملی اسلام کا بنظر غائر مطالعہ کرے اور اسے سائنٹفک انداز سے پر کھے یقیناً وہ آپ کے حق میں ہی ہو گا ۔ عورتوں کے حوالہ سے اسلام کا جو نظر یہ ہے وہ ان ہی کے لیے ہے اور اس میں ان کا بے شمار فائدہ بھی مضمر ہے ۔
حیوانیت اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے جس انداز کے کپڑے اور ملبوسات کی ایجاد مرد معا شرہ کر رہا ہے اسے استعمال سے قبل خواتین کے اذہان میں یہ بات آنی چاہیے کہ اس میں کہیں ان کی بے حرمتی تو نہیں ہو رہی ہے ۔آج ہر محفل اور مجلس میں جس طرح عورتوں کو لایا جا رہا ہے آخر اسی انداز کے کپڑے مرد اپنے لیے کیوں نہیں پسند کرتے؟
No comments:
Post a Comment