نورین علی حق
غزہ جانے والے ترکی کے جہاز پر اسرائیل کا جارحانہ حملہ، اس حملہ کی عالمی مذمت کو روکنے کے لیے امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، اسی ادھیڑبن کے درمیان لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر خود کش حملہ یہ مختلف حادثات و واقعات مسلمانوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتے ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور ان کے حق بجانب ہونے کا جواز بھی پیدا کیا جارہا ہے۔داخلی طور پر مسلمانوں کے درمیان اتنے اختلافات ہیں کہ امریکہ کی ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی کی تائید میں سعودی حکمراں شاہ عبداللہ ذرا بھی عار نہیں محسوس کرتے۔دوسری طرف ہندوپاک میں کچھ مسلم تنظیمیں ایسی ہیں جو خود کش حملوں کو ہی تمام تر مسائل کا حل سمجھتی ہیں، جس سے مسلمانوں کی شبیہ مزید خراب ہونے کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکل سکتا-
یکم جولائی 2010 کو لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جس طرح کا واقعہ رونما ہوا وہ تمام مسلمانوں کو وحشی اور انسانیت سوز ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، جس میں پچاسوں زائرین شہید کردیے گئے اور سیکڑوں کی تعداد میں داخل اسپتال ہوئے۔ مزار سے تیس میٹرکی دوری پر ہونے والے اس خود کش حملہ میں جان گنوانے والے لوگوں کے اعضائے جسمانی ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔جگہ جگہ خون کے دھبے تھے۔ سنگ مر مر سے تعمیر اس عمارت کو تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، البتہ عمارت میں لگے شیشے ٹوٹ کر مزار شریف پر آگرے۔ان تمام مناظر کی تصاویر مختلف اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں اور ویب سائٹس پر بھی انہیں نمایاں طور سے شائع کیاگیا-اس واقعہ کو دلیل کے طور پر استعمال کرکے کل کو امریکہ پاکستانی خطہ میں ڈرون حملے کرتا ہے تو اس پر لعن وطعن کرنے کا ہمیں کیا حق حاصل ہوگا ؟وہ تو علی الاعلان یہ باور کرائے گا کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں طالبان اور القاعدہ سرگرم عمل ہیں جن کی بیخ کنی کے لیے فوجی کارروائی ضروری ہے اور اس کے اتحادی کھل کر اس کی حمایت کریں گے۔ اس وقت جہاد کے نام پر عوام کا ناحق خون بہانے والے چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں داخل ہوجائیں گے اور اس میں بھی عام مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے گی اور ایوان باطل میں رقص ابلیس کا دور چلے گا تو دوسری طرف پوری دنیا کے مسلمان چاہ کربھی بے اثرہی سہی نعرئہ احتجاج بھی درج نہیں کراسکیں گے۔
بعض تجزیہ نگار اپنے انداز میں اس حملہ کے پس پشت یورپی لابی کی شمولیت کی طرف بھی اشارے کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا حملہ آور غیر مسلم تھے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہی ہوگا تو کیا آج کے مسلمان اتنے کم عقل او رباؤلے ہوچکے ہیں کہ انہیں جس طرح استعمال کیا جاتا ہے، وہ استعمال ہوجاتے ہیں اور مزارات اولیاء پر بھی غارت گری کا بازار گرم کردیتے ہیں، جس میں بچوں کی آہیں، جوانوں کا کرب اورضعیفوں کی لاچاری سب کچھ شامل ہوتی ہے۔داتا دربار کے ایک خادم کا بیان ہے کہ ان کے پاس کچھ دنوں قبل فون آیا تھا کہ درگاہ میں خواتین کی آمد پر پابند ی لگائی جائے ورنہ نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور بعد میں جمعرات کی رات یہ سانحہ پیش آیا،اسی کے ساتھ مشہور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کا بیان بھی اس جانب کھلے طور پر اشارہ کرتا ہے کہ مذکورہ حملہ کے پیچھے مسلم تنظیموںکاہاتھ ہے۔جس معاشرہ میں ہم جیتے ہیںاس تکثیری سماج میں ہمارے سامنے بارہا اس قسم کے خدا ناشناس، انسانیت سے عاری، تصوف و صوفیہ اور مزارات کے مخالف اپنے بیانات دیتے رہتے ہیں جن سے ان کے باغیانہ تیور اور جذبات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اصلاح معاشرہ کے نام پر جس طرح کی یہ کارروائیاں کرتے ہیں اس سے کبھی کوئی اصلاح کی امید نہیں کی جاسکتی۔چوںکہ یہ خود اصلاحی طریقۂ نبوی اور سنت اللہ سے خالی ہوتے ہیں۔پوری اسلامی تاریخ اس بات پرشاہد عدل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے آخری ادوار تک کبھی کسی دور میں مزارات و قبرستان پر بلڈوزر نہیں چلائے گئے، لیکن جب مزار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بلڈوزر چلایا گیا تبھی سے ایک طبقہ کے اندر اس طرح کے جذبات پیداہوئے اوران میں جسارت و جرأت پائی جانے لگی۔آج کی تاریخ میں اس طبقہ کو ریال و دینار دے دے کر ان کے حوصلے اتنے بلند کردیے گئے ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ دنیا کے کسی حصہ میںکوئی ایک مزار نظر نہ آنے دیں۔
میں اپنے ان جملوں سے قطعاً کسی بھی جماعت و تحریک اور تنظیم کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا نہ ہی ان شرپسند عناصر کی طرح مسلکی منافرت پھیلا کر خونی کھیل کو ہوا دینا چاہتا ہوں مگر وقت وانسانیت کا تقاضا ہے کہ وہ تحریکیں اور مکاتب فکر جن کی طرف اشارہ کرکے ہر ذی عقل یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ان دہشت گردوں کا تعلق فلاں جماعت سے ہے، فلاں تحریک سے ہے، ان کے اکابرین و ذمہ داران اس قسم کی انسانیت سوز حرکتوں کی کھل کر مذمت کریں اور اپنے متعلقین اور وابستگان کو ایسے گھناونے عمل سے اجتناب کی اعلانیہ تلقین کریں ،تاکہ معاشرہ میں رد عمل کے طور پر پھیلنے والی بے چینیوں اور متوقع فسادات ومسلکی تنازعات کا سدباب ہوسکے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہو اوراسلام اور مسلمانوں کی دلی آرزووں اور تمناوں کی تکمیل نہ ہوسکے ،جس کے وہ خواہاں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں ہی برسر پیکار کرکے ہم تماشائی کی صورت میں تالیاں بجائیں اور کلمہ گوایک دوسرے کا خون بہائیں ،دوسروں کو خود پر ہنسنے کے بہت سے مواقع ہم فراہم کرچکے ۔اب ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور کم ازکم سیاسی وسماجی ،ملکی وقومی معاملات ومسائل میں اتحادواتفاق کا مظاہرہ کرناچاہیے کہ حالات کامسلمانوں سے جبری تقاضا یہی ہے اور ملت کی فلاح وبہبود بھی اسی میں مضمر ہے۔یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ جب تھانہ بھون میں مولانا اشرف علی تھانوی کے مزار کو نقصان پہنچایا جائے تو اس کی مذمت میں تمام اردو اخبارات و رسائل کے صفحات کے صفحات سیاہ کردیے جائیں اور جب اس دربار میں دھماکہ کیا جائے جہاںکی حاضری کے وقت خود خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مزار کی عظمت ورفعت کے پیش نظر یہ فرمائیں:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں راپیرکامل کاملاں را رہ نماں
تواس قدیم ترین اور بافیض بارگاہ کے سلسلہ میں ہم اپنا کوئی رد عمل نہ ظاہر کریں، جب کہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہاں شہید ہونے والے تمام لوگ بے گناہ تھے۔ ہماری یہ خاموشی نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ شرمناک بھی ہے۔
واضح رہے کہ مزارات پر بے ہنگم عورتوں کی حاضری کے مخالف صرف طالبان یا دیوبندی اور اہل حدیث ہی نہیں بلکہ تمام صوفی و سنی علماء بھی اس کے سخت مخالف ہیں،البتہ وہ اصلاح معاشرہ کے لیے خلاف سنت طریقوں اور وحشیانہ رویوں کو جائز نہیںسمجھتے ۔
بزرگان دین پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹتے رہے ہیں، ان کے اقوال وافعال اور اعمال میں تضادات نہیں پائے جاتے تھے۔ ان میں جبروظلم کوبرداشت کرتے ہوئے دین کی دعوت کا جذبہ موجود تھا۔وہ نفس کی خاطر حلت وحرمت کے حیلے نہیں تراشتے تھے۔ان کی زندگیوں کا مقصد عوام کو انسانیت کی تفہیم کرانا ،ان میںاحساس سود و زیاں پیدا کرنا ،انہیں گناہوں سے دور کرنا اور ان سب کے ذریعہ خدا کی رضا کا حصول تھا ۔داتا ہوں کہ خواجہ ،قطب ہوں کہ فرید اور دیگر تمام سلاسل کے بزرگان دین کی عمومی پسندیدگی اور ان کی بارگاہوں سے ہندومسلم ،سکھ عیسائی سب کی یکساں محبت وفدائیت اور دلچسپی اظہرمن الشمس ہے اور آج کے نام نہاد مبلغین ومجتہدین کو تمام مذاہب کے متبعین بشمول مسلمانوں نے یکساں طور پر مسترد کردیا ہے۔چوں کہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے اندر اخلاص وللہیت کا فقدان ہے۔ان کے اندر قلب کو تڑپانے اور روح کو گرماکر بھٹکے ہوئے آہوں کو سوئے حرم لے چلنے کی استطاعت نہیں ہے -کیا دس سو سالہ صوفیہ کی تاریخ ہندستانی مزاج وطبیعت کو سمجھنے میں ہمارے لیے مددگار ثابت نہیں ہورہی ہے کہ یہاں صوفی منہج پر چل کر ہی (جو اصل نبوی منہج تھا )دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے ۔تخت وتاج پر قابض ہونے کے بعد دینی دعوت کا منصوبہ تیار کرنے والی کتنی ہی تحریکیں ھباء امنثورا ہوگئیں اور کتنے ہی مفروضہ امیرالمومنین کی امارت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی جب کہ دلوں پر حکومت کرنے والے حیات دوام اختیار کر گئے اور آج حکومت و انتظامیہ کے تطفیفی عمل کے باوجود موجودہ ہندوستان میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہیں اور پاکستان میں انہیں اکثریت حاصل ہے ۔یہ کثرت تعدادانہیں بزرگوں کی دعائے نیم شبی ،آہ سحرگاہی ،جہدمسلسل اور عمل پیہم کی رہین منت ہے۔اگر ان بزرگوں نے بھی گولے باروداور خودکش حملوں کاسہارا لیا ہوتا تو برصغیر ایشیا میں پاکستان وبنگلہ دیش کی مسلم حکومت اور ہندستان میں سب سے بڑی اقلیت میں مسلمان نہیں ہوتے نہ ہی صدیاں گزرجانے کے بعد انہیں یاد کیا جاتا ۔
بالفرض اگر ہم مان بھی لیں کہ قرآن و سنت کے علاوہ کوئی دوسرا ہمارے لیے آئیڈیل و نمونہ نہیں ہونا چاہیے، تب بھی کسی ایک حدیث اور ایک آیت قرآنی سے دہشت گردانہ کارروائیوں کی تائید نہیں ہوتی البتہ فتح مکہ کے دن جب کسی نے ’’الیوم یوم الملحمۃ‘‘ (آج خون کا دریا بہانے کا دن ہے۔)کا نعرہ دیا تو محسن انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘ (آج رحمت و رافت کا دن ہے) انتقام کا دن نہیں ہے۔آج ابوسفیان کے گھرمیں پناہ لینے والوں اور غلاف کعبہ کے اندر چھپنے والوں کو بھی معافی ہے۔بدر کے قیدیوں کو آزاد فرمایا۔ طائف کے اوباشوں اور لفنگوں کے لیے دعائے ایمان و رحمت فرمائی۔سب سے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتلوں، کلیجہ چبانے والوں اور دیگر اذیتیں پہنچانے والوں کی خطاؤں کو درگزر فرمادیا ۔یہ ہیں اسوۂ حسنہ کی چند جھلکیاں بصورت دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی ایک لمحہ کسی پر ظلم و ستم میں نہیں گزرا۔کسی بے گناہ کو کبھی پریشان نہیں کیا-یہ ہے اصل اسلام، یہ ہیں پیغمبر اسلام جنہوں نے خود پر کوڑے ڈالنے والی خاتون کی عیادت کی اور اس کے لیے دعائے صحت بھی فرمائی۔
۴؍جولائی 2010کو بعض اخبارات نے سنی تحریک محاذ کا اعلان شائع کیا جس میں انتقامی جذبات سے لیس سنی تحریک محاذ کے ذمہ داران کے بیانات شائع ہوئے ہیں۔ اپنے بیان میں ایک صاحب نے کہا کہ ’’عوام اہل سنت اب محفل نعت، ختم قل اور گیارہویں پر رقم خرچ کرنے کی بجائے اس رقم سے اسلحہ خریدیں تاکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے-‘‘ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ انتقامی جذبہ مصلحت سے یکسر خالی ہے۔چوںکہ انتقام منتقم کو عارضی طور پر تو مطمئن کردیتا ہے، مگر اس کے مثبت اثرات دنیا پر نقش نہیں ہوتے۔وہ بھی لائق مذمت ہوتے ہیں۔انتقامی کارروائیاں ہمیشہ احساس جرم اور ندامت و پشیمانی کے اظہار میں مجرمین کی راہ کا روڑا ثابت ہوتی رہی ہیں۔خون شہداء سے لت پت داتا کا دربار، خواجہ کا گنبد، تارا گڑھ پہاڑ، شمس الدین التمش کا دربار، ناگ پور کی پہاڑی، دہلی کے ذرات اور قطب مینار اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے اکابرین ہمیشہ عفو و در گزر سے کام لے کر دلوں پر اپنی حکومت مضبوط و مستحکم کرتے رہے ہیں۔ہم انتقامی کارروائی کے جذبات سے اوپر اٹھ کر اپنا احتساب بھی کریں کہ امتداد زمانہ کے ساتھ ہمارے اندر کس طرح کی تبدیلیاں آئی ہیں جن کی پاداش میں ہمیں یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں اور اس موقع پر اپنے قول وعمل سے یہ اعلان کریں کہ ’’لاتثریب علیکم الیوم۔انتم الطلقاء‘‘ صلح ومعاہدہ سے فتح مبین تک پہنچنا اور اس کے بعد عام معافی کا اعلان کردینا یہی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور لازوال اسوہ ہے۔
غزہ جانے والے ترکی کے جہاز پر اسرائیل کا جارحانہ حملہ، اس حملہ کی عالمی مذمت کو روکنے کے لیے امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، اسی ادھیڑبن کے درمیان لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر خود کش حملہ یہ مختلف حادثات و واقعات مسلمانوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتے ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور ان کے حق بجانب ہونے کا جواز بھی پیدا کیا جارہا ہے۔داخلی طور پر مسلمانوں کے درمیان اتنے اختلافات ہیں کہ امریکہ کی ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی کی تائید میں سعودی حکمراں شاہ عبداللہ ذرا بھی عار نہیں محسوس کرتے۔دوسری طرف ہندوپاک میں کچھ مسلم تنظیمیں ایسی ہیں جو خود کش حملوں کو ہی تمام تر مسائل کا حل سمجھتی ہیں، جس سے مسلمانوں کی شبیہ مزید خراب ہونے کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکل سکتا-
یکم جولائی 2010 کو لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جس طرح کا واقعہ رونما ہوا وہ تمام مسلمانوں کو وحشی اور انسانیت سوز ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، جس میں پچاسوں زائرین شہید کردیے گئے اور سیکڑوں کی تعداد میں داخل اسپتال ہوئے۔ مزار سے تیس میٹرکی دوری پر ہونے والے اس خود کش حملہ میں جان گنوانے والے لوگوں کے اعضائے جسمانی ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔جگہ جگہ خون کے دھبے تھے۔ سنگ مر مر سے تعمیر اس عمارت کو تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، البتہ عمارت میں لگے شیشے ٹوٹ کر مزار شریف پر آگرے۔ان تمام مناظر کی تصاویر مختلف اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں اور ویب سائٹس پر بھی انہیں نمایاں طور سے شائع کیاگیا-اس واقعہ کو دلیل کے طور پر استعمال کرکے کل کو امریکہ پاکستانی خطہ میں ڈرون حملے کرتا ہے تو اس پر لعن وطعن کرنے کا ہمیں کیا حق حاصل ہوگا ؟وہ تو علی الاعلان یہ باور کرائے گا کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں طالبان اور القاعدہ سرگرم عمل ہیں جن کی بیخ کنی کے لیے فوجی کارروائی ضروری ہے اور اس کے اتحادی کھل کر اس کی حمایت کریں گے۔ اس وقت جہاد کے نام پر عوام کا ناحق خون بہانے والے چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں داخل ہوجائیں گے اور اس میں بھی عام مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے گی اور ایوان باطل میں رقص ابلیس کا دور چلے گا تو دوسری طرف پوری دنیا کے مسلمان چاہ کربھی بے اثرہی سہی نعرئہ احتجاج بھی درج نہیں کراسکیں گے۔
بعض تجزیہ نگار اپنے انداز میں اس حملہ کے پس پشت یورپی لابی کی شمولیت کی طرف بھی اشارے کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا حملہ آور غیر مسلم تھے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہی ہوگا تو کیا آج کے مسلمان اتنے کم عقل او رباؤلے ہوچکے ہیں کہ انہیں جس طرح استعمال کیا جاتا ہے، وہ استعمال ہوجاتے ہیں اور مزارات اولیاء پر بھی غارت گری کا بازار گرم کردیتے ہیں، جس میں بچوں کی آہیں، جوانوں کا کرب اورضعیفوں کی لاچاری سب کچھ شامل ہوتی ہے۔داتا دربار کے ایک خادم کا بیان ہے کہ ان کے پاس کچھ دنوں قبل فون آیا تھا کہ درگاہ میں خواتین کی آمد پر پابند ی لگائی جائے ورنہ نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور بعد میں جمعرات کی رات یہ سانحہ پیش آیا،اسی کے ساتھ مشہور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کا بیان بھی اس جانب کھلے طور پر اشارہ کرتا ہے کہ مذکورہ حملہ کے پیچھے مسلم تنظیموںکاہاتھ ہے۔جس معاشرہ میں ہم جیتے ہیںاس تکثیری سماج میں ہمارے سامنے بارہا اس قسم کے خدا ناشناس، انسانیت سے عاری، تصوف و صوفیہ اور مزارات کے مخالف اپنے بیانات دیتے رہتے ہیں جن سے ان کے باغیانہ تیور اور جذبات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اصلاح معاشرہ کے نام پر جس طرح کی یہ کارروائیاں کرتے ہیں اس سے کبھی کوئی اصلاح کی امید نہیں کی جاسکتی۔چوںکہ یہ خود اصلاحی طریقۂ نبوی اور سنت اللہ سے خالی ہوتے ہیں۔پوری اسلامی تاریخ اس بات پرشاہد عدل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے آخری ادوار تک کبھی کسی دور میں مزارات و قبرستان پر بلڈوزر نہیں چلائے گئے، لیکن جب مزار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر بلڈوزر چلایا گیا تبھی سے ایک طبقہ کے اندر اس طرح کے جذبات پیداہوئے اوران میں جسارت و جرأت پائی جانے لگی۔آج کی تاریخ میں اس طبقہ کو ریال و دینار دے دے کر ان کے حوصلے اتنے بلند کردیے گئے ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ دنیا کے کسی حصہ میںکوئی ایک مزار نظر نہ آنے دیں۔
میں اپنے ان جملوں سے قطعاً کسی بھی جماعت و تحریک اور تنظیم کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا نہ ہی ان شرپسند عناصر کی طرح مسلکی منافرت پھیلا کر خونی کھیل کو ہوا دینا چاہتا ہوں مگر وقت وانسانیت کا تقاضا ہے کہ وہ تحریکیں اور مکاتب فکر جن کی طرف اشارہ کرکے ہر ذی عقل یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ان دہشت گردوں کا تعلق فلاں جماعت سے ہے، فلاں تحریک سے ہے، ان کے اکابرین و ذمہ داران اس قسم کی انسانیت سوز حرکتوں کی کھل کر مذمت کریں اور اپنے متعلقین اور وابستگان کو ایسے گھناونے عمل سے اجتناب کی اعلانیہ تلقین کریں ،تاکہ معاشرہ میں رد عمل کے طور پر پھیلنے والی بے چینیوں اور متوقع فسادات ومسلکی تنازعات کا سدباب ہوسکے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہو اوراسلام اور مسلمانوں کی دلی آرزووں اور تمناوں کی تکمیل نہ ہوسکے ،جس کے وہ خواہاں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں ہی برسر پیکار کرکے ہم تماشائی کی صورت میں تالیاں بجائیں اور کلمہ گوایک دوسرے کا خون بہائیں ،دوسروں کو خود پر ہنسنے کے بہت سے مواقع ہم فراہم کرچکے ۔اب ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور کم ازکم سیاسی وسماجی ،ملکی وقومی معاملات ومسائل میں اتحادواتفاق کا مظاہرہ کرناچاہیے کہ حالات کامسلمانوں سے جبری تقاضا یہی ہے اور ملت کی فلاح وبہبود بھی اسی میں مضمر ہے۔یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ جب تھانہ بھون میں مولانا اشرف علی تھانوی کے مزار کو نقصان پہنچایا جائے تو اس کی مذمت میں تمام اردو اخبارات و رسائل کے صفحات کے صفحات سیاہ کردیے جائیں اور جب اس دربار میں دھماکہ کیا جائے جہاںکی حاضری کے وقت خود خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مزار کی عظمت ورفعت کے پیش نظر یہ فرمائیں:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں راپیرکامل کاملاں را رہ نماں
تواس قدیم ترین اور بافیض بارگاہ کے سلسلہ میں ہم اپنا کوئی رد عمل نہ ظاہر کریں، جب کہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہاں شہید ہونے والے تمام لوگ بے گناہ تھے۔ ہماری یہ خاموشی نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ شرمناک بھی ہے۔
واضح رہے کہ مزارات پر بے ہنگم عورتوں کی حاضری کے مخالف صرف طالبان یا دیوبندی اور اہل حدیث ہی نہیں بلکہ تمام صوفی و سنی علماء بھی اس کے سخت مخالف ہیں،البتہ وہ اصلاح معاشرہ کے لیے خلاف سنت طریقوں اور وحشیانہ رویوں کو جائز نہیںسمجھتے ۔
بزرگان دین پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹتے رہے ہیں، ان کے اقوال وافعال اور اعمال میں تضادات نہیں پائے جاتے تھے۔ ان میں جبروظلم کوبرداشت کرتے ہوئے دین کی دعوت کا جذبہ موجود تھا۔وہ نفس کی خاطر حلت وحرمت کے حیلے نہیں تراشتے تھے۔ان کی زندگیوں کا مقصد عوام کو انسانیت کی تفہیم کرانا ،ان میںاحساس سود و زیاں پیدا کرنا ،انہیں گناہوں سے دور کرنا اور ان سب کے ذریعہ خدا کی رضا کا حصول تھا ۔داتا ہوں کہ خواجہ ،قطب ہوں کہ فرید اور دیگر تمام سلاسل کے بزرگان دین کی عمومی پسندیدگی اور ان کی بارگاہوں سے ہندومسلم ،سکھ عیسائی سب کی یکساں محبت وفدائیت اور دلچسپی اظہرمن الشمس ہے اور آج کے نام نہاد مبلغین ومجتہدین کو تمام مذاہب کے متبعین بشمول مسلمانوں نے یکساں طور پر مسترد کردیا ہے۔چوں کہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے اندر اخلاص وللہیت کا فقدان ہے۔ان کے اندر قلب کو تڑپانے اور روح کو گرماکر بھٹکے ہوئے آہوں کو سوئے حرم لے چلنے کی استطاعت نہیں ہے -کیا دس سو سالہ صوفیہ کی تاریخ ہندستانی مزاج وطبیعت کو سمجھنے میں ہمارے لیے مددگار ثابت نہیں ہورہی ہے کہ یہاں صوفی منہج پر چل کر ہی (جو اصل نبوی منہج تھا )دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے ۔تخت وتاج پر قابض ہونے کے بعد دینی دعوت کا منصوبہ تیار کرنے والی کتنی ہی تحریکیں ھباء امنثورا ہوگئیں اور کتنے ہی مفروضہ امیرالمومنین کی امارت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی جب کہ دلوں پر حکومت کرنے والے حیات دوام اختیار کر گئے اور آج حکومت و انتظامیہ کے تطفیفی عمل کے باوجود موجودہ ہندوستان میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہیں اور پاکستان میں انہیں اکثریت حاصل ہے ۔یہ کثرت تعدادانہیں بزرگوں کی دعائے نیم شبی ،آہ سحرگاہی ،جہدمسلسل اور عمل پیہم کی رہین منت ہے۔اگر ان بزرگوں نے بھی گولے باروداور خودکش حملوں کاسہارا لیا ہوتا تو برصغیر ایشیا میں پاکستان وبنگلہ دیش کی مسلم حکومت اور ہندستان میں سب سے بڑی اقلیت میں مسلمان نہیں ہوتے نہ ہی صدیاں گزرجانے کے بعد انہیں یاد کیا جاتا ۔
بالفرض اگر ہم مان بھی لیں کہ قرآن و سنت کے علاوہ کوئی دوسرا ہمارے لیے آئیڈیل و نمونہ نہیں ہونا چاہیے، تب بھی کسی ایک حدیث اور ایک آیت قرآنی سے دہشت گردانہ کارروائیوں کی تائید نہیں ہوتی البتہ فتح مکہ کے دن جب کسی نے ’’الیوم یوم الملحمۃ‘‘ (آج خون کا دریا بہانے کا دن ہے۔)کا نعرہ دیا تو محسن انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘ (آج رحمت و رافت کا دن ہے) انتقام کا دن نہیں ہے۔آج ابوسفیان کے گھرمیں پناہ لینے والوں اور غلاف کعبہ کے اندر چھپنے والوں کو بھی معافی ہے۔بدر کے قیدیوں کو آزاد فرمایا۔ طائف کے اوباشوں اور لفنگوں کے لیے دعائے ایمان و رحمت فرمائی۔سب سے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتلوں، کلیجہ چبانے والوں اور دیگر اذیتیں پہنچانے والوں کی خطاؤں کو درگزر فرمادیا ۔یہ ہیں اسوۂ حسنہ کی چند جھلکیاں بصورت دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی ایک لمحہ کسی پر ظلم و ستم میں نہیں گزرا۔کسی بے گناہ کو کبھی پریشان نہیں کیا-یہ ہے اصل اسلام، یہ ہیں پیغمبر اسلام جنہوں نے خود پر کوڑے ڈالنے والی خاتون کی عیادت کی اور اس کے لیے دعائے صحت بھی فرمائی۔
۴؍جولائی 2010کو بعض اخبارات نے سنی تحریک محاذ کا اعلان شائع کیا جس میں انتقامی جذبات سے لیس سنی تحریک محاذ کے ذمہ داران کے بیانات شائع ہوئے ہیں۔ اپنے بیان میں ایک صاحب نے کہا کہ ’’عوام اہل سنت اب محفل نعت، ختم قل اور گیارہویں پر رقم خرچ کرنے کی بجائے اس رقم سے اسلحہ خریدیں تاکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے-‘‘ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ انتقامی جذبہ مصلحت سے یکسر خالی ہے۔چوںکہ انتقام منتقم کو عارضی طور پر تو مطمئن کردیتا ہے، مگر اس کے مثبت اثرات دنیا پر نقش نہیں ہوتے۔وہ بھی لائق مذمت ہوتے ہیں۔انتقامی کارروائیاں ہمیشہ احساس جرم اور ندامت و پشیمانی کے اظہار میں مجرمین کی راہ کا روڑا ثابت ہوتی رہی ہیں۔خون شہداء سے لت پت داتا کا دربار، خواجہ کا گنبد، تارا گڑھ پہاڑ، شمس الدین التمش کا دربار، ناگ پور کی پہاڑی، دہلی کے ذرات اور قطب مینار اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے اکابرین ہمیشہ عفو و در گزر سے کام لے کر دلوں پر اپنی حکومت مضبوط و مستحکم کرتے رہے ہیں۔ہم انتقامی کارروائی کے جذبات سے اوپر اٹھ کر اپنا احتساب بھی کریں کہ امتداد زمانہ کے ساتھ ہمارے اندر کس طرح کی تبدیلیاں آئی ہیں جن کی پاداش میں ہمیں یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں اور اس موقع پر اپنے قول وعمل سے یہ اعلان کریں کہ ’’لاتثریب علیکم الیوم۔انتم الطلقاء‘‘ صلح ومعاہدہ سے فتح مبین تک پہنچنا اور اس کے بعد عام معافی کا اعلان کردینا یہی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور لازوال اسوہ ہے۔