NOORAIN ALI HAQUE
Welcome
Monday, 22 October 2012
Sunday, 1 January 2012
NOORAIN ALI HAQUE: ۲۰۱۱کی ادبی سرگرمیوں پر ایک طائرانہ نظر
NOORAIN ALI HAQUE: ۲۰۱۱کی ادبی سرگرمیوں پر ایک طائرانہ نظر: نورین علی حق سال ۲۰۱۱؍ گزر چکا ہے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گزرے ہوئے سال کا ہم محاسبہ کریں کہ اس سال ہم نے ادب و فن کیلئے کیا کیا ۔ آج اس ...
NOORAIN ALI HAQUE: ۲۰۱۱کی ادبی سرگرمیوں پر ایک طائرانہ نظر
NOORAIN ALI HAQUE: ۲۰۱۱کی ادبی سرگرمیوں پر ایک طائرانہ نظر: نورین علی حق سال ۲۰۱۱؍ گزر چکا ہے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گزرے ہوئے سال کا ہم محاسبہ کریں کہ اس سال ہم نے ادب و فن کیلئے کیا کیا ۔ آج اس ...
۲۰۱۱کی ادبی سرگرمیوں پر ایک طائرانہ نظر
نورین علی حق
سال ۲۰۱۱؍ گزر چکا ہے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گزرے ہوئے سال کا ہم محاسبہ کریں کہ اس سال ہم نے ادب و فن کیلئے کیا کیا ۔ آج اس وقت انا ہزارے کی تحریک دم توڑ چکی ہے وہ بھی سخت ٹھنڈ کا شکار ہوچکے ہیں اور لوک پال بل بھی سرد بستے میں ڈال دیاگیا ہے ۔ خیر سال کے آخری لمحات بڑے پر سکون گزر رہے ہیں ایسے یہ سال اردو ادب کیلئے خوش آئند ثابت ہوا اس سال کے اہم ناولوں میں ’ لے سانس بھی آہستہ، مشرف عالم ذوقی، پلیتہ ، پیغام آفاقی ، مانجھی، غضنفر کو شمار کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں اول الذکر نے قارئین کو شاد کامیوں سے سر شار کیا اور سبق اردو ، ابجد نے اس پر خصوصی شمارے شائع کرنے کا اعلان کیا۔ نور الحسنین نے تحریر نو، نومبر ۲۰۱۱کے شمارے میں لے سانس بھی آہستہ پر اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یہ ناول پچاس سال آگے کا ناول ہے ۔یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذوقی نے اس گزرتے ہوئے سال کو بڑا عظیم تحفہ دیا ہے ۔ جسے برسوں فراموش نہیں کیا جاسکتا اس پر اور اس کے علاوہ دیگر دونوں ناولوں پر مضامین و مقالات کا سلسلہ جاری ہے اس کے علاوہ خالد جاوید کا ناول’ موت کی کتاب‘ بھی فراموش نہیں کی جاسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ خالد جاوید جدیدیت کے معروف فکشن رائٹر ہیں اور اس سے پہلے بھی اہم افسانے اور ناول وہ قارئین کے حوالے کر چکے ہیں ۔ موت کی کتاب پر سید محمد اشرف کا مضمون خاصے کی چیر ہے اور حق تو یہ ہے کہ سید محمد اشرف نے ہی اس کے مطالعہ کا حق ادا کیا ہے ورنہ ایسے بھی لوگ ہیں جن کی رائے ہے کہ ۲۰۱۱میں خالدنے جدیدیت سے ہٹ کر لکھا ہے اور مایوس کیا ہے ۔اس سال قابل ذکر افسانوی مجموعے میں طارق چھتاری، شوکت حیات، شائستہ فاخری، نجمہ محمود کے افسانوی مجموعے سامنے آئے اور انھوں نے افسانوی راہوں کو مزید ہموار کیا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خانقاہ ہوں سے متعلق افسانہ نگار نسبتاً اچھے افسانے تخلیق کر تے ہیں ۔ شائستہ فاخری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ بھی ایک عظیم خانقاہ سے خاندانی طور پر مر بوط ہیں ان کے علاوہ ساجد رشید کا افسانوی مجموعہ’ ایک مر دہ سر کی حکایت ‘بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بے شمار نا قابل فراموش افسانے دیئے اور ان کے انتقال کے بعد ایک مر دہ سر کی حکایت کے نام سے ان کا آخری افسانوی مجموعہ شائع کر کے ان کے بہی خواہوں نے اردو طبقہ پر بڑا احسان کیا ہے۔ اس سال سید محمد اشرف، حسین الحق تخلیقی سطح پرخموش تماشائی بنے رہے، البتہ حسین الحق کے افسانوی مجموعہ ’نیو کی اینٹ ‘پر اس سال زیادہ تر مضامین و مقالات سامنے آئے ۔ نیو کی اینٹ ۲۰۱۰کے اخیر میں شائع ہوا تھا اس لیے اس کا زیادہ شہرہ ۲۰۱۱میں ہی رہا ۔ مشرف عالم ذوقی کا افسانوی مجموعہ’ ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ بھی اس سال آیا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ذوقی زودنویس ہیں لیکن غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ان کا یہ مجموعہ سات سالوں بعد منظر عام پر آیا ہے ۔
ا س سال نارنگ صاحب کی کاغذ آتش زدہ ، شہزاد انجم کی تنقید ی جہات، سرور الہدیٰ کی شہر یار ، کوثر مظہری کی کتاب جمیل مظہری پر آئی ان کتابوں کی خاصی شہرت رہی۔ اس کے علاوہ ادبی رسائل و جرائد میں گر ما گرم موضوعات پر تنقید ی مضامین شائع ہوتے رہے اور داد و تحسین بھی حاصل کر تے رہے ۔رسائل میں آج کل ، ایوان اردو، تحریر نو ، آمد ، سبق اردو، دہلیز ، نیا ورق ، ذہن جدید،اثبات ،اذکار ، فکر و تحقیق نے اچھے شمارے شائع کئے لیکن سب سے بڑی کامیابی اردو دنیا کو ملی کہ وہ ملٹی کلر میں بڑے سائز میں نکلنے لگا اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو کا وہ واحد ماہنامہ ہے جسے بین الاقوامی سطح کے رسائل و جرائد کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس سے بڑی خوشی کی بات یہ رہی کہ قومی کونسل کے ڈائرکٹر حمید اللہ بھٹ نے اس کی قیمت نہیں بڑھائی اور وہ رسالہ پرانی قیمت پر ہی اب بھی دستیاب ہے ۔ آج کل اور تحریر نو نے ادبی مباحثے کی راہیں ہموار کیں ،جہاں آج کل میں افسانہ کے حوالہ سے گرما گرم بحث چھڑی وہیں تحریر نو میں بھی بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس کے مباحثوں میں جو نام خاص طور پر سامنے آئے ان میں اسیم کاویانی، سید محمد اشرف، حسین الحق، نجمہ محمود، مشرف عالم ذوقی ، عین تابش نے اہم کر دار ادا کیا اس سال غالباً پہلی مر تبہ حسین الحق جیسے صوفی با صفا پر بھی طالبانی ذہنیت کے لوگوں نے کفر کا فتویٰ عائد کیا اس طرح اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ حسین الحق کا قد بھی اس سال بڑھا ہے اور وہ اب سر سید، اقبال جیسوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں ۔ بہار سے آمد کی رسم اجرا بڑی خوش آئند رہی اور اس نے آنے کے ساتھ ہی ایک نئی امید اردو طبقہ میں بیدار کی ۔ دیدہ ور بھی خوش اسلوبی کے ساتھ نکلتا رہا ۔ خاص طور پر آج کل کے مدیر ابرار رحمانی کے اداریے خوب خوب سراہے گئے ۔ فیض صدی کے موقع پر آج کل ، ایوان اردو نے خصوصی گوشے شائع کئے ۔ فکر و تحقیق نے انتہائی خوبصورت اور لائق مطالعہ نمبر فیض پر شائع کیا۔ آج کل نے مجاز پر بھی خصوصی گوشہ شائع کیا، جسے پسند کیا گیا گو کہ اس سا ل احمد علی فاطمی نے اتر پر دیش اردو اکادمی کے ذریعہ مجاز کے حوالہ سے کچھ نہ کرنے پر جم کراس کی کھینچائی کی ۔
ڈاکٹر محمد کاظم کی کتاب داستان گوئی،انیس اعظمی کی اردو تھیٹر اور آغا حشر شائع ہوئی ،نئی نسل کی ڈاکٹر زیبا زینت کی ’پر واز قلم‘ کا اجرا راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے کیا ۔ ان کے دیگر مضامین نے بھی قارئین کو خوش کیا ،اس سال بزم سہارا نے بھی اچھے شمارے شائع کئے، نئے لکھنے والوں کو جگہ دی اس کا سفر بھی اچھا رہا ۔ روایت کے مطابق پورے ہندوستان میں مشاعرے، سیمینارو سمپوزیم ہوتے رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ٹیگور ، جے این نے پروفیسر محمد حسن اور اردو اکادمی نے ادب کی ذیلی اصناف پر سیمینار کا انعقاد کر کے اپنے سفر کو خوب سے خوب تر کرنے کا اشارہ دیا۔فیض صدی کی مناسبت سے اس سال کے ڈرامہ فیسٹول کو اردو اکادمی نے فیض کے نام منسوب کیا ۔پروفیسر اختر الواسع کی اردو اکادمی کے وائس چیئر مین کی حیثیت سے تقرری پر جس طرح کی بے وقوفانہ بحث شروع ہوئی تھی وہ اس سال اپنی موت آپ مر گئی ۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے وائس چیئر مین معروف شاعر وسیم بریلوی ہوئے ۔ کئی سالوں بعد راجستھان اردو اکادمی کی تشکیل نو ہوئی ۔ اردو اکادمی نے اردو ثقافت میلہ کا انعقاد کر کے لال قلعہ کے احاطے میں اردو والوں کو داخل کیا ، یہ میلہ پورے سال کا سب سے اہم پروگرام رہا ۔ اس میلہ نے یہ ثابت کر دیا کہ پروفیسر اختر الواسع اور انیس اعظمی کتنے با ہنر اور وسیع النظر ہیں ۔ اپنی بے علمی کے باوصف مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اتنے سارے اہم پرو گرامس ایک جگہ شاید پورے ہندوستان میں کہیں نہیں ہوتے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا ۔ یاد آتا ہے کہ روایت کے مطابق اس بار بھی مشاعرہ جشن جمہوریہ اپنی پوری آن، بان، شان کے ساتھ منعقد ہوا تھا اور مدارس کے طلبہ نے اس میں جم کر حصہ بھی لیا تھا ۔ یادش بخیر اسی بار ایک ضعیف العمر نے ضعیف العمر ممتاز شاعر وسیم بریلوی کو اسی مشاعرے جشن جمہوریہ میں گیت پڑھنے کیلئے انہیں ان کی جوانی کی قسم دی تھی ۔ اسی سال معروف فکشن نگار حسین الحق دو مہینے کے ادبی سفر پر امریکا گئے اور وائس آف امریکا سے ان کے دو پروگرام بھی نشر کئے گئے اوردیگر اردو کے ادبی پروگراموں میں بھی ان کی شرکت رہی ۔ غالباً سفر نامہ بھی آخری مرحلے میں ہے ۔ اس بار گیان پیٹھ ایوارڈ شہر یار کو دیا گیا اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کیلئے خلیل مامون کے نام کا اعلان کیا گیا۔
شاعری کے حوالے سے صلاح الدین پر ویز کی کتاب بنام غالب، تابش مہدی کا مجموعہ ’غزل نامہ‘ بیک ردیف قابل ذکر ہیں۔ ادبی رسائل و جرائد میں اچھی شاعری ہوئی ۔ ساجد رشید ، صلاح الدین پر ویز، منشا یاد جیسے اہم ادبا ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔ شعوری طور پر میں نے یہاں چند ہی نام کا تذکرہ کیا ہے کہ ابھی سال کے آخری لمحات باقی ہیں اور مزید کی گنجائش باقی ہے ۔ یقینا نئے سال کی ابتداء اردو طبقہ کیلئے بھی نئے عزائم لے کر آئے گی اور ۲۰۱۲میں اس سے بہتر ادب لکھا جائے گا۔اردو والوں کو نئے سال کی ڈھیر ساری مبارک بادیاں
خواب آنکھوں میں سلامت ہے ابھی اجڑا ہے کیا
ہم ابھی تک ہیں سفر میں ابھی بدلا ہے کیا
alihaqnrn@yahoo.com
سال ۲۰۱۱؍ گزر چکا ہے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گزرے ہوئے سال کا ہم محاسبہ کریں کہ اس سال ہم نے ادب و فن کیلئے کیا کیا ۔ آج اس وقت انا ہزارے کی تحریک دم توڑ چکی ہے وہ بھی سخت ٹھنڈ کا شکار ہوچکے ہیں اور لوک پال بل بھی سرد بستے میں ڈال دیاگیا ہے ۔ خیر سال کے آخری لمحات بڑے پر سکون گزر رہے ہیں ایسے یہ سال اردو ادب کیلئے خوش آئند ثابت ہوا اس سال کے اہم ناولوں میں ’ لے سانس بھی آہستہ، مشرف عالم ذوقی، پلیتہ ، پیغام آفاقی ، مانجھی، غضنفر کو شمار کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں اول الذکر نے قارئین کو شاد کامیوں سے سر شار کیا اور سبق اردو ، ابجد نے اس پر خصوصی شمارے شائع کرنے کا اعلان کیا۔ نور الحسنین نے تحریر نو، نومبر ۲۰۱۱کے شمارے میں لے سانس بھی آہستہ پر اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یہ ناول پچاس سال آگے کا ناول ہے ۔یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذوقی نے اس گزرتے ہوئے سال کو بڑا عظیم تحفہ دیا ہے ۔ جسے برسوں فراموش نہیں کیا جاسکتا اس پر اور اس کے علاوہ دیگر دونوں ناولوں پر مضامین و مقالات کا سلسلہ جاری ہے اس کے علاوہ خالد جاوید کا ناول’ موت کی کتاب‘ بھی فراموش نہیں کی جاسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ خالد جاوید جدیدیت کے معروف فکشن رائٹر ہیں اور اس سے پہلے بھی اہم افسانے اور ناول وہ قارئین کے حوالے کر چکے ہیں ۔ موت کی کتاب پر سید محمد اشرف کا مضمون خاصے کی چیر ہے اور حق تو یہ ہے کہ سید محمد اشرف نے ہی اس کے مطالعہ کا حق ادا کیا ہے ورنہ ایسے بھی لوگ ہیں جن کی رائے ہے کہ ۲۰۱۱میں خالدنے جدیدیت سے ہٹ کر لکھا ہے اور مایوس کیا ہے ۔اس سال قابل ذکر افسانوی مجموعے میں طارق چھتاری، شوکت حیات، شائستہ فاخری، نجمہ محمود کے افسانوی مجموعے سامنے آئے اور انھوں نے افسانوی راہوں کو مزید ہموار کیا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خانقاہ ہوں سے متعلق افسانہ نگار نسبتاً اچھے افسانے تخلیق کر تے ہیں ۔ شائستہ فاخری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ بھی ایک عظیم خانقاہ سے خاندانی طور پر مر بوط ہیں ان کے علاوہ ساجد رشید کا افسانوی مجموعہ’ ایک مر دہ سر کی حکایت ‘بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بے شمار نا قابل فراموش افسانے دیئے اور ان کے انتقال کے بعد ایک مر دہ سر کی حکایت کے نام سے ان کا آخری افسانوی مجموعہ شائع کر کے ان کے بہی خواہوں نے اردو طبقہ پر بڑا احسان کیا ہے۔ اس سال سید محمد اشرف، حسین الحق تخلیقی سطح پرخموش تماشائی بنے رہے، البتہ حسین الحق کے افسانوی مجموعہ ’نیو کی اینٹ ‘پر اس سال زیادہ تر مضامین و مقالات سامنے آئے ۔ نیو کی اینٹ ۲۰۱۰کے اخیر میں شائع ہوا تھا اس لیے اس کا زیادہ شہرہ ۲۰۱۱میں ہی رہا ۔ مشرف عالم ذوقی کا افسانوی مجموعہ’ ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ بھی اس سال آیا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ذوقی زودنویس ہیں لیکن غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ان کا یہ مجموعہ سات سالوں بعد منظر عام پر آیا ہے ۔
ا س سال نارنگ صاحب کی کاغذ آتش زدہ ، شہزاد انجم کی تنقید ی جہات، سرور الہدیٰ کی شہر یار ، کوثر مظہری کی کتاب جمیل مظہری پر آئی ان کتابوں کی خاصی شہرت رہی۔ اس کے علاوہ ادبی رسائل و جرائد میں گر ما گرم موضوعات پر تنقید ی مضامین شائع ہوتے رہے اور داد و تحسین بھی حاصل کر تے رہے ۔رسائل میں آج کل ، ایوان اردو، تحریر نو ، آمد ، سبق اردو، دہلیز ، نیا ورق ، ذہن جدید،اثبات ،اذکار ، فکر و تحقیق نے اچھے شمارے شائع کئے لیکن سب سے بڑی کامیابی اردو دنیا کو ملی کہ وہ ملٹی کلر میں بڑے سائز میں نکلنے لگا اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو کا وہ واحد ماہنامہ ہے جسے بین الاقوامی سطح کے رسائل و جرائد کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس سے بڑی خوشی کی بات یہ رہی کہ قومی کونسل کے ڈائرکٹر حمید اللہ بھٹ نے اس کی قیمت نہیں بڑھائی اور وہ رسالہ پرانی قیمت پر ہی اب بھی دستیاب ہے ۔ آج کل اور تحریر نو نے ادبی مباحثے کی راہیں ہموار کیں ،جہاں آج کل میں افسانہ کے حوالہ سے گرما گرم بحث چھڑی وہیں تحریر نو میں بھی بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس کے مباحثوں میں جو نام خاص طور پر سامنے آئے ان میں اسیم کاویانی، سید محمد اشرف، حسین الحق، نجمہ محمود، مشرف عالم ذوقی ، عین تابش نے اہم کر دار ادا کیا اس سال غالباً پہلی مر تبہ حسین الحق جیسے صوفی با صفا پر بھی طالبانی ذہنیت کے لوگوں نے کفر کا فتویٰ عائد کیا اس طرح اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ حسین الحق کا قد بھی اس سال بڑھا ہے اور وہ اب سر سید، اقبال جیسوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں ۔ بہار سے آمد کی رسم اجرا بڑی خوش آئند رہی اور اس نے آنے کے ساتھ ہی ایک نئی امید اردو طبقہ میں بیدار کی ۔ دیدہ ور بھی خوش اسلوبی کے ساتھ نکلتا رہا ۔ خاص طور پر آج کل کے مدیر ابرار رحمانی کے اداریے خوب خوب سراہے گئے ۔ فیض صدی کے موقع پر آج کل ، ایوان اردو نے خصوصی گوشے شائع کئے ۔ فکر و تحقیق نے انتہائی خوبصورت اور لائق مطالعہ نمبر فیض پر شائع کیا۔ آج کل نے مجاز پر بھی خصوصی گوشہ شائع کیا، جسے پسند کیا گیا گو کہ اس سا ل احمد علی فاطمی نے اتر پر دیش اردو اکادمی کے ذریعہ مجاز کے حوالہ سے کچھ نہ کرنے پر جم کراس کی کھینچائی کی ۔
ڈاکٹر محمد کاظم کی کتاب داستان گوئی،انیس اعظمی کی اردو تھیٹر اور آغا حشر شائع ہوئی ،نئی نسل کی ڈاکٹر زیبا زینت کی ’پر واز قلم‘ کا اجرا راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے کیا ۔ ان کے دیگر مضامین نے بھی قارئین کو خوش کیا ،اس سال بزم سہارا نے بھی اچھے شمارے شائع کئے، نئے لکھنے والوں کو جگہ دی اس کا سفر بھی اچھا رہا ۔ روایت کے مطابق پورے ہندوستان میں مشاعرے، سیمینارو سمپوزیم ہوتے رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ٹیگور ، جے این نے پروفیسر محمد حسن اور اردو اکادمی نے ادب کی ذیلی اصناف پر سیمینار کا انعقاد کر کے اپنے سفر کو خوب سے خوب تر کرنے کا اشارہ دیا۔فیض صدی کی مناسبت سے اس سال کے ڈرامہ فیسٹول کو اردو اکادمی نے فیض کے نام منسوب کیا ۔پروفیسر اختر الواسع کی اردو اکادمی کے وائس چیئر مین کی حیثیت سے تقرری پر جس طرح کی بے وقوفانہ بحث شروع ہوئی تھی وہ اس سال اپنی موت آپ مر گئی ۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے وائس چیئر مین معروف شاعر وسیم بریلوی ہوئے ۔ کئی سالوں بعد راجستھان اردو اکادمی کی تشکیل نو ہوئی ۔ اردو اکادمی نے اردو ثقافت میلہ کا انعقاد کر کے لال قلعہ کے احاطے میں اردو والوں کو داخل کیا ، یہ میلہ پورے سال کا سب سے اہم پروگرام رہا ۔ اس میلہ نے یہ ثابت کر دیا کہ پروفیسر اختر الواسع اور انیس اعظمی کتنے با ہنر اور وسیع النظر ہیں ۔ اپنی بے علمی کے باوصف مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اتنے سارے اہم پرو گرامس ایک جگہ شاید پورے ہندوستان میں کہیں نہیں ہوتے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا ۔ یاد آتا ہے کہ روایت کے مطابق اس بار بھی مشاعرہ جشن جمہوریہ اپنی پوری آن، بان، شان کے ساتھ منعقد ہوا تھا اور مدارس کے طلبہ نے اس میں جم کر حصہ بھی لیا تھا ۔ یادش بخیر اسی بار ایک ضعیف العمر نے ضعیف العمر ممتاز شاعر وسیم بریلوی کو اسی مشاعرے جشن جمہوریہ میں گیت پڑھنے کیلئے انہیں ان کی جوانی کی قسم دی تھی ۔ اسی سال معروف فکشن نگار حسین الحق دو مہینے کے ادبی سفر پر امریکا گئے اور وائس آف امریکا سے ان کے دو پروگرام بھی نشر کئے گئے اوردیگر اردو کے ادبی پروگراموں میں بھی ان کی شرکت رہی ۔ غالباً سفر نامہ بھی آخری مرحلے میں ہے ۔ اس بار گیان پیٹھ ایوارڈ شہر یار کو دیا گیا اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کیلئے خلیل مامون کے نام کا اعلان کیا گیا۔
شاعری کے حوالے سے صلاح الدین پر ویز کی کتاب بنام غالب، تابش مہدی کا مجموعہ ’غزل نامہ‘ بیک ردیف قابل ذکر ہیں۔ ادبی رسائل و جرائد میں اچھی شاعری ہوئی ۔ ساجد رشید ، صلاح الدین پر ویز، منشا یاد جیسے اہم ادبا ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔ شعوری طور پر میں نے یہاں چند ہی نام کا تذکرہ کیا ہے کہ ابھی سال کے آخری لمحات باقی ہیں اور مزید کی گنجائش باقی ہے ۔ یقینا نئے سال کی ابتداء اردو طبقہ کیلئے بھی نئے عزائم لے کر آئے گی اور ۲۰۱۲میں اس سے بہتر ادب لکھا جائے گا۔اردو والوں کو نئے سال کی ڈھیر ساری مبارک بادیاں
خواب آنکھوں میں سلامت ہے ابھی اجڑا ہے کیا
ہم ابھی تک ہیں سفر میں ابھی بدلا ہے کیا
alihaqnrn@yahoo.com
Sunday, 27 November 2011
تسلیمہ نسرین کی گستاخیوں کا علاج؟
نورین علی حق
آج کے اخبارات میں یہ خبر بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے کہ تسلیمہ کے خلاف مہاراشٹر کے ۴۸؍پولیس اسٹیشنوں میں شکایت درج کرائی گئی ہے جب کہ ان میں سے چند تھانوں کے افسران کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی ہے ۔چند افراد پر مشتمل ایک وفد نے ملاقات کی تھی جسے ہم نےمشورہ دیا کہ آپ حکومتی سطح سے اس بات کو اٹھائیں تاکہ اسے بڑے پیمانہ پر اٹھایا جاسکے ۔
یہ سلسلہ اس بار رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ،خود تسلیمہ بھی حصول شہرت کے اس حسین موقع کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتیں،چوں کہ اس سے قبل ہی وہ ادب کے نام پر اپنے تمام ہفوات قارئین کے حوالہ کرچکی ہیں اور اب ان کی جھولی ان ہفوات سے بھی خالی ہے جن سے نئی نسل اورپرستان ہوس جھوٹی لذتوں سے شادکام ہوا کرتے تھے ۔اب وہ بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ انہیں مفت کی شہرت بہر حال مسلمانوں کو ٹھیس پہنچاکر ہی مل سکتی ہے ۔چوں کہ اگر وہ عیسائی ویہودی اعتقادات کو زک پہنچائیں گی تو ان کا حقہ پانی تو بند ہوگا ہی ان کی زندگی کے لالے بھی پڑ جائیں گے اور خواہ مخواہ جان سے ہاتھ دھونا پڑ جائے گا، جہاں تک ہندوازم کی مخالفت کی بات ہے تو اس وقت ان کا واحد ٹھکانہ ہندوستان کی سر زمین ہے ۔ اگرانہیں یہاں رہنا ہے تو ہندوتو کو خوش رکھنا ہی ہوگا ۔جس کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ قرآن وصاحب قرآن کا وہ مذاق اڑاتی رہیں اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں سو فی صد کامیاب ہیں ۔اس سلسلہ میں یہ بھی قابل غور ہے کہ ان کی زبان کی ترسیل جتنی جلدی ہندوستانیوں میں ہوگی اتنی آسانی سے عربوں میں نہیں ہوسکتی اس لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے سر پر مسلط رہیں اور وقتا فوقتا انہیں ان کی اوقات یاد دلاتی رہیں۔تاکہ ان کے مغربی آقائوں کے ذریعہ ان کی دال روٹی کا انتظام ہوتا رہے اور مسلمان مرغ بسمل کی طرح بے بسی میں چھٹپٹانے کے علاوہ کچھ بھی نہ کرسکیں ۔
یہ تمام باتیں تو سمجھ میں آتی ہیں ،ان کے برعکس یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمان انہیں مفت کی شہرت طشت میں سجا کر پیش کرنے کے لیے کیوں اتائولے ہوتے ہیں ؟وہ توبیان دے کر خاموش ہوجاتی ہیںاور شاید اس امید پر چین کی بانسری بھی بجاتی ہوںگی کہ اب آگے کاکام مسلمان کردیں گے اور مسلمان ہندوستان کے طول وعرض میںان کے خلاف جھنڈے لے کر نکل جاتے ہیں ،گوکہ ان کے احتجاجوں اور مظاہروں کا مثبت فائدہ کچھ نہیں ہوتا اور تمام اردو اخبارات کے صفحات کے صفحات بھی سیاہ ہوجاتے ہیں ۔
یہ بھی قرین قیاس ہے کہ چند مسلم لیڈران خود ہی ان مواقع کے متلاشی رہتے ہوں گے تاکہ انہیں بھی چھپنے چھپانے کا موقع ملتارہے اور ان کا بھی ملت کے بہی خواہوں میں شمار ہوتا رہے ۔تسلیمہ نے اس بار مسلم عورتوں کو بھونڈا سا ایک مشورہ دیا تھا تب سےاب تک ان کی مخالفتوں کا بازار گرم ہے ۔
فی الوقت مہاراشٹر کے پولیس افسران کی طرح مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ آپ اتنے بڑے معاملے کو انفرادی طور پر نہ اٹھائیں ۔پہلے اتحاد کی قوت مجتمع کریں ،غیر مفاد پرست علما کا ایک پینل بنائیں اور اس کے تحت ان کی مخالفت کریں اور ایسے افراد کو بھی اپنے احتجاج میں شامل کریں جو حکومتی سطح پر اثرورسوخ رکھتے ہوں تاکہ حکومت آپ کے مطالبات پر غور کرے اور دریدہ دہنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے ۔جس ڈھب پر ہم اب تک تسلیمہ نسرین ،سلمان رشدی اور ان جیسے بے شمار لوگوں کے خلاف احتجاج کرتے آئے ہیں، وہ موثر طریقہ کار ہے ہی نہیں ۔اس سے خود مسلمانوں کا خسارہ ہوتا ہے اور ایک آدھ ناخوش گوار واقعہ کے رونما ہونے کی وجہ سے پوری ملت بھی بدنام ہوجاتی ہے ۔اگرمذاہب کے خلاف دریدہ دہنی کی روک تھام کے لیے بین مذاہب کوئی موثر کوشش ہوسکتی ہے تو اسے بھی ہمیں آزمانا چاہیے ۔اس زوال آمادہ زمانے میں بھی تمام مذاہب کے ماننے والوں میں ایسے افراد ضرور ہیں جو کسی بھی مذہب کے خلاف ایک حرف سننے کے قائل نہیں ہیں ۔اس پہل سے آپ کی سعی اصل معنی میں رنگ لائے گی اور آپ اپنے مقاصد میں بھی کامیاب ہوں گے ۔ اس وقت اپنے مسائل کی صلیب انفرادی طور پر اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔اس وقت ہر سطح پر اتحاد کی ضرورت ہے ۔ہم کب تک غیر موثر طریقہ کا ر کو اختیار کرکے شر پسند عناصر کے مقاصد کے حل کا غیر شعوری حصہ بنتے رہیں گے ۔تھانوں کا چکر نہ لگا کر ہم سونیا گاندھی اور وزیر اعظم سے مداخلت کا مطالبہ کریں اور دوبہ دو گفتگو کریں کہ ہمارے مسائل حل کریں یا ہمارے پاس ووٹ کے لیے نہ آئیں ۔تسلیمہ نسرین جتنی شہرت اپنی تحریروں اور اپنے اسلوب سےحاصل نہیں کرسکیں اس سے زیادہ ہم نے ان کی مخالفت کے ذریعہ انہیں شہرت دی ہے ۔اگر ہم متحد ہوکر ان کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اب ہم ان کے معاملہ کو اللہ کے حوالہ کردیں اور ان کے بیانات کو پاگلوں کی بڑ سمجھ کر ان پر کان ہی نہ دھریں۔ ث
آج کے اخبارات میں یہ خبر بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے کہ تسلیمہ کے خلاف مہاراشٹر کے ۴۸؍پولیس اسٹیشنوں میں شکایت درج کرائی گئی ہے جب کہ ان میں سے چند تھانوں کے افسران کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی ہے ۔چند افراد پر مشتمل ایک وفد نے ملاقات کی تھی جسے ہم نےمشورہ دیا کہ آپ حکومتی سطح سے اس بات کو اٹھائیں تاکہ اسے بڑے پیمانہ پر اٹھایا جاسکے ۔
یہ سلسلہ اس بار رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ،خود تسلیمہ بھی حصول شہرت کے اس حسین موقع کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتیں،چوں کہ اس سے قبل ہی وہ ادب کے نام پر اپنے تمام ہفوات قارئین کے حوالہ کرچکی ہیں اور اب ان کی جھولی ان ہفوات سے بھی خالی ہے جن سے نئی نسل اورپرستان ہوس جھوٹی لذتوں سے شادکام ہوا کرتے تھے ۔اب وہ بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ انہیں مفت کی شہرت بہر حال مسلمانوں کو ٹھیس پہنچاکر ہی مل سکتی ہے ۔چوں کہ اگر وہ عیسائی ویہودی اعتقادات کو زک پہنچائیں گی تو ان کا حقہ پانی تو بند ہوگا ہی ان کی زندگی کے لالے بھی پڑ جائیں گے اور خواہ مخواہ جان سے ہاتھ دھونا پڑ جائے گا، جہاں تک ہندوازم کی مخالفت کی بات ہے تو اس وقت ان کا واحد ٹھکانہ ہندوستان کی سر زمین ہے ۔ اگرانہیں یہاں رہنا ہے تو ہندوتو کو خوش رکھنا ہی ہوگا ۔جس کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ قرآن وصاحب قرآن کا وہ مذاق اڑاتی رہیں اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں سو فی صد کامیاب ہیں ۔اس سلسلہ میں یہ بھی قابل غور ہے کہ ان کی زبان کی ترسیل جتنی جلدی ہندوستانیوں میں ہوگی اتنی آسانی سے عربوں میں نہیں ہوسکتی اس لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے سر پر مسلط رہیں اور وقتا فوقتا انہیں ان کی اوقات یاد دلاتی رہیں۔تاکہ ان کے مغربی آقائوں کے ذریعہ ان کی دال روٹی کا انتظام ہوتا رہے اور مسلمان مرغ بسمل کی طرح بے بسی میں چھٹپٹانے کے علاوہ کچھ بھی نہ کرسکیں ۔
یہ تمام باتیں تو سمجھ میں آتی ہیں ،ان کے برعکس یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمان انہیں مفت کی شہرت طشت میں سجا کر پیش کرنے کے لیے کیوں اتائولے ہوتے ہیں ؟وہ توبیان دے کر خاموش ہوجاتی ہیںاور شاید اس امید پر چین کی بانسری بھی بجاتی ہوںگی کہ اب آگے کاکام مسلمان کردیں گے اور مسلمان ہندوستان کے طول وعرض میںان کے خلاف جھنڈے لے کر نکل جاتے ہیں ،گوکہ ان کے احتجاجوں اور مظاہروں کا مثبت فائدہ کچھ نہیں ہوتا اور تمام اردو اخبارات کے صفحات کے صفحات بھی سیاہ ہوجاتے ہیں ۔
یہ بھی قرین قیاس ہے کہ چند مسلم لیڈران خود ہی ان مواقع کے متلاشی رہتے ہوں گے تاکہ انہیں بھی چھپنے چھپانے کا موقع ملتارہے اور ان کا بھی ملت کے بہی خواہوں میں شمار ہوتا رہے ۔تسلیمہ نے اس بار مسلم عورتوں کو بھونڈا سا ایک مشورہ دیا تھا تب سےاب تک ان کی مخالفتوں کا بازار گرم ہے ۔
فی الوقت مہاراشٹر کے پولیس افسران کی طرح مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ آپ اتنے بڑے معاملے کو انفرادی طور پر نہ اٹھائیں ۔پہلے اتحاد کی قوت مجتمع کریں ،غیر مفاد پرست علما کا ایک پینل بنائیں اور اس کے تحت ان کی مخالفت کریں اور ایسے افراد کو بھی اپنے احتجاج میں شامل کریں جو حکومتی سطح پر اثرورسوخ رکھتے ہوں تاکہ حکومت آپ کے مطالبات پر غور کرے اور دریدہ دہنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے ۔جس ڈھب پر ہم اب تک تسلیمہ نسرین ،سلمان رشدی اور ان جیسے بے شمار لوگوں کے خلاف احتجاج کرتے آئے ہیں، وہ موثر طریقہ کار ہے ہی نہیں ۔اس سے خود مسلمانوں کا خسارہ ہوتا ہے اور ایک آدھ ناخوش گوار واقعہ کے رونما ہونے کی وجہ سے پوری ملت بھی بدنام ہوجاتی ہے ۔اگرمذاہب کے خلاف دریدہ دہنی کی روک تھام کے لیے بین مذاہب کوئی موثر کوشش ہوسکتی ہے تو اسے بھی ہمیں آزمانا چاہیے ۔اس زوال آمادہ زمانے میں بھی تمام مذاہب کے ماننے والوں میں ایسے افراد ضرور ہیں جو کسی بھی مذہب کے خلاف ایک حرف سننے کے قائل نہیں ہیں ۔اس پہل سے آپ کی سعی اصل معنی میں رنگ لائے گی اور آپ اپنے مقاصد میں بھی کامیاب ہوں گے ۔ اس وقت اپنے مسائل کی صلیب انفرادی طور پر اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔اس وقت ہر سطح پر اتحاد کی ضرورت ہے ۔ہم کب تک غیر موثر طریقہ کا ر کو اختیار کرکے شر پسند عناصر کے مقاصد کے حل کا غیر شعوری حصہ بنتے رہیں گے ۔تھانوں کا چکر نہ لگا کر ہم سونیا گاندھی اور وزیر اعظم سے مداخلت کا مطالبہ کریں اور دوبہ دو گفتگو کریں کہ ہمارے مسائل حل کریں یا ہمارے پاس ووٹ کے لیے نہ آئیں ۔تسلیمہ نسرین جتنی شہرت اپنی تحریروں اور اپنے اسلوب سےحاصل نہیں کرسکیں اس سے زیادہ ہم نے ان کی مخالفت کے ذریعہ انہیں شہرت دی ہے ۔اگر ہم متحد ہوکر ان کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اب ہم ان کے معاملہ کو اللہ کے حوالہ کردیں اور ان کے بیانات کو پاگلوں کی بڑ سمجھ کر ان پر کان ہی نہ دھریں۔ ث
Subscribe to:
Posts (Atom)