Welcome

Welcome to my blog with Islamic greeting "Assalam-o alaikum warahmatullah-i wabarakatuh" (Noorain Alihaque)

Thursday, 30 June 2011

دین کے نام پر مسلمانوں کا قتل اور اسلام کی بدنامی

                                                         نورین علی حق
غزہ  جانے والے ترکی کے جہاز پر اسرائیل کا جارحانہ حملہ، اس حملہ کی عالمی مذمت کو روکنے کے لیے امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، اسی ادھیڑبن کے درمیان لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر خود کش حملہ یہ مختلف حادثات و واقعات مسلمانوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتے ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور ان کے حق بجانب ہونے کا جواز بھی پیدا کیا جارہا ہے۔داخلی طور پر مسلمانوں کے درمیان اتنے اختلافات ہیں کہ امریکہ کی ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی کی تائید میں سعودی حکمراں شاہ عبداللہ ذرا بھی عار نہیں محسوس کرتے۔دوسری طرف ہندوپاک میں کچھ مسلم تنظیمیں ایسی ہیں جو خود کش حملوں کو ہی تمام تر مسائل کا حل سمجھتی ہیں، جس سے مسلمانوں کی شبیہ مزید خراب ہونے کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکل سکتا-
یکم جولائی 2010 کو لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جس طرح کا واقعہ رونما ہوا وہ تمام مسلمانوں کو وحشی اور انسانیت سوز ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، جس میں پچاسوں زائرین شہید کردیے گئے اور سیکڑوں کی تعداد میں داخل اسپتال ہوئے۔ مزار سے تیس میٹرکی دوری پر ہونے والے اس خود کش حملہ میں جان گنوانے والے لوگوں کے اعضائے جسمانی ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔جگہ جگہ خون کے دھبے تھے۔ سنگ مر مر سے تعمیر اس عمارت کو تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، البتہ عمارت میں لگے شیشے ٹوٹ کر مزار شریف پر آگرے۔ان تمام مناظر کی تصاویر مختلف اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں اور ویب سائٹس پر بھی انہیں نمایاں طور سے شائع کیاگیا-اس واقعہ کو دلیل کے طور پر استعمال کرکے کل کو امریکہ پاکستانی خطہ میں ڈرون حملے کرتا ہے تو اس پر لعن وطعن کرنے کا ہمیں کیا حق حاصل ہوگا ؟وہ تو علی الاعلان یہ باور کرائے گا کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں طالبان اور القاعدہ سرگرم عمل ہیں جن کی بیخ کنی کے لیے فوجی کارروائی ضروری ہے اور اس کے اتحادی کھل کر اس کی حمایت کریں گے۔ اس وقت جہاد کے نام پر عوام کا ناحق خون بہانے والے چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں داخل ہوجائیں گے اور اس میں بھی عام مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے گی اور ایوان باطل میں رقص ابلیس کا دور چلے گا تو دوسری طرف پوری دنیا کے مسلمان چاہ کربھی بے اثرہی سہی نعرئہ احتجاج بھی درج نہیں کراسکیں گے۔
بعض تجزیہ نگار اپنے انداز میں اس حملہ کے پس پشت یورپی لابی کی شمولیت کی طرف بھی اشارے کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا حملہ آور غیر مسلم تھے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہی ہوگا تو کیا آج کے مسلمان اتنے کم عقل او رباؤلے ہوچکے ہیں کہ انہیں جس طرح استعمال کیا جاتا ہے، وہ استعمال ہوجاتے ہیں اور مزارات اولیاء پر بھی غارت گری کا بازار گرم کردیتے ہیں، جس میں بچوں کی آہیں، جوانوں کا کرب اورضعیفوں کی لاچاری سب کچھ شامل ہوتی ہے۔داتا دربار کے ایک خادم کا بیان ہے کہ ان کے پاس کچھ دنوں قبل فون آیا تھا کہ درگاہ میں خواتین کی آمد پر پابند ی لگائی جائے ورنہ نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور بعد میں جمعرات کی رات یہ سانحہ پیش آیا،اسی کے ساتھ مشہور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کا بیان بھی اس جانب کھلے طور پر اشارہ کرتا ہے کہ مذکورہ حملہ کے پیچھے مسلم تنظیموںکاہاتھ ہے۔جس معاشرہ میں ہم جیتے ہیںاس تکثیری سماج میں ہمارے سامنے بارہا اس قسم کے خدا ناشناس، انسانیت سے عاری، تصوف و صوفیہ اور مزارات کے مخالف اپنے بیانات دیتے رہتے ہیں جن سے ان کے باغیانہ تیور اور جذبات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اصلاح معاشرہ کے نام پر جس طرح کی یہ کارروائیاں کرتے ہیں اس سے کبھی کوئی اصلاح کی امید نہیں کی جاسکتی۔چوںکہ یہ خود اصلاحی طریقۂ نبوی اور سنت اللہ سے خالی ہوتے ہیں۔پوری اسلامی تاریخ اس بات پرشاہد عدل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے آخری ادوار تک کبھی کسی دور میں مزارات و قبرستان پر بلڈوزر نہیں چلائے گئے، لیکن جب مزار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بلڈوزر چلایا گیا تبھی سے ایک طبقہ کے اندر اس طرح کے جذبات پیداہوئے اوران میں جسارت و جرأت پائی جانے لگی۔آج کی تاریخ میں اس طبقہ کو ریال و دینار دے دے کر ان کے حوصلے اتنے بلند کردیے گئے ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ دنیا کے کسی حصہ میںکوئی ایک مزار نظر نہ آنے دیں۔
میں اپنے ان جملوں سے قطعاً کسی بھی جماعت و تحریک اور تنظیم کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا نہ ہی ان شرپسند عناصر کی طرح مسلکی منافرت پھیلا کر خونی کھیل کو ہوا دینا چاہتا ہوں مگر وقت وانسانیت کا تقاضا ہے کہ وہ تحریکیں اور مکاتب فکر جن کی طرف اشارہ کرکے ہر ذی عقل یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ان دہشت گردوں کا تعلق فلاں جماعت سے ہے، فلاں تحریک سے ہے، ان کے اکابرین و ذمہ داران اس قسم کی انسانیت سوز حرکتوں کی کھل کر مذمت کریں اور اپنے متعلقین اور وابستگان کو ایسے گھناونے عمل سے اجتناب کی اعلانیہ تلقین کریں ،تاکہ معاشرہ میں رد عمل کے طور پر پھیلنے والی بے چینیوں اور متوقع فسادات ومسلکی تنازعات کا سدباب ہوسکے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہو اوراسلام اور مسلمانوں کی دلی آرزووں اور تمناوں کی تکمیل نہ ہوسکے ،جس کے وہ خواہاں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں ہی برسر پیکار کرکے ہم تماشائی کی صورت میں تالیاں بجائیں اور کلمہ گوایک دوسرے کا خون بہائیں ،دوسروں کو خود پر ہنسنے کے بہت سے مواقع ہم فراہم کرچکے ۔اب ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور کم ازکم سیاسی وسماجی ،ملکی وقومی معاملات ومسائل میں اتحادواتفاق کا مظاہرہ کرناچاہیے کہ حالات کامسلمانوں سے جبری تقاضا یہی ہے اور ملت کی فلاح وبہبود بھی اسی میں مضمر ہے۔یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ جب تھانہ بھون میں مولانا اشرف علی تھانوی کے مزار کو نقصان پہنچایا جائے تو اس کی مذمت میں تمام اردو اخبارات و رسائل کے صفحات کے صفحات سیاہ کردیے جائیں اور جب اس دربار میں دھماکہ کیا جائے جہاںکی حاضری کے وقت خود خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مزار کی عظمت ورفعت کے پیش نظر یہ فرمائیں:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں راپیرکامل کاملاں را رہ نماں
تواس قدیم ترین اور بافیض بارگاہ کے سلسلہ میں ہم اپنا کوئی رد عمل نہ ظاہر کریں، جب کہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہاں شہید ہونے والے تمام لوگ بے گناہ تھے۔ ہماری یہ خاموشی نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ شرمناک بھی ہے۔
واضح رہے کہ مزارات پر بے ہنگم عورتوں کی حاضری کے مخالف صرف طالبان یا دیوبندی اور اہل حدیث ہی نہیں بلکہ تمام صوفی و سنی علماء بھی اس کے سخت مخالف ہیں،البتہ وہ اصلاح معاشرہ کے لیے خلاف سنت طریقوں اور وحشیانہ رویوں کو جائز نہیںسمجھتے ۔
بزرگان دین پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹتے رہے ہیں، ان کے اقوال وافعال اور اعمال میں تضادات نہیں پائے جاتے تھے۔ ان میں جبروظلم کوبرداشت کرتے ہوئے دین کی دعوت کا جذبہ موجود تھا۔وہ نفس کی خاطر حلت وحرمت کے حیلے نہیں تراشتے تھے۔ان کی زندگیوں کا مقصد عوام کو انسانیت کی تفہیم کرانا ،ان میںاحساس سود و زیاں پیدا کرنا ،انہیں گناہوں سے دور کرنا اور ان سب کے ذریعہ خدا کی رضا کا حصول تھا ۔داتا ہوں کہ خواجہ ،قطب ہوں کہ فرید اور دیگر تمام سلاسل کے بزرگان دین کی عمومی پسندیدگی اور ان کی بارگاہوں سے ہندومسلم ،سکھ عیسائی سب کی یکساں محبت وفدائیت اور دلچسپی اظہرمن الشمس ہے اور آج کے نام نہاد مبلغین ومجتہدین کو تمام مذاہب کے متبعین بشمول مسلمانوں نے یکساں طور پر مسترد کردیا ہے۔چوں کہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے اندر اخلاص وللہیت کا فقدان ہے۔ان کے اندر قلب کو تڑپانے اور روح کو گرماکر بھٹکے ہوئے آہوں کو سوئے حرم لے چلنے کی استطاعت نہیں ہے -کیا دس سو سالہ صوفیہ کی تاریخ ہندستانی مزاج وطبیعت کو سمجھنے میں ہمارے لیے مددگار ثابت نہیں ہورہی ہے کہ یہاں صوفی منہج پر چل کر ہی (جو اصل نبوی منہج تھا )دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے ۔تخت وتاج پر قابض ہونے کے بعد دینی دعوت کا منصوبہ تیار کرنے والی کتنی ہی تحریکیں ھباء امنثورا ہوگئیں اور کتنے ہی مفروضہ امیرالمومنین کی امارت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی جب کہ دلوں پر حکومت کرنے والے حیات دوام اختیار کر گئے اور آج حکومت و انتظامیہ کے تطفیفی عمل کے باوجود موجودہ ہندوستان میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہیں اور پاکستان میں انہیں اکثریت حاصل ہے ۔یہ کثرت تعدادانہیں بزرگوں کی دعائے نیم شبی ،آہ سحرگاہی ،جہدمسلسل اور عمل پیہم کی رہین منت ہے۔اگر ان بزرگوں نے بھی گولے باروداور خودکش حملوں کاسہارا لیا ہوتا تو برصغیر ایشیا میں پاکستان وبنگلہ دیش کی مسلم حکومت اور ہندستان میں سب سے بڑی اقلیت میں مسلمان نہیں ہوتے نہ ہی صدیاں گزرجانے کے بعد انہیں یاد کیا جاتا ۔
بالفرض اگر ہم مان بھی لیں کہ قرآن و سنت کے علاوہ کوئی دوسرا ہمارے لیے آئیڈیل و نمونہ نہیں ہونا چاہیے، تب بھی کسی ایک حدیث اور ایک آیت قرآنی سے دہشت گردانہ کارروائیوں کی تائید نہیں ہوتی البتہ فتح مکہ کے دن جب کسی نے ’’الیوم یوم الملحمۃ‘‘ (آج خون کا دریا بہانے کا دن ہے۔)کا نعرہ دیا تو محسن انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘ (آج رحمت و رافت کا دن ہے) انتقام کا دن نہیں ہے۔آج ابوسفیان کے گھرمیں پناہ لینے والوں اور غلاف کعبہ کے اندر چھپنے والوں کو بھی معافی ہے۔بدر کے قیدیوں کو آزاد فرمایا۔ طائف کے اوباشوں اور لفنگوں کے لیے دعائے ایمان و رحمت فرمائی۔سب سے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتلوں، کلیجہ چبانے والوں اور دیگر اذیتیں پہنچانے والوں کی خطاؤں کو درگزر فرمادیا ۔یہ ہیں اسوۂ حسنہ کی چند جھلکیاں بصورت دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی ایک لمحہ کسی پر ظلم و ستم میں نہیں گزرا۔کسی بے گناہ کو کبھی پریشان نہیں کیا-یہ ہے اصل اسلام، یہ ہیں پیغمبر اسلام جنہوں نے خود پر کوڑے ڈالنے والی خاتون کی عیادت کی اور اس کے لیے دعائے صحت بھی فرمائی۔
۴؍جولائی 2010کو بعض اخبارات نے سنی تحریک محاذ کا اعلان شائع کیا جس میں انتقامی جذبات سے لیس سنی تحریک محاذ کے ذمہ داران کے بیانات شائع ہوئے ہیں۔ اپنے بیان میں ایک صاحب نے کہا کہ ’’عوام اہل سنت اب محفل نعت، ختم قل اور گیارہویں پر رقم خرچ کرنے کی بجائے اس رقم سے اسلحہ خریدیں تاکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے-‘‘ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ انتقامی جذبہ مصلحت سے یکسر خالی ہے۔چوںکہ انتقام منتقم کو عارضی طور پر تو مطمئن کردیتا ہے، مگر اس کے مثبت اثرات دنیا پر نقش نہیں ہوتے۔وہ بھی لائق مذمت ہوتے ہیں۔انتقامی کارروائیاں ہمیشہ احساس جرم اور ندامت و پشیمانی کے اظہار میں مجرمین کی راہ کا روڑا ثابت ہوتی رہی ہیں۔خون شہداء سے لت پت داتا کا دربار، خواجہ کا گنبد، تارا گڑھ پہاڑ، شمس الدین التمش کا دربار، ناگ پور کی پہاڑی، دہلی کے ذرات اور قطب مینار اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے اکابرین ہمیشہ عفو و در گزر سے کام لے کر دلوں پر اپنی حکومت مضبوط و مستحکم کرتے رہے ہیں۔ہم انتقامی کارروائی کے جذبات سے اوپر اٹھ کر اپنا احتساب بھی کریں کہ امتداد زمانہ کے ساتھ ہمارے اندر کس طرح کی تبدیلیاں آئی ہیں جن کی پاداش میں ہمیں یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں اور اس موقع پر اپنے قول وعمل سے یہ اعلان کریں کہ  ’’لاتثریب علیکم الیوم۔انتم الطلقاء‘‘ صلح ومعاہدہ سے فتح مبین تک پہنچنا اور اس کے بعد عام معافی کا اعلان کردینا یہی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور لازوال اسوہ ہے۔

دین کے نام پر مسلمانوں کا قتل اور اسلام کی بدنامی

                                                                 نورین علی حق
غزہ  جانے والے ترکی کے جہاز پر اسرائیل کا جارحانہ حملہ، اس حملہ کی عالمی مذمت کو روکنے کے لیے امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، اسی ادھیڑبن کے درمیان لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر خود کش حملہ یہ مختلف حادثات و واقعات مسلمانوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتے ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور ان کے حق بجانب ہونے کا جواز بھی پیدا کیا جارہا ہے۔داخلی طور پر مسلمانوں کے درمیان اتنے اختلافات ہیں کہ امریکہ کی ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی کی تائید میں سعودی حکمراں شاہ عبداللہ ذرا بھی عار نہیں محسوس کرتے۔دوسری طرف ہندوپاک میں کچھ مسلم تنظیمیں ایسی ہیں جو خود کش حملوں کو ہی تمام تر مسائل کا حل سمجھتی ہیں، جس سے مسلمانوں کی شبیہ مزید خراب ہونے کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکل سکتا-
یکم جولائی 2010 کو لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جس طرح کا واقعہ رونما ہوا وہ تمام مسلمانوں کو وحشی اور انسانیت سوز ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، جس میں پچاسوں زائرین شہید کردیے گئے اور سیکڑوں کی تعداد میں داخل اسپتال ہوئے۔ مزار سے تیس میٹرکی دوری پر ہونے والے اس خود کش حملہ میں جان گنوانے والے لوگوں کے اعضائے جسمانی ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔جگہ جگہ خون کے دھبے تھے۔ سنگ مر مر سے تعمیر اس عمارت کو تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، البتہ عمارت میں لگے شیشے ٹوٹ کر مزار شریف پر آگرے۔ان تمام مناظر کی تصاویر مختلف اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں اور ویب سائٹس پر بھی انہیں نمایاں طور سے شائع کیاگیا-اس واقعہ کو دلیل کے طور پر استعمال کرکے کل کو امریکہ پاکستانی خطہ میں ڈرون حملے کرتا ہے تو اس پر لعن وطعن کرنے کا ہمیں کیا حق حاصل ہوگا ؟وہ تو علی الاعلان یہ باور کرائے گا کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں طالبان اور القاعدہ سرگرم عمل ہیں جن کی بیخ کنی کے لیے فوجی کارروائی ضروری ہے اور اس کے اتحادی کھل کر اس کی حمایت کریں گے۔ اس وقت جہاد کے نام پر عوام کا ناحق خون بہانے والے چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں داخل ہوجائیں گے اور اس میں بھی عام مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے گی اور ایوان باطل میں رقص ابلیس کا دور چلے گا تو دوسری طرف پوری دنیا کے مسلمان چاہ کربھی بے اثرہی سہی نعرئہ احتجاج بھی درج نہیں کراسکیں گے۔
بعض تجزیہ نگار اپنے انداز میں اس حملہ کے پس پشت یورپی لابی کی شمولیت کی طرف بھی اشارے کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا حملہ آور غیر مسلم تھے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہی ہوگا تو کیا آج کے مسلمان اتنے کم عقل او رباؤلے ہوچکے ہیں کہ انہیں جس طرح استعمال کیا جاتا ہے، وہ استعمال ہوجاتے ہیں اور مزارات اولیاء پر بھی غارت گری کا بازار گرم کردیتے ہیں، جس میں بچوں کی آہیں، جوانوں کا کرب اورضعیفوں کی لاچاری سب کچھ شامل ہوتی ہے۔داتا دربار کے ایک خادم کا بیان ہے کہ ان کے پاس کچھ دنوں قبل فون آیا تھا کہ درگاہ میں خواتین کی آمد پر پابند ی لگائی جائے ورنہ نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور بعد میں جمعرات کی رات یہ سانحہ پیش آیا،اسی کے ساتھ مشہور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کا بیان بھی اس جانب کھلے طور پر اشارہ کرتا ہے کہ مذکورہ حملہ کے پیچھے مسلم تنظیموںکاہاتھ ہے۔جس معاشرہ میں ہم جیتے ہیںاس تکثیری سماج میں ہمارے سامنے بارہا اس قسم کے خدا ناشناس، انسانیت سے عاری، تصوف و صوفیہ اور مزارات کے مخالف اپنے بیانات دیتے رہتے ہیں جن سے ان کے باغیانہ تیور اور جذبات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اصلاح معاشرہ کے نام پر جس طرح کی یہ کارروائیاں کرتے ہیں اس سے کبھی کوئی اصلاح کی امید نہیں کی جاسکتی۔چوںکہ یہ خود اصلاحی طریقۂ نبوی اور سنت اللہ سے خالی ہوتے ہیں۔پوری اسلامی تاریخ اس بات پرشاہد عدل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے آخری ادوار تک کبھی کسی دور میں مزارات و قبرستان پر بلڈوزر نہیں چلائے گئے، لیکن جب مزار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بلڈوزر چلایا گیا تبھی سے ایک طبقہ کے اندر اس طرح کے جذبات پیداہوئے اوران میں جسارت و جرأت پائی جانے لگی۔آج کی تاریخ میں اس طبقہ کو ریال و دینار دے دے کر ان کے حوصلے اتنے بلند کردیے گئے ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ دنیا کے کسی حصہ میںکوئی ایک مزار نظر نہ آنے دیں۔
میں اپنے ان جملوں سے قطعاً کسی بھی جماعت و تحریک اور تنظیم کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا نہ ہی ان شرپسند عناصر کی طرح مسلکی منافرت پھیلا کر خونی کھیل کو ہوا دینا چاہتا ہوں مگر وقت وانسانیت کا تقاضا ہے کہ وہ تحریکیں اور مکاتب فکر جن کی طرف اشارہ کرکے ہر ذی عقل یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ان دہشت گردوں کا تعلق فلاں جماعت سے ہے، فلاں تحریک سے ہے، ان کے اکابرین و ذمہ داران اس قسم کی انسانیت سوز حرکتوں کی کھل کر مذمت کریں اور اپنے متعلقین اور وابستگان کو ایسے گھناونے عمل سے اجتناب کی اعلانیہ تلقین کریں ،تاکہ معاشرہ میں رد عمل کے طور پر پھیلنے والی بے چینیوں اور متوقع فسادات ومسلکی تنازعات کا سدباب ہوسکے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہو اوراسلام اور مسلمانوں کی دلی آرزووں اور تمناوں کی تکمیل نہ ہوسکے ،جس کے وہ خواہاں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں ہی برسر پیکار کرکے ہم تماشائی کی صورت میں تالیاں بجائیں اور کلمہ گوایک دوسرے کا خون بہائیں ،دوسروں کو خود پر ہنسنے کے بہت سے مواقع ہم فراہم کرچکے ۔اب ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور کم ازکم سیاسی وسماجی ،ملکی وقومی معاملات ومسائل میں اتحادواتفاق کا مظاہرہ کرناچاہیے کہ حالات کامسلمانوں سے جبری تقاضا یہی ہے اور ملت کی فلاح وبہبود بھی اسی میں مضمر ہے۔یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ جب تھانہ بھون میں مولانا اشرف علی تھانوی کے مزار کو نقصان پہنچایا جائے تو اس کی مذمت میں تمام اردو اخبارات و رسائل کے صفحات کے صفحات سیاہ کردیے جائیں اور جب اس دربار میں دھماکہ کیا جائے جہاںکی حاضری کے وقت خود خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مزار کی عظمت ورفعت کے پیش نظر یہ فرمائیں:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں راپیرکامل کاملاں را رہ نماں
تواس قدیم ترین اور بافیض بارگاہ کے سلسلہ میں ہم اپنا کوئی رد عمل نہ ظاہر کریں، جب کہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہاں شہید ہونے والے تمام لوگ بے گناہ تھے۔ ہماری یہ خاموشی نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ شرمناک بھی ہے۔
واضح رہے کہ مزارات پر بے ہنگم عورتوں کی حاضری کے مخالف صرف طالبان یا دیوبندی اور اہل حدیث ہی نہیں بلکہ تمام صوفی و سنی علماء بھی اس کے سخت مخالف ہیں،البتہ وہ اصلاح معاشرہ کے لیے خلاف سنت طریقوں اور وحشیانہ رویوں کو جائز نہیںسمجھتے ۔
بزرگان دین پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹتے رہے ہیں، ان کے اقوال وافعال اور اعمال میں تضادات نہیں پائے جاتے تھے۔ ان میں جبروظلم کوبرداشت کرتے ہوئے دین کی دعوت کا جذبہ موجود تھا۔وہ نفس کی خاطر حلت وحرمت کے حیلے نہیں تراشتے تھے۔ان کی زندگیوں کا مقصد عوام کو انسانیت کی تفہیم کرانا ،ان میںاحساس سود و زیاں پیدا کرنا ،انہیں گناہوں سے دور کرنا اور ان سب کے ذریعہ خدا کی رضا کا حصول تھا ۔داتا ہوں کہ خواجہ ،قطب ہوں کہ فرید اور دیگر تمام سلاسل کے بزرگان دین کی عمومی پسندیدگی اور ان کی بارگاہوں سے ہندومسلم ،سکھ عیسائی سب کی یکساں محبت وفدائیت اور دلچسپی اظہرمن الشمس ہے اور آج کے نام نہاد مبلغین ومجتہدین کو تمام مذاہب کے متبعین بشمول مسلمانوں نے یکساں طور پر مسترد کردیا ہے۔چوں کہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے اندر اخلاص وللہیت کا فقدان ہے۔ان کے اندر قلب کو تڑپانے اور روح کو گرماکر بھٹکے ہوئے آہوں کو سوئے حرم لے چلنے کی استطاعت نہیں ہے -کیا دس سو سالہ صوفیہ کی تاریخ ہندستانی مزاج وطبیعت کو سمجھنے میں ہمارے لیے مددگار ثابت نہیں ہورہی ہے کہ یہاں صوفی منہج پر چل کر ہی (جو اصل نبوی منہج تھا )دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے ۔تخت وتاج پر قابض ہونے کے بعد دینی دعوت کا منصوبہ تیار کرنے والی کتنی ہی تحریکیں ھباء امنثورا ہوگئیں اور کتنے ہی مفروضہ امیرالمومنین کی امارت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی جب کہ دلوں پر حکومت کرنے والے حیات دوام اختیار کر گئے اور آج حکومت و انتظامیہ کے تطفیفی عمل کے باوجود موجودہ ہندوستان میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہیں اور پاکستان میں انہیں اکثریت حاصل ہے ۔یہ کثرت تعدادانہیں بزرگوں کی دعائے نیم شبی ،آہ سحرگاہی ،جہدمسلسل اور عمل پیہم کی رہین منت ہے۔اگر ان بزرگوں نے بھی گولے باروداور خودکش حملوں کاسہارا لیا ہوتا تو برصغیر ایشیا میں پاکستان وبنگلہ دیش کی مسلم حکومت اور ہندستان میں سب سے بڑی اقلیت میں مسلمان نہیں ہوتے نہ ہی صدیاں گزرجانے کے بعد انہیں یاد کیا جاتا ۔
بالفرض اگر ہم مان بھی لیں کہ قرآن و سنت کے علاوہ کوئی دوسرا ہمارے لیے آئیڈیل و نمونہ نہیں ہونا چاہیے، تب بھی کسی ایک حدیث اور ایک آیت قرآنی سے دہشت گردانہ کارروائیوں کی تائید نہیں ہوتی البتہ فتح مکہ کے دن جب کسی نے ’’الیوم یوم الملحمۃ‘‘ (آج خون کا دریا بہانے کا دن ہے۔)کا نعرہ دیا تو محسن انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘ (آج رحمت و رافت کا دن ہے) انتقام کا دن نہیں ہے۔آج ابوسفیان کے گھرمیں پناہ لینے والوں اور غلاف کعبہ کے اندر چھپنے والوں کو بھی معافی ہے۔بدر کے قیدیوں کو آزاد فرمایا۔ طائف کے اوباشوں اور لفنگوں کے لیے دعائے ایمان و رحمت فرمائی۔سب سے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتلوں، کلیجہ چبانے والوں اور دیگر اذیتیں پہنچانے والوں کی خطاؤں کو درگزر فرمادیا ۔یہ ہیں اسوۂ حسنہ کی چند جھلکیاں بصورت دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی ایک لمحہ کسی پر ظلم و ستم میں نہیں گزرا۔کسی بے گناہ کو کبھی پریشان نہیں کیا-یہ ہے اصل اسلام، یہ ہیں پیغمبر اسلام جنہوں نے خود پر کوڑے ڈالنے والی خاتون کی عیادت کی اور اس کے لیے دعائے صحت بھی فرمائی۔
۴؍جولائی 2010کو بعض اخبارات نے سنی تحریک محاذ کا اعلان شائع کیا جس میں انتقامی جذبات سے لیس سنی تحریک محاذ کے ذمہ داران کے بیانات شائع ہوئے ہیں۔ اپنے بیان میں ایک صاحب نے کہا کہ ’’عوام اہل سنت اب محفل نعت، ختم قل اور گیارہویں پر رقم خرچ کرنے کی بجائے اس رقم سے اسلحہ خریدیں تاکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے-‘‘ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ انتقامی جذبہ مصلحت سے یکسر خالی ہے۔چوںکہ انتقام منتقم کو عارضی طور پر تو مطمئن کردیتا ہے، مگر اس کے مثبت اثرات دنیا پر نقش نہیں ہوتے۔وہ بھی لائق مذمت ہوتے ہیں۔انتقامی کارروائیاں ہمیشہ احساس جرم اور ندامت و پشیمانی کے اظہار میں مجرمین کی راہ کا روڑا ثابت ہوتی رہی ہیں۔خون شہداء سے لت پت داتا کا دربار، خواجہ کا گنبد، تارا گڑھ پہاڑ، شمس الدین التمش کا دربار، ناگ پور کی پہاڑی، دہلی کے ذرات اور قطب مینار اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے اکابرین ہمیشہ عفو و در گزر سے کام لے کر دلوں پر اپنی حکومت مضبوط و مستحکم کرتے رہے ہیں۔ہم انتقامی کارروائی کے جذبات سے اوپر اٹھ کر اپنا احتساب بھی کریں کہ امتداد زمانہ کے ساتھ ہمارے اندر کس طرح کی تبدیلیاں آئی ہیں جن کی پاداش میں ہمیں یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں اور اس موقع پر اپنے قول وعمل سے یہ اعلان کریں کہ  ’’لاتثریب علیکم الیوم۔انتم الطلقاء‘‘ صلح ومعاہدہ سے فتح مبین تک پہنچنا اور اس کے بعد عام معافی کا اعلان کردینا یہی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور لازوال اسوہ ہے۔

خواتین معاشرہ کو صحیح سمت دینے میں اپنا رول ادا کریں

                                                                    نورین علی حق

صدیوں نہیں صرف نصف سال پرانی بات ہے کہ ہندوستانی خوا تین کی اکثریت بلا تفریق مذہب و ملت گھر ،شوہر، اور خاندان کی متبع تھی اور اسے اپنی ذمہ داریوں کا بھی بخوبی احساس تھا ۔ آخر کون سا انقلاب آیا کہ ہمارے معاشرے کی کایا پلٹ ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہوا ئے تیز و تند ہماری خواتین کے سروں سے آنچل اور دلوں سے شرم و حیا کوسوں دور اُڑا لے گئی اور اس کا انہیں خود بھی احساس تک نہیں ہوا اور یہ سلسلہ بے ستری ہنوز فزوں تر ہے اور خدا ہی بہتر جا نتا ہے کہ یہ سلسلہ اپنے اختتام کوپہنچے گا یا بڑھتا ہی چلا جائے گا۔

معاشرتی ،ملکی اور غیر ملکی سطح پر آزادی نسواں کا شور ،ادبی سطح پر تا نیثیت کا شوشہ ،صنف نازک کے احساسات و واردات کا بے محابہ اظہار ،بازار اور انڈسٹریل حلقوں میں خواتین کی طرف بڑھتے رجحانات ،گھریلوسطح پر عورتوں کا اپنی بالا دستی کا اصرار ،پرا ئیویٹ سیکٹر میں نو خیز و نو جوان دوشیزاؤں کی بڑھتی تعداد کیا صرف مثبت افکار کا نتیجہ ہیں یا انہیں نامعلوم طریقے سے منڈی کی رونق بنا دینے کی سازش ؟

ظاہر ہے کہ ہر با شعور اور عقل و خرد سے لیس انسان وہی جواب دے گا جو میں سننا چاہتا ہوں ،لیکن کیا وہ اپنی توجہ اس جانب بھی مبذول کرنے کو تیار ہے کہ جو آج ہو رہا ہے اور جس طرح والدین ،سر پرست آج بے بس و لاچار اور مجبور ہو گئے ہیں بلکہ اس کو اکیسویں صدی کی بڑی کامیابی قرار دینے میں قولاً نہیں تو عملاً شریک ضرور ہیںاور اپنی بہنوں،بیویوں ،بیٹیوں کے ا عمال سے سو فیصد واقفیت کے با وجود چشم پو شی اور تجاہل عارفانہ برتنے کو ہی حکمت عملی اور مصلحت پسندی گمان کر رہے ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ جن اقوام کے پیش نظر زندگی کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے وہ تو سراپا برائیوں میں ڈوبی ہو ئی ہیں ہی مسلم قوم میں بھی وہ تمام برائیاں اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہیں اور پورا معاشرہ برائیوں کے دلدل میں جا پھنسا ہے اور طر فہ تماشا یہ کہ اسے اپنے اعمال پر ندامت کے بر خلاف فخرومباہات ہے اور وہ اپنے ان غیر شرعی ا عمال کے حق میں یہودی روایات کو آگے بڑھا تے ہوئے مفروضہ دلائل اور غیر معقولی تاویلات کامتلاشی بھی ہے۔گر چہ ان تاویلات کی اہمیت ’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال   اچھا ہے‘‘ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

ایک طرف صار فیت کے اس دور میں باپ بھائی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں ،تاکہ انہیں شادی بیاہ جیسی کمر توڑ ذمہ داری سے چھٹکارا مل جائے اور انہیں اس سلسلہ میں دردرکی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں ۔وہیں ہمارے معاشرے میں مروج نظام شادی کو بھی اس بے لگامی میں بڑا دخل ہے چوں کہ اشیائے خوردنی اور ضروریات زندگی کی ادائیگی ہی آج جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے اور اس پر مستزادیہ کہ شادی بیاہ میں استطاعت سے زیادہ مطالبات ۔آخر سر پرست چشم پوشی نہ بر تیں تو کیا کریں ؟ حالاں کہ یہ نظام شادی خود ہمارے معاشرے نے بصد شوق اپنے سر منڈھا ہے اور آج اسی کی ضرب سے خو ں آلود بھی ہے۔
اس کے علاوہ یہ کہ خواتین بغاوت پر تبھی آمادہ ہو ئیں جب ظلم و ستم کا پانی سر سے اونچا ہو گیا ۔انہیں تو گھر کی چہار دیواری تک محدود رکھا گیا اور مرد لاوارث جانوروں کی طرح آزاد اپنی خواہشیں پوری کرتے رہے ۔وفا کا درس صرف خواتین کو پڑھانے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور مرد بے وفا ئیوں کی انتہا کو پار کرتے رہے ۔ہونا کیا تھا بالآخر خواتین نے بھی اپنے پیروں سے قید و بند کی بیڑیاں اتار پھینکیں اور جب گھنگرو باندھ کر بر سر بازار نظر آئیں تو معاشرہ کے مردوں کو شریعت اور اسلامی تعلیمات یاد آنے لگیں ،جب کہ رسول اعظم ﷺکی بے شماراحادیث ،آپ کے ا عمال یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ کی وفاؤں ،رہنمائیوں اور بے انتہا محبتوں کا نتیجہ تھیں حضرت خدیجہ ۔قرآن پاک نے جہاں خواتین پر مردوں کے حقوق کی تعیین کی ہے وہیں مردوں کو بھی عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیا ہے۔
نصف صدی پر محیط مسلم خواتین کے ذریعہ لکھے جانے والے ادب کا ہی عدل و انصاف کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اس نتیجہ تک پہنچنا مشکل نہیں کہ وہ باغیانہ تیور رکھنے والی تحریریں ردعمل کے طور پر سامنے آئیںحالاںکہ اس ردعمل کو بھی مرد انہ سماج نے مثبت طریقہ پر نہیں لیا اور واویلا کرتے رہے۔ جس کا نقصان وقت و حالات کے ساتھ انہیں ہی جھلینا پڑا ۔جب کہ حکمت عملی اور وقت کا تقاضا یہ تھا کہ مردانہ سماج اپنا محا سبہ کرتا اور اپنے اعمال و افعال کو رسول کریم  ﷺ کے سانچہ میں ڈھال کر خواتین کے سامنے پیش کرتا تو انہیں بھی خود کو اپنے دور کی فاطمہ ،خدیجہ، رابعہ بصری بنانے میں آسانی ہو تی اور پھر مسلم تاریخ کا ایک نیا آغاز ہو تا اور ہمارا معاشرہ حضرت امام حسن ،حضرت امام حسین ،حضرت حسن بصری ،حضرت جنید بغدادی ،حضرت محی الدین عبد القادر جیلانی ، حضرت شیخ معین الدین چشتی ،حضرت شیخ احمد سر ہندی ،حضرت امام غزالی ،شیخ ابن تیمیہ ، شیخ ابن قیم، حضرت شیخ کلیم اللہ جہان آبادی جیسی شخصیات کے اعمال سے لیس فرزند وں سے فیض پاتا۔بے راہ روی کے طوفان میں گھرا ہمارا معاشرہ آج ان ماؤں سے محروم ہے جو وقت کے ائمہ کی ولادت کا ذریعہ بنتی رہی ہیں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کا ہمارا معاشرہ پوری طرح خواتین کے ہاتھوں میں ہے ۔انہیں بھی اس بات کی بہرحال ضرورت ہے کہ وہ بھی معاشرہ کو صحیح سمت دینے میں اپنا رول ادا کریں اور صرف منفی رد عمل سے کا م نہ لے کر مثبت رد عمل کی طرف بھی پیش رفت کریں کہ ہر زمانہ میں ماؤں کی اہمیت مسلم رہی ہے اور انہیں کی تر بیت کے نتیجہ میں  اسلامی معاشرہ نے اپنے وقت کے بر گزیدہ اکابر ین سے کسب فیض کیا ہے ۔
قرآن پاک اور احادیث مبارک نے ذاتی طور پر خود کو محفو ظ رکھنے کے جو طریقے خواتین کو بتائے ہیں اگر صرف انہیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے عورتیں اختیار کر لیں تو معاشرہ کی آدھی برائیاں خود بہ خو دختم ہو جائیں گی ۔
آج عورتوں نے بھی اپنا احتساب ترک کر دیا ہے حالا نکہ مو جودہ زمانہ کا جبری تقاضا یہ ہے کہ مسلم معاشرہ کا ہر فرد خواہ مرد ہو کہ عورت اپنے ہر ہر فعل کا محا سبہ کر ے۔ یوروپ کے سراب نما نعروں کے تتبع میں خود کو اسی راہ پر نہ ڈالے بلکہ قرآن و احادیث اور دیگر اسلامی کتب اور عملی اسلام کا بنظر غائر مطالعہ کرے اور اسے سائنٹفک انداز سے پر کھے یقیناً وہ آپ کے حق میں ہی ہو گا ۔ عورتوں کے حوالہ سے اسلام کا جو نظر یہ ہے وہ ان ہی کے لیے ہے اور اس میں ان کا بے شمار فائدہ بھی مضمر ہے ۔
حیوانیت اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے جس انداز کے کپڑے اور ملبوسات کی ایجاد مرد معا شرہ کر رہا ہے اسے استعمال سے قبل خواتین کے اذہان میں یہ بات آنی چاہیے کہ اس میں کہیں ان کی بے حرمتی تو نہیں ہو رہی ہے ۔آج ہر محفل اور مجلس میں جس طرح عورتوں کو لایا جا رہا ہے آخر اسی انداز کے کپڑے مرد اپنے لیے کیوں نہیں پسند کرتے؟

مسلمانوں کی جذباتیت دورحاضر کا بڑا المیہ


                                                                       نورین علی حق 

ناموس  رسالت و و حدانیت ہو کہ عظمت قرآن یا الیکشن اور کر کٹ میچ ہر جگہ ان دنوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا عام سی بات ہو گئی ہے ۔عالمی سطح پر جب مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں تو ان سازشوں کی طرف سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانے کے لیے سال میں کم از کم دو تین بار جذبات انگیزی کا سہارا تو لیا ہی جاتا ہے اور اب تو صرف مغربی مسلم دشمنوں تک ہی یہ تخصیص نہیں رہ گئی ہے ،اس حربہ کا استعمال وقتاً فوقتاً ہمارا ملکی میڈیا بھی بڑے شاطرانہ انداز میں کرنے لگا ہے چو ں کہ اس کا بھی دست شفقت مسلمانوں کی دکھتی رگ تک پہنچ چکا ہے اور پوری دنیا کے فرقہ پرست عناصر ہر سطح پر مسلمانوں کے خلاف جنگ کا طبل اسی کا سہارا لے کر بجا تے ہیں اور نتائج کی فکر کیے بغیر مسلمان سڑکوں کی زینت بن جاتے ہیں حالانکہ ابتدائی مر حلہ کے بعد تمام مراحل میں مسلمانوں کو شکست و ریخت کا سامنا کر نا پڑتا ہے اور وہ احتجاج و مظاہرہ میں اتنے منہمک اور توازن کھو بیٹھتے ہیں کہ عقل مندی و ہوش مندی ،دانائی اور حکمت عملی ان کے سامنے سر پٹخ  پٹخ کر دم توڑ جاتی ہے ۔
اس پس منظر میں اگر ہم ماضی کی ورق گردانی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں بھی جب جب ہم جذباتی ہوئے ہیں تب تب ہمیں نا کا میوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے جنگ احد میں پچاس فوجیوں کے دستہ کو وادی قناۃ کے جنو بی کنارے پر واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی پر جو اسلامی لشکر کے خیمہ سے کوئی ڈیڑھ سو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے اور اب جبل رماۃ کے نام سے مشہور ہے تعینات فرمایا تھا اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ان فوجیوں کو یہ حکم دیا تھا کہ ’’اگر تم لوگ دیکھو کہ ہمیں چڑیا ں اچک رہی ہیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑ نا یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں اور اگر تم لوگ دیکھوکہ ہم نے قوم کو شکست دے دی ہے اور انہیں کچل دیا ہے تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں ۔‘‘ لیکن کفار اور مشر کین مکہ کو قلاش بنا کر خالی ہاتھ واپس بھیجنے کے صحابہ کرام کے منحرف جذبات اور اجتہادی غلطی نے خود اسلامی لشکر کو کیا کچھ نقصان پہنچایا ۔اسے پڑھ کر آج بھی خاص تو خاص عام مسلمانوں کے رونگٹے بھی کھڑے ہو جا تے ہیں ۔دوسری جانب ہندوستانی سطح پر جذباتی فیصلوں اور غیر دانش مندانہ رویوں کے منفی نتیجہ کا جائزہ لینا ہو تو ہمیں اور نگ زیب عالم گیر کی زندگی کا غائرانہ مطالعہ کرنا چاہئے کہ اس کے عہد میں بڑے اہم مناصب پر برادران وطن متمکن تھے اور ان کے شعرا اور مورخین نے اس کی گواہی بھی دی ہے مگر بعض جذباتی فیصلے نے ان تمام رواداریوں کے باوجود اورنگ زیب کو ہندوستان کی اکثریت کی نگاہ میں مطعون قرار دے دیا ۔اس کے بر عکس ہندوستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت کا جس قدر کام حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمۃاللہ علیہ اور ان کے خلفا او ررفقائے کار سے ہوا وہ کسی دوسرے کے حصہ میں نہ آسکا، جوق در جوق انسان اسلام کی پناہ میں آئے اس لحاظ سے دیگر مذاہب کو بھاری خسارہ ہوا اس کے با وجود آج بھی حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بلا تفریق مذہب و ملت مقبول ہے اور آثار یہ بتاتے ہیں کہ شیخ کی روحانی سر پرستی اور حکمرانی میں آئندہ بھی ہندوستان رہے گا۔ یہ صرف اور صرف ان کی حکمت عملی ،دوراندیشی ،خلوص و للہیت ،عدم تشدد اور غیر جذباتی رویوں کا رہین منت ہے ۔
ہندوستان گیر سطح پر جب ہم مسلم جذباتیت کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ عام مسلمانوں کے جذبات کو انگیز کرنا صرف غیروں، شر پسند عنا صر اور میڈیا کا ہی مشغلہ نہیں ہے ۔ یہ روش ہمارے مقتدا اور پیشوا کی تقا ریر سے بھی پروان چڑھتی ہے ۔ مدارس کی درسگاہیں ہوں کہ مساجد کے منبر، دینی اسٹیج ہو کہ مجالس ہر جگہ خود ایک مسلم مکتبہ فکر کا پیشوا اور رہنما دوسرے مکاتب فکر کے خلاف اپنے عوام کے جذبات کو انگیز کر کے دوسروں سے متنفر کرنے کی تگ ودو میں لگا رہتا ہے اور اپنی تقریر وں کے ہر جملے پر نعرے بازی کے لیے عوام کو جذباتی بنا تا ہے اور ایسے ایسے مفروضہ واقعات و حکایات گھڑتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہو تا ۔ مستحب امور کی انجام دہی کے لیے فرائض کے ترک کا کہیں سبب بنتا ہے تو کہیں مستحب امور کو کفر و شرک اور بد عات و خرا فات کے خانہ میں رکھنے کے لیے وہ اپنی مخصوص شرعی تعر یفیں ایجاد کرتا ہے تو دوسرا مکتبہ فکر کا پیشوا دین و اسلام کو اپنی جاگیر تصور کرتے ہوئے اسے دین سے خارج کر دیتا ہے ۔حالاں کہ مذکورہ ادارے نظر یہ ساز اور فکر ساز فیکٹریاں ہیں،جہا ں ماضی میں مثبت افکار و نظریات ڈھالے جاتے رہے ہیں ۔ جب تک ان اداروں میں یہ رویے روا نہیں تھے تب تک اعلیٰ اذہان و قلوب کے مالک پیدا ہوتے رہے اور جب سے ان مقدس مقامات کا غلط استعمال شروع ہوا ہماری ساری توا نا ئی ،حرارت اور طاقت و قوت باہمی نزاع میں ہی صرف ہونے لگی۔ اب جب ہم مجالس و جلسے اور جلوس سے واپس لو ٹتے ہیں تو تزرع اور خشیت الٰہی کی بجائے ہمارے سروں میں دوسروں کو گمراہ ،باطل ،بے راہ ،بد دین اور بد عتی و کافرقرار دینے کا سودا سمایا ہو تا ہے ۔ یہ سب کچھ ذاتی اور انفرادی مفاد یا محدود مسلکی مفاد کی خاطر کیا جاتا ہے ۔پھر جب کہیں وہی علما مشتر کہ پلیٹ فارم پر اکھٹا ہوتے ہیں تو ’’واعتصمو ابحبل اللہ جمیعاولا تفرقوا ‘‘کی دہائی دیتے نہیں تھکتے یہ الگ بات ہے کہ ان کی وہ دہائی صرف اس اسٹیج اورپلیٹ فارم کے لیے محدود ہوتی ہے ۔جب کہ ہو نا تو یہ چاہئے کہ ان مقامات کا استعمال ہمارے احتسا ب کے لیے کیا جاتا اور ہمیں یہ بتا یا جا تا کہ ہمارے جذباتی رویوں سے خود ہمیں اور ہماری وجہ سے ہمارے دین پر کس طرح کی انگشت نمائیاں کی جا رہی ہیں ۔قرآن پاک کے بے شمار مقا مات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا ء کو دین،پیغمبر اور خود خدائے بر تر و با لاکے سخت ترین دشمنوں کے پاس دین کی دعوت لے کر بھیجا تو یہ بھی فرمایا ’’ادعو االیٰ سبیل ربک با لحکمۃ والموعظمۃ الحسنۃ ‘‘ کلام کی فصاحت پر غور کریں کہ بنیادی طور پر یہاں جذباتی ہونے سے روکا گیا ہے ۔اور حکمت کے ساتھ دین و اسلام کی دعوت پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ یہ کہ ہمارے نبی کریم ﷺکی حیات طیبہ میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جہاںآپ ﷺ جذباتی ہو کر بدعا فرما دیتے تو پوری کی پوری قوم تباہ و ہلاک ہو جاتی ۔مگر آپ نے کبھی صبر ،ثبات،استقامت کا دامن ہاتھوں سے جانے نہ دیا اور عملی طور پر ہمیں یہ پیغام دیا کہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں جذبا تیت سے اجتناب کرنا ہے، حکمت سے کام لینا ہے اور نفس کو مزکی بنانا ہے ۔قرآن پاک کی ایک آیت ہے ۔’’لقد منّ اللہ علیٰ المومنین اِذ بعث فیھم رسولاًمن انفسھم یتلو علیھم آیاتہ و یز کیھم ویعلّمُھُمُ الکتاب و الحکمۃ‘‘
اس میں رسول اللہ ﷺکی بعثت کے مقاصد میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ آپ تزکیہ فر ماتے ہیں اور کتاب و حکمت سکھاتے ہیں، آیت میں مو جود الفاظ کی تر تیب اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ تعلیم کتاب و حکمت سے پہلے تزکیہ کی ضرورت ہے اور موجودہ معاشرہ میں تز کیہ کا عمل ٹھہر سا گیا ہے اور تز کیہ کے ٹھہراؤ کے بعد جذباتیت کا غالب آنا عین فطری امر ہے ۔یو ں تحریر و تقریر میں جا بجا تز کیہ کا لفظ مل جا تا ہے البتہ تز کیہ کا جو اصل تقاضا ہے وہ تقر یباً تمام                               جگہوں سے مفقودہے                                         

EK SAHMA HUWA ADMI ! BY NOORAIN ALI HAQUE







Deoband's curious Vastanvi affair: Qasmi fraternity should introspect


Urdu Section
28 Jan 2011, NewAgeIslam.Com

By Noorain Ali Haque
  
    Darul Uloom Deoband has turned into a political battlefield once again. Even people with zero literacy are enjoying the game. Even person who have spent a couple of years in Deoband is advising Majlis-e-Shoura to review its decision. On the other hand, elder Qasmis are silent spectators. The members of the Majlis-e-Shoura too think it wise to be silent on the issue. Qasmi brethren from all over the country who are members of the Majlis-e-Shoura are not playing any role in this matter. As a result, many people who have differences with him over principles and practices are taking advantage of this situation.
On this account, Shahi Imam Ahmad Bukhari, Maulana Mufti Mukarram and Prof Akhtarul Wassay deserve praise who were not infuenced by sectarian feelings nor did they challenge the decision of the Majls-e-Shoura. They only demanded that if Maulana Wastanvi has praised the Chief Minister of Gujarat, he should apologise to the whole Muslim community and that too done in a manner that should be agreed on fully.
Today adherence to democratic principles is necessary for the Urdu media at least from outside if not from inside. Any newspaper can put his full weight in supporting any sect but having differences with anyone is not permitted by circumstances. Sectarian differences should be confined to Muslims and should not go outside. Only the examples of their unity should reach the others. But if a sectarian dispute finds a place in the headlines of a newspaper, how can it be prevented from reaching the others. I should make it clear that I am neither a Deobandi nor a Bareillvi, nonetheless I am putting forth my views.
However, the word sunni in the news published in newspapers was of secondary importance. In fact I would like to say something with reference to some Qasmis who hanker after fame and publicity. The drama started with Maulana Wastanvi’s appointment as the VC of Darul Uloom Deoband. First, the picture of the Maulana with the ‘idol’ was mailed to newspapers. Then the absence of the suffix Qasmi in his name annoyed some people. And his statement given to the Times of India added fuel to fire. His opponents got a sensitive issue which they grabbed and made the most of it. All of a sudden, the whole print media was agog with statements against him.
Whatever has happened is not new in the history of Darul Uloom and perhaps they love to publicise their internal issues. So who can stop them from doing it? Albeit, the Muslim society cannot afford to see a Muslim organisation becoming a centre of controversy and swallow the jeers from preople right from the film industry to those from the non-Muslim community. Though there are other big madrasas in the country like Nadwatul Ulema, Lucknow, Jamia Ashrafia Mubarakpur, Jamia Salfia Benaras, Jamiatul Falah Azamgarh, Jamiatul Islah Azamgarh and power shift also happens in them but the news does not create such a frenzy in the Muslim community. Darul Uloom Nadwatul Ulema is worthy to be emulated that all the issues are resolved peacefully and at the behest of Majlis-e-Shoura. Even the teachers and the students do not clash with the administrative issues. The decision of the Majlis-e-Shoura is final and binding whereas the less decisions of Darul Uloom Deoband  become controversial and the Qasmi fraternity blows them out of proportion due to their follies. This is very unfortunate. Now the Qasmi frternity should do introspection instead of indulging in media war. The same pro-Modi person and distributor of idols was not only a respectable person among the Qasmis but was a resourceful person for the Darul Uloom apart from being a member of the Majlis-e-Shoura. At that time, they did not find any fault with them. But when he became the VC of Darul Uloom, the same people started finding faults in him. If appointment of a pro-Modi person as the VC of Darul Uloom is a crime, then those making a hue and cry over his appointment should tell according to which principle his membership of the Majlis-s-Shoura was being tolerated for all these years.
Prior to this, on what grounds have the students of hundreds of Deobandi madrasas across the country been sent to Madrasa Ishaatul Uloom Akl Kuan for Qirat competitions on the invitation of Maulana Vastanvi. Thousands of studens studying in Ashaatul Uloom are not Deobandis. And if they are, why were handed over to a distributor of idols for education and training?
Isnt it because students get to study at a madrasa where there are better arrangements for study, boarding and foods. When personal interests are at stake everything is fine but when it is an issue of your greatest institution, where is the wisdom in putting its dignity and honour at stake? Do they have to remind that sir the world is laughing at you and it is ruining the whole Sunni community.
As for the the distribution of idol, it is a preplanned conspiracry. Definitely, pictures speak a thousand words and in the picture Maulana Wastanvi is easily visible. But if there had been a Qasmi in the place and had been handed an idol to present someone in a national integration ceremony, what would he have done in that situation? Would he have stayed there or get out of the place after quarreling with people. And if he had quarreled and left the place,what would have the repercussions been? Secondly, many Hindu leaders and religious personalities do this from time to time in our programmes. They arrange iftar parties for us and use handerkerchief and skull caps. That does not mean that they become Muslims or make some secret deals with us. Maualana Wastanvi did not put on sandal tilak, why then is he being treated like an untouchable. I agree that his act is neither commendable nor worthy to be emulated, rather it is condemnable. But the question is why the Qasmi fraternity is condemning his act after he was elected as the VC. Why didn’t it do it openly before that?
The issue has been raised neither in love of Darul Uloom nor in the spirit of Muslims but the main purpose behind it is to satisfy one’s ego. A group of Qasmis have thrust the whole community into this controversy that is bound to have negative implications on Darul Uloom Deoband and the Muslims in general. These are the questions the Qasmi fraternity should think over seriously and in case they get the realisation, they should give up their dual life. You have fought so many times during the last fifty-sixty years that the members of the community have become fed up with you. That is the reason, the allegations of selling fatwas are levelled against the greatest institution of the country and the twenty crore population of Muslims of India remains silent thinking that the electronic media might be true. It happens only because you do not have a strong grip on the Muslims. Now such lecherous and hellish politics will not help any more. Work hard. And if you have a penchant for publicity, then write articles with some labour and present research works so that Darul Uloom can be proud of you. Maulana Wastanvi singing paeans to Modi is a condemnable crime which can never be appreciated and it is possible that he did it for returns. I am not presenting myself as an advocate of Wastanvi but would like to say that before dragging the community into this controversy, they should ask their elder ulema why they handed the Vice-Chanellor’s position to him. Please stop this media war as it is not an issue which requires the involvement of 20 crore Indian Muslims.
Source: Hamara Samaj, New Delhi