Welcome

Welcome to my blog with Islamic greeting "Assalam-o alaikum warahmatullah-i wabarakatuh" (Noorain Alihaque)

Thursday, 30 June 2011

مسلمانوں کی جذباتیت دورحاضر کا بڑا المیہ


                                                                       نورین علی حق 

ناموس  رسالت و و حدانیت ہو کہ عظمت قرآن یا الیکشن اور کر کٹ میچ ہر جگہ ان دنوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا عام سی بات ہو گئی ہے ۔عالمی سطح پر جب مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں تو ان سازشوں کی طرف سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانے کے لیے سال میں کم از کم دو تین بار جذبات انگیزی کا سہارا تو لیا ہی جاتا ہے اور اب تو صرف مغربی مسلم دشمنوں تک ہی یہ تخصیص نہیں رہ گئی ہے ،اس حربہ کا استعمال وقتاً فوقتاً ہمارا ملکی میڈیا بھی بڑے شاطرانہ انداز میں کرنے لگا ہے چو ں کہ اس کا بھی دست شفقت مسلمانوں کی دکھتی رگ تک پہنچ چکا ہے اور پوری دنیا کے فرقہ پرست عناصر ہر سطح پر مسلمانوں کے خلاف جنگ کا طبل اسی کا سہارا لے کر بجا تے ہیں اور نتائج کی فکر کیے بغیر مسلمان سڑکوں کی زینت بن جاتے ہیں حالانکہ ابتدائی مر حلہ کے بعد تمام مراحل میں مسلمانوں کو شکست و ریخت کا سامنا کر نا پڑتا ہے اور وہ احتجاج و مظاہرہ میں اتنے منہمک اور توازن کھو بیٹھتے ہیں کہ عقل مندی و ہوش مندی ،دانائی اور حکمت عملی ان کے سامنے سر پٹخ  پٹخ کر دم توڑ جاتی ہے ۔
اس پس منظر میں اگر ہم ماضی کی ورق گردانی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں بھی جب جب ہم جذباتی ہوئے ہیں تب تب ہمیں نا کا میوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے جنگ احد میں پچاس فوجیوں کے دستہ کو وادی قناۃ کے جنو بی کنارے پر واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی پر جو اسلامی لشکر کے خیمہ سے کوئی ڈیڑھ سو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے اور اب جبل رماۃ کے نام سے مشہور ہے تعینات فرمایا تھا اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ان فوجیوں کو یہ حکم دیا تھا کہ ’’اگر تم لوگ دیکھو کہ ہمیں چڑیا ں اچک رہی ہیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑ نا یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں اور اگر تم لوگ دیکھوکہ ہم نے قوم کو شکست دے دی ہے اور انہیں کچل دیا ہے تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں ۔‘‘ لیکن کفار اور مشر کین مکہ کو قلاش بنا کر خالی ہاتھ واپس بھیجنے کے صحابہ کرام کے منحرف جذبات اور اجتہادی غلطی نے خود اسلامی لشکر کو کیا کچھ نقصان پہنچایا ۔اسے پڑھ کر آج بھی خاص تو خاص عام مسلمانوں کے رونگٹے بھی کھڑے ہو جا تے ہیں ۔دوسری جانب ہندوستانی سطح پر جذباتی فیصلوں اور غیر دانش مندانہ رویوں کے منفی نتیجہ کا جائزہ لینا ہو تو ہمیں اور نگ زیب عالم گیر کی زندگی کا غائرانہ مطالعہ کرنا چاہئے کہ اس کے عہد میں بڑے اہم مناصب پر برادران وطن متمکن تھے اور ان کے شعرا اور مورخین نے اس کی گواہی بھی دی ہے مگر بعض جذباتی فیصلے نے ان تمام رواداریوں کے باوجود اورنگ زیب کو ہندوستان کی اکثریت کی نگاہ میں مطعون قرار دے دیا ۔اس کے بر عکس ہندوستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت کا جس قدر کام حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمۃاللہ علیہ اور ان کے خلفا او ررفقائے کار سے ہوا وہ کسی دوسرے کے حصہ میں نہ آسکا، جوق در جوق انسان اسلام کی پناہ میں آئے اس لحاظ سے دیگر مذاہب کو بھاری خسارہ ہوا اس کے با وجود آج بھی حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بلا تفریق مذہب و ملت مقبول ہے اور آثار یہ بتاتے ہیں کہ شیخ کی روحانی سر پرستی اور حکمرانی میں آئندہ بھی ہندوستان رہے گا۔ یہ صرف اور صرف ان کی حکمت عملی ،دوراندیشی ،خلوص و للہیت ،عدم تشدد اور غیر جذباتی رویوں کا رہین منت ہے ۔
ہندوستان گیر سطح پر جب ہم مسلم جذباتیت کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ عام مسلمانوں کے جذبات کو انگیز کرنا صرف غیروں، شر پسند عنا صر اور میڈیا کا ہی مشغلہ نہیں ہے ۔ یہ روش ہمارے مقتدا اور پیشوا کی تقا ریر سے بھی پروان چڑھتی ہے ۔ مدارس کی درسگاہیں ہوں کہ مساجد کے منبر، دینی اسٹیج ہو کہ مجالس ہر جگہ خود ایک مسلم مکتبہ فکر کا پیشوا اور رہنما دوسرے مکاتب فکر کے خلاف اپنے عوام کے جذبات کو انگیز کر کے دوسروں سے متنفر کرنے کی تگ ودو میں لگا رہتا ہے اور اپنی تقریر وں کے ہر جملے پر نعرے بازی کے لیے عوام کو جذباتی بنا تا ہے اور ایسے ایسے مفروضہ واقعات و حکایات گھڑتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہو تا ۔ مستحب امور کی انجام دہی کے لیے فرائض کے ترک کا کہیں سبب بنتا ہے تو کہیں مستحب امور کو کفر و شرک اور بد عات و خرا فات کے خانہ میں رکھنے کے لیے وہ اپنی مخصوص شرعی تعر یفیں ایجاد کرتا ہے تو دوسرا مکتبہ فکر کا پیشوا دین و اسلام کو اپنی جاگیر تصور کرتے ہوئے اسے دین سے خارج کر دیتا ہے ۔حالاں کہ مذکورہ ادارے نظر یہ ساز اور فکر ساز فیکٹریاں ہیں،جہا ں ماضی میں مثبت افکار و نظریات ڈھالے جاتے رہے ہیں ۔ جب تک ان اداروں میں یہ رویے روا نہیں تھے تب تک اعلیٰ اذہان و قلوب کے مالک پیدا ہوتے رہے اور جب سے ان مقدس مقامات کا غلط استعمال شروع ہوا ہماری ساری توا نا ئی ،حرارت اور طاقت و قوت باہمی نزاع میں ہی صرف ہونے لگی۔ اب جب ہم مجالس و جلسے اور جلوس سے واپس لو ٹتے ہیں تو تزرع اور خشیت الٰہی کی بجائے ہمارے سروں میں دوسروں کو گمراہ ،باطل ،بے راہ ،بد دین اور بد عتی و کافرقرار دینے کا سودا سمایا ہو تا ہے ۔ یہ سب کچھ ذاتی اور انفرادی مفاد یا محدود مسلکی مفاد کی خاطر کیا جاتا ہے ۔پھر جب کہیں وہی علما مشتر کہ پلیٹ فارم پر اکھٹا ہوتے ہیں تو ’’واعتصمو ابحبل اللہ جمیعاولا تفرقوا ‘‘کی دہائی دیتے نہیں تھکتے یہ الگ بات ہے کہ ان کی وہ دہائی صرف اس اسٹیج اورپلیٹ فارم کے لیے محدود ہوتی ہے ۔جب کہ ہو نا تو یہ چاہئے کہ ان مقامات کا استعمال ہمارے احتسا ب کے لیے کیا جاتا اور ہمیں یہ بتا یا جا تا کہ ہمارے جذباتی رویوں سے خود ہمیں اور ہماری وجہ سے ہمارے دین پر کس طرح کی انگشت نمائیاں کی جا رہی ہیں ۔قرآن پاک کے بے شمار مقا مات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا ء کو دین،پیغمبر اور خود خدائے بر تر و با لاکے سخت ترین دشمنوں کے پاس دین کی دعوت لے کر بھیجا تو یہ بھی فرمایا ’’ادعو االیٰ سبیل ربک با لحکمۃ والموعظمۃ الحسنۃ ‘‘ کلام کی فصاحت پر غور کریں کہ بنیادی طور پر یہاں جذباتی ہونے سے روکا گیا ہے ۔اور حکمت کے ساتھ دین و اسلام کی دعوت پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ یہ کہ ہمارے نبی کریم ﷺکی حیات طیبہ میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جہاںآپ ﷺ جذباتی ہو کر بدعا فرما دیتے تو پوری کی پوری قوم تباہ و ہلاک ہو جاتی ۔مگر آپ نے کبھی صبر ،ثبات،استقامت کا دامن ہاتھوں سے جانے نہ دیا اور عملی طور پر ہمیں یہ پیغام دیا کہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں جذبا تیت سے اجتناب کرنا ہے، حکمت سے کام لینا ہے اور نفس کو مزکی بنانا ہے ۔قرآن پاک کی ایک آیت ہے ۔’’لقد منّ اللہ علیٰ المومنین اِذ بعث فیھم رسولاًمن انفسھم یتلو علیھم آیاتہ و یز کیھم ویعلّمُھُمُ الکتاب و الحکمۃ‘‘
اس میں رسول اللہ ﷺکی بعثت کے مقاصد میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ آپ تزکیہ فر ماتے ہیں اور کتاب و حکمت سکھاتے ہیں، آیت میں مو جود الفاظ کی تر تیب اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ تعلیم کتاب و حکمت سے پہلے تزکیہ کی ضرورت ہے اور موجودہ معاشرہ میں تز کیہ کا عمل ٹھہر سا گیا ہے اور تز کیہ کے ٹھہراؤ کے بعد جذباتیت کا غالب آنا عین فطری امر ہے ۔یو ں تحریر و تقریر میں جا بجا تز کیہ کا لفظ مل جا تا ہے البتہ تز کیہ کا جو اصل تقاضا ہے وہ تقر یباً تمام                               جگہوں سے مفقودہے                                         

No comments:

Post a Comment